Ayats Found (2)
Surah 24 : Ayat 30
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَـٰرِهِمْ وَيَحْفَظُواْ فُرُوجَهُمْۚ ذَٲلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا يَصْنَعُونَ
اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں 1اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں2، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے
2 | شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد محض نا جائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے۔ مرد کے لیے ستر کے حدود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ناف سے کھٹنے تک مقرر فرماۓ ہیں : عورۃ الرجل ما بین سُرَّ تہ الیٰ رکبتہٖ ، ’’ مرد کا ستر اس کی ناف سے کھٹنے تک ہے ’’ (دارقطنی بیہقی)۔ اس حصہ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے۔ حضرت جَرھَدِاَسْلمی، جو اصحاب صُفَّہ میں سے ایک بزرگ تھے ، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی۔ حضورؐ نے فرمایا : اما علمت ان الفخذ عورۃ، ’’ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے قابل چیز ہے ‘‘؟ (ترمذی، ابو داؤد ، مؤطا )۔ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا تُبرِز (یا لا تکشف) فخذک، ’’اپنی ران کبھی نہ کھولو‘‘۔ (ابو داؤد ، ابن ماجہ)۔ صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں ، تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے۔ چنانچہ حضور کا ارشاد ہے : ایاکم ولاتعری فان معکم من لا یفار قکم الا عندالغائط وحین یفضی الرجلالیٰ اھلہٖ فا ستحیوھم وا کرمو ھم ، ’’ خبر دار، کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے (یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے ) سواۓ اس اوقات کے جب تم رفع ھاضت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو‘‘ (ترمذی)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : احفظ عورت کالا من زوجتک او ما ملکت یمینک ، ‘‘ اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو‘‘۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا : فاللہ تبارک و تعالیٰ احق ان یستھیامنہ ، ’’ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جاۓ ، ‘‘ (ابو داؤد، ترمذی ، ابن ماجہ) |
1 | اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے ، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے۔ لیکن در اصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے ، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ’’ نظر بچانے ‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے ، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جاۓ ، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جاۓ۔ مِنْ اَبْسَارِھِمْ میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ با لفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جاۓ ، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔ کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں : 1 : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جاۓ تو وہ معاف ہے ، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑاۓ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں ، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں (بخاری ، مسلم، ابو داؤد)۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ نان لک الاولی ولیست لک ا لاٰخرۃ، ’’ اے علی ایک نظر کے بعد دوسرے نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں ‘‘(احمد، ترمذی ، ابو داؤد ، دارمی)۔ حضرت جریر بن بد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جاۓ تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو ، یا نیچی کر لو(مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد ، نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموہِ ، من تکھا مخافتی ابد لتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہٖ ’’ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پاۓ گا (طبرانی)۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : مامن مسلم ینظر ا الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا، ’’ جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ‘‘ (مسند احمد)۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باق سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضورؐ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد)۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت راست میں حضورؐ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا۔ (بخاری، ابو داؤد ، ترمذی)۔ 2: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھر نے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جاۓ۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی۔ صبح کو صفوان بن مُعطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا۔ فعر فنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باستر جاعہ حین عر فنی فخمرت وجھی بجلبابی، ’’وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا لیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے مری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، احمد، ابن جریر ، سیرت ابن ہشام)ابو داؤد ، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں ، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو۔ جواب میں کہنے لگیں : ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی ، ’’ میں نے بیٹا تو ضرور کھو یا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی‘‘۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو درخواست دی۔ حضورؐ نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا ’’ عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ‘‘۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے ، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتیں غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتوں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں ، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ‘‘ (ابو داؤد ، باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا)۔ 3 : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے ، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔ مغیرہؓ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا : النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بیجکما ، ’’ اسے دیکھ لو۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی‘‘ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ ، دارمی )۔ ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : انظر الیھا فان فی اعین الانصر شیئاً ، ’’ لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے ‘‘(مسلم، نسائی، احمد)۔ جابرؓ بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا :اذا خطب احد کم المرأۃ فَقَدَرَاَن یریٰ منھا بعض ما ید عوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل، ’’ تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ‘‘(احمد ، ابو داؤد)۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو : فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں۔ مثلاً تفتیش جرائم کے کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا ، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔ 4 : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المأۃ الیٰ عورۃ مرأۃ ، ’’ کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ‘‘ (احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی )۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذحی ولا میت ، ’’ کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو‘‘ (ابو داؤد، ابن ماجہ ) |
Surah 24 : Ayat 31
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَـٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَـٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَاۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٲنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٲنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٲتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّـٰبِعِينَ غَيْرِ أُوْلِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلَىٰ عَوْرَٲتِ ٱلنِّسَآءِۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّۚ وَتُوبُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں1، اور3 اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور3 اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے5، اور3 اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں6 وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے9، بھائی، بھائیوں کے بیٹے11، بہنوں کے بیٹے12، اپنے میل جول کی عورتیں13، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور3 قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور3 وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں16 وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے
19 | اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دوسری اصلاحات کا بھی ایک خلاصہ دے دیا جاۓ جو ان احکام کے نزول کے بعد قرآن کی روح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی معاشرے میں رائج فرمائیں : 1: آپ نے محرم رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں دوسرے لوگوں کو (خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ) کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرما دیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : لا تلجو ا علی المغیبات جان الشیطان یجریمن احدکم مجری الدم، ’’ جن عورتوں کے شوہر باہر گۓ ہوۓ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ، کیونکہ شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے ‘‘ (ترمذی)۔ ان ہی حضرت جابر کی دوسری روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من کان یؤمن باللہ ولیوم الاٰخر فلا یخلون بامرأۃ لیس معھا ذو محرم منھا فان ثالثھما الشیطان، ’’ جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس عورت کا کوئی محرم نہ ہو، کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے ‘‘ (احمد)۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک اور روایت امام احمد نے عامر بن ربیعہ سے نقل کی ہے۔ اس معاملے میں حضور کی اپنی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ رات کے وقت آپ حضرت صفیہ کے ساتھ ان کے مکان کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں دو انصاری پاس سے گزرے۔ آپ نے ان کو روک کر ان سے فرمایا یہ میرے ساتھ میری بیوی صفیہ ہیں۔ انہوں نے عرض کیا سبحان اللہ، یا رسول اللہ ، بھلا آپ کے متعلق بھی کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے ؟ فرمایا شیطان آدمی کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے ، مجھے اندیشہ ہوا کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی برا گمان نہ ڈال دے (ابو داؤد، کتاب الصوم)۔ 2 : آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت کے جسم کو لگے۔ چنانچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لے کر کرتے تھے ، لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ آپ نے کبھی اختیار نہیں فرمایا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ کبھی کسی غیر عورت کے جسم کو نہیں لگا۔ آپ عورت سے صرف زبانی عہد لیتے تھے اور جن وہ عہد کر چکتی تھی تو فرماتے ، جاؤ بس تمہاری بیعت ہو گئی‘‘ (ابو داؤد ، کتاب الخراج )۔ 3 : آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔ بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے خطبہ میں فرمایا : یخلون رجل بامرأۃ الا و معھا زو محرم، ولا تسافرالمرأۃ لا مع ذی محرم ، ’ کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو، اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو‘‘۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا میری بیوی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں مہم پر جانے والوں میں لکھا جا چکا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا : فانطلق فحج مع امرأتک، ’’ اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو چلے جاؤ ‘‘۔ اس مضمون کی متعدد احادیث ابن عمر،ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے معتبر کت حدیث میں مروی ہیں جن میں صرف مدت سفر یا مسافت سفت کے اعتبار سے اختلاف بیان ہے ، مگر اس امر میں اتفاق ہے کہ کسی مومن عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کو مانتا ہو، محرم کے بغیر سفر کرنا حلال نہیں ہے۔ ان میں سے کیس حدیث میں 12 میل یا اس سے زیادہ کے سفر پر پابندی کا ذکر ہے ، کسی میں ایک دن ، کسی میں ایک شب و روز، کسی میں دو دن اور کسی میں تین دن کی حد بتائی گئی ہے۔ لیکن یہ اختلاف ان احادیث کونہ تو ساقط الاعتبار بنا دیتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے یہی ضروری ہے کہ ان میں سے کسی ایک روایت کو دوسری روایتوں پر ترجیح دے کر اس حد کو قانونی مقدار قرار دینے کی کوشش کریں جو اس روایت میں بیان ہوئی ہو۔ اس لیے کہ اس اختلاف کی یہ معقول وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے کہ مختلف مواقع پر جیسی صورت معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوئی ہو اسی کے لحاظ سے آپ نے حکم بیان فرمایا ہو۔ مثلاً کوئی عورت تین دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے محرم کے بغیر جانے سے منع فرمایا ہو، اور کوئی ایک دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے بھی روک دیا ہو۔ اس میں مختلف سائلوں کے الگ الگ حالات اور ہر ایک کو آپ کے مختلف جوابات اصل چیز نہیں ہیں ، بلکہ اصل چیز وہ قاعدہ ہے جو اوپر ابن عباس والی روایت میں ارشاد ہوا ہے ، یعنی سفر، جسے عرف عام میں سفر کہا جاتا ہے ، محرم کے بغیر کسی عورت کو نہ کرنا چاہیے۔ 4 : آپ نے عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو روکنے کی عملاً بھی کوشش فرمائی اور قولاً بھی اس سے منع فرمایا اسلامی زندگی میں جمعہ اور جماعت کی جو اہمیت ہے ، کسی صاحب علم سے پوشیدہ نہیں۔ جمع کہ اللہ نے خود فرض کیا ہے ، اور نماز با جماعت کی اہمیت کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص بلا عذر مسجد میں حاضر نہ ہو اور اپنے گھر میں نماز پڑھے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کے مطابق اس کی نماز مقبول ہی نہیں ہوتی (ابو داؤد، ابن ماجہ ، دار قطنی، حاکم، بروایت ابن عباس )۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا (ابو داؤد بروایت ام عطیہ، دارقطنی و بیہقی بروایت جابر، ابو داؤد دو حاکم بروایت طارق بن شہاب)۔ اور نماز با جماعت میں عورتوں کی شرکت نہ صرف یہ کہ لازم نہیں رکھی بلکہ اس کی اجازت ان الفاظ میں دی کہ اگر وہ آنا چاہیں تو انہیں روکو نہیں۔ پھر اس کے ساتھ یہ تصریح بھی فرمادی کہ ان کے لیے گھر کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ ابن عمرؓ اور ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ، ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو‘‘(ابو داؤد)۔ دوسری روایات ابن عمر سے ان الفاظ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں ہیں : ائذنو اللنساء الی المساجد باللیل ، ’’ عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دو‘‘ (بخاری ، مسلم، ترمذی ، نسائی، ابو داؤد)۔ اور ایک روایت ان الفاظ میں ہے : لا منعو انساء کم المساجد و بیوتھن خیر لھن ، اپنی عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روکو نہیں ، اگرچہ ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں ‘‘ (احمد، ابو داؤد )۔ ام حمید ساعدیہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ فرمایا’’ تمہارا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے میں پڑھنے سے بہتر ہے ، اور تمہارا اپنے گھر ہی میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے ، اور تمہارا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا جامع مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے ‘‘(احمد ، طبرانی)۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت ابو داؤد میں عبد اللہؓ بن مسعود سے مروی ہے ، اور حضرت ام سلمہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ یہ ہیں : خیر مساجد النساء قعر بیوتھن، ’’ عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کے اندرونی حصے ہیں ‘‘۔ (احمد، طبرانی)۔ لیکن حضرت عائشہ دور بنی امیہ کی حالت دیکھ کر فرماتی ہیں ’’ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھتے جو اب ہیں تو ان کا مسجدوں میں آنا اسی طرح بند فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کا آنا بند کیا گیا تھا‘‘ (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ مسجد نبوی میں حضورؐ نے عورتوں کے داخل ہونے کے لیے ایک الگ دروازہ مخصوص کر دیا تھا، اور حضرت عمر اپنے دور حکومت میں مردوں کو اس دروازے سے آنے جانے کی سخت ممانعت فرماتے تھے (ابو داؤد، باب اعتزال النساء فی المساجد اور اباب ماجاء فی خروج النساء الیالمساجد)۔ جماعت میں عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے رکھی جاتی تھیں اور نماز کے خاتمے پر حضور سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر توقف فرماتے تھے تاکہ مردوں کے اٹھنے سے پہلے عورتیں اٹھ کر چلی جائیں (احمد ، بخاری ،بروایت ام سلمہ)۔ آپ کا ارشاد تھا کہ مردوں کی بہترین صف سب سے آگے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے پیچھے (یعنی عورتوں سے قریب) کی صف۔ اور عورتوں کی بہترین صف سب سے پیچھے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے آگے کی (ینعی مردوں سے قریب کی) صف ہے (مسلم۔ ابوداؤد ، ترمذی نسائی، احمد )۔ عیدین کی نماز میں عورتیں شریک ہوتی تھیں مگر ان کی جگہ مردوں سے الگ تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبے کے بعد عورتوں کی طرف جا کر ان کو الگ خطاب فرماتے تھے (ابو داؤد بروایت جابر بن عبد اللہ۔ بخاری و مسلم بروایت بن عباس)۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باہر آنحضرت نے دیکھا کہ راستے میں مرد اور عورت سب گڈ مڈ ہو گۓ ہیں۔ اس پر آپ نے عورتوں کو فرمایا : استاخرن فانہ لیس لکن ان تھتضن الطریق، علیکن بحانات الطریق، ’’ پھر جاؤ، تمہارے لیے سڑک کے بیچ میں چلنا درست نہیں ہے ، کنارے پر چلو ‘‘۔ یہ ارشاد سنتے ہی عورتیں کنارے ہو کر دیواروں کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں (ابو داؤد)۔ ان احکام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط مجلد اسلام کے مزاج سے کیسی سخت مغائرت رکھتی ہے۔ جو دین خدا کے گھر میں عبادت کے موقع پر بھی دونوں صنفوں کو خلط ملط نہیں ہونے دیتا اس کے متعلق کون تصور کر سکتا ہے کہ وہ کالجوں میں ، دفتروں میں ، کلبوں اور جلسوں میں اسی اختلاط کو جائز رکھے گا۔ 5 : عورتوں کو اعتدال کے ساتھ بناؤ سنگھار کرنے کی آپ نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ بسا اوقات خود اس کی ہدایت فرمائی ہے ، مگر اس میں حد سے گزر جانے کو بڑی سختی کے ساتھ روکا ہے۔ اس زمانے میں جس قسم کے بناؤ سنگھار عرب کی عورتوں میں رائج تھے ان میں سے حسب ذیل چیزوں کو آپ نے قابل لعنت اور سبب ہلا کت اقوام قرار دیا : اپنے بالوں میں دوسرے بال ملا کر ان کو زیادہ لمبا اور گھنا دکھانے کی کوشش کرنا۔ جسم کے مختلف حصوں کو گود نا اور مصنوعی تِل بنانا۔ بال اکھاڑ اکھاڑ کر بھویں خاص وضع می بنانا اور روئیں نوچ نوچ کر منہ صاف کرنا۔ دانتوں کو گھس گھس کر باریک بنانا ، یا دانتوں کے درمیان مصنوعی چھینیاں پیدا کرنا۔ زعفران یا درس وغیرہ کے مصنوعی ابٹنے مل کر چہرے پر مصنوعی رنگ پیدا کرنا۔ یہ احکام صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر، حضرت عبدا للہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، عبدا اللہ بن عباس، اور امیر معادیہ سے معتبر سندوں کے ساتھ مروی ہیں۔ اللہ اور رسول کی ان صاف صاف ہدایات کو دیکھ لینے کے بعد ایک مومن انسان کے لیے دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو وہ ان کی پیروی کرے اور اپنی ، اپنے گھر کی اور اپنے معاشرے کی زندگی کو ان اخلاقی فتنوں سے پاک کر دے جن کے سد باب کے لیے اللہ نے قرآن میں اور اسکے رسول نے سنت میں اس قدر تفصیلی احکام دیے ہیں۔ یا پھر اگر وہ اپنے نفس کی کمزوری کے باعث ان کی یا ان میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کم از کم اسے گناہ سمجھتے ہوۓ کرے اور اس کو گناہ مانے ، اور خواہ مخواہ کی تاویلوں سے گناہ کو صواب بنانے کی کوشش نہ کرے۔ ان دونوں صورتوں کو چھوڑ کر جو لوگ قرآن و سنت کے صریح احکام کے خلاف مغربی معاشرت کے طور طریقے اختیار کر لینے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پھر ان ہی کو عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور علانیہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ اسلام میں سرے سے پردے کا حکم موجود ہی نہیں ہے ، وہ گناہ اور نافرمانی پر جہالت اور منافقانہ ڈھٹائی کا اور اضافہ کر لیتے ہیں جس کی قدر نہ دنیا میں کوئی شریف آدمی کر سکتا ہے نہ آخرت میں خدا سے اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن مسلمانوں میں تو منافقوں سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خدا اور رسول کے ان احکام کو غلط اور ان طریقوں کو صحیح و بر حق سمجھتے ہیں جو انہوں نے غیر مسلم قوموں سے سیکھے ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ اس کے بعد بھی اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر اسلام اور کفر کے الفاظ قطعاً بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے نام بدل دیتے اور علانیہ اسلام سے نکل جاتے تو ہم کم از کم ان کی اخلاقی جرأت کا اعتراف کرتے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ یہ خیالات رکھتے ہوۓ بھی وہ مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ ذلیل قسم غالباً دنیا میں اور کوئی نہیں پائی جاتی۔ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی ، کوئی فریب، کوئی دغا بازی اور کوئی خیانت بھی خلاف توقع نہیں ہے |
18 | یعنی ان لغزشوں اور غلطیوں سے توبہ کرو جو اس معاملے میں اب تک کرتے رہے ہو، اور آئندہ کے لیے اپنے طرز عمل کی اصلاح ان ہدایات کے مطابق کر لو جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہیں |
17 | نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم کو صرف زیوروں کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا ہے ، بلکہ اس سے یہ اصول اخذ فرمایا ہے کہ نگاہ کے سو دوسرے حواس کو مشتعل کرنے والی چیزیں بھی اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اظہار زینت سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے عورتوں کو حکم دیا کہ خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مَسَا جد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات، ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو، مگر وہ خوشبو لگا کر نہ آئیں ‘‘۔ (ابو داؤد، احمد)۔ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد سے نکل کر جا رہی تھی کہ حضرت ابو ہریرہ اس کے پاس سے گزرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ خوشبو لگاۓ ہوۓ ہے۔ انہوں نے اسے روک کر پوچھا’’ اے خداۓ جبار کی بندی ، کیا تو مسجد سے آ رہی ہے‘‘؟ اس نے کہا ہاں۔ بولے ’’میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت مسجد میں خوشبو لگا کر آۓ اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جا کر غسل جنابت نہ کر لے ‘‘(ابو داؤد ، ابن ماجہ ، احمد، نسائی )۔ ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اذا استعطرت المرأۃ فمرت علی القوم لیجد وار یحھا فھی کذا وکذا قال قولا شدید ا، ’’ جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے۔ آپ نے اس کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرماۓ ‘‘(ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ آپ کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں کو وہ خوشبو استعمال کرنی چاہیے جس کا رنگ تیز ہو اور بو ہلکی ہو (ابو داؤد)۔ اسی طرح آپ نے اس بات کو بھی نا پسند فرمایا کہ عورتیں بلا ضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں۔ ضرورت پڑنے پر بات کرنے کی اجازت تو خود قرآن میں دی گئی ہے ، اور لوگوں کو دینی مسائل خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات بتایا کرتی تھیں۔ لیکن جہاں اس کی نہ ضرورت ہو اور نہ کوئی دینی یا اخلاقی فائدہ ، وہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنی آواز غیر مردوں کو سنائیں۔ چنانچہ نماز میں اگر امام بھول جاۓ تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں ، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو متنبہ کریں۔ التسبیح للرجال والتصفیق اللنساء (بخاری ، مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد ، نسائی، ابن ماجہ) |
16 | یعنی جن میں ابھی صنفی احساسات بیدار نہ ہوۓ ہوں۔ یہ تعریف زیادہ سے زیادہ دس بارہ برس کی عمر تک کے لڑکوں پر صادق آ سکتی ہے۔ اس سے زیادہ عمر کے لڑکے اگر چہ نابالغ ہوں ، مگر ان میں صنفی احساسات بیدار ہونے شروع ہو جاتے ہیں |
15 | اصل میں : التابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ مردوں میں سے وہ مرد جو تابع ہوں خواہش نہ رکھنے والے ‘‘۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ محرم مردوں کے سوا دوسرے کسی مرد کے سامنے ایک مسلمان عورت صرف اس صورت میں اظہار زینت کر سکتی ہے جب کہ اس میں دو صفات پائی جاتی ہوں : ایک یہ کہ وہ تابع، یعنی زیر دست اور ماتحت ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والا ہو، یعنی اپنی عمر یا جسمانی عدم اہلیت، یا عقلی کمزوری ، یا فقر و مسکنت ، یا زیر دستی و محکومی کی بنا پر جس میں یہ طاقت یا جرأت نہ ہو کہ صاحب خانہ کی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری نیت دل میں لا سکے۔ اس حکم کو جو شخص بھی فرمانبرداری کی نیت سے ، نہ کہ نا فرمانی کی گنجائشیں ڈھونڈنے کی نیت سے ، پڑھے گا وہ اول نظر ہی میں محسوس کر لے گا کہ آج کل کے بیرے خانسامے ، شوفر اور دوسرے جواب جواب نوکر تو بہر حال اس تعریف میں نہیں آتے۔ مفسرین اور فقہاء نے اس کی جو تشریحات کی ہیں ان پر ایک نظر ڈال لینے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اہل علم ان الفاظ کا کیا مطلب سمجھتے رہے ہیں : ابن عباس: اس سے مراد وہ سیدھا بُدھو(مُغَفَّل) آدمی ہے جو عورتوں سے دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ قَتَادہ: ایسا دست نگر آدمی جو پیٹ کی روٹی پانے کے لیے تمہارے ساتھ لگا رہے۔ مجاہد : ابلہ جو روٹی چاہتا ہے اور عورتوں کا طالب نہیں ہے۔ شَعبِی : وہ جو صاحب خانہ کا تبع و دست نگر ہو اور جس کی اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ عورتوں پر نگاہ ڈال سکے۔ ابن زید : وہ جو کسی خاندان کے ساتھ لگا رہے ، حتیٰ کہ گویا اسی گھر کا ایک فرد بن گیا ہو اور اسی گھر میں پلا بڑھا ہو۔ جو گھر والوں کی عورتوں پر نگاہ نہ رکھتا ہو، نہ اس کی ہمت ہی کر سکتا ہو۔ وہ ان کے ساتھ اس لیے لگا رہتا ہو کہ ان سے اس کو روٹی ملتی ہے۔ طاؤس اور زُہری: بے وقوف آدمی جس میں نہ عورتوں کی طرف رغبت ہو اور نہ اس کی ہمت۔ (ابن جریر، ج 18۔ ص 95۔ 96۔ ابن کثیر، ج3 ص 285 ) ان تشریحات سے بھی زیادہ واضح تشریح وہ واقعہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پیش آیا تھا اور جسے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور احمد عغیرہ محدثین نے حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے روایت کیا ہے۔ مدینہ طیبہ میں ایک مخنّث تھا جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غیر اولی الاربہ میں شمار کر کے اپنے ہاں آنے دیتی تھیں۔ ایک روز جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ام المومنین ام سلمہؓ کے ہاں تشریف لے گۓ تو آپ نے اس کو حضرت ام سلمہ کے بھائی عبد اللہ بن ابی امیہ سے باتیں کرتے سن لیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل اگر طائف فتح ہو جاۓ تو غیلان ثَقَفِی کی بیٹی باویہ کو حاصل کیے بغیر نہ رہنا۔ پھر اس نے باویہ کے حسن اور اس کے جسم کی تعریف کرنی شروع کی اور اس کے پوشدہ اعضاء تک کی صفت بیان کر ڈالی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا ’’ خدا کے دشمن، تو نے تو اس میں نظریں گاڑ دیں ‘‘۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو، آئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پاۓ۔ اس کے بعد آپ نے اسے مدینے سے باہر نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھروں میں گھسنے سے منع فرما دیا، کیونکہ ان کو مخنّث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہ کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ : غیر اولیا الا ربہ ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص جسمانی طور پر بد کاری کے لائق نہیں ہے۔ اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو بہر حال وہ بہت سے فتنوں کا موجب بن سکتا ہے |
14 | اس حکم کا مطلب سمجھنے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ ایک گروہ اس سے مراد صرف وہ لونڈیاں لیتا ہے جو کسی عورت کی ملک میں ہوں۔ ان حضرات کے نزدیک ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشرکہ ہو یا اہل کتاب میں سے ، مسلمان مالکہ اس کے سامنے تو اظہار زینت کر سکتی ہے مگر غلام، چاہے وہ عورت کا اپنا مملوک ہی کیوں نہ ہو، پردے کے معاملہ میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے۔ یہ عبد اللہ بن مسعود، مجاہد، حسن بصری، ابن سیرین، سعید بن مُسَیَّب، طاؤس اور امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام شافعی کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔ ان بزرگوں کا استدلال یہ ہے کہ غلام کے لیے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے۔ اگر وہ آزاد ہو جاۓ تو اپنی اسی سابق مالکہ سے نکاح کر سکتا ہے۔ لہٰذا محض غلامی اس امر کا سبب نہیں بن سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت مرحم مردوں کے سامنے برتنے کے لیے دی گئی ہے۔ رہا یہ سوال کہ : ما ملکت ایمانھن کے الفاظ عام ہیں ، جو لونڈی اور غلام دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، پھر اسے لونڈیوں کے لیے خاص کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ الفاظ اگرچہ عام ہیں مگر موقع و محل ان کا مفہوم لونڈیوں کے لیے خاص کر رہا ہے۔ پہلے نِسَآءِ ھِنَّ فرمایا ، پھر ما ملکت ایما نھن ارشاد ہوا۔ نِسَآءِ ھِنَّ کے الفاظ سن کر عام آدمی یہ سمجھ سکتا تھا کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کسی عورت کی ملنے جلنے والی یا رشتہ دار ہوں۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ شاید لونڈیاں اس میں شامل نہ ہوں۔ اس لیے ماملکت ایمانھن کہہ کر یہ بات صاف کر دی گئی کہ آزاد عورتوں کی طرح لونڈیوں کے سامنے بھی اظہار زینت کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس اجازت میں لونڈی اور غلام دونوں شامل ہیں۔ یہ حضرت عائشہ اور ام سَلَمہ اور بعض ائمۂ اہل بیت کا مذہب ہے اور امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے۔ ان کا استدلال صرف لفظ ما ملکت ایمانھن کے عموم ہی سے نہیں ہے بلکہ وہ سنت سے بھی اپنی تائید میں شواہد پیش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ واقعہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک غلام عبد اللہ بن مسعدۃ الفَزاری کو لیے ہوۓ حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے گۓ۔ وہ اس وقت ایک ایسی چادر اوڑھے ہوۓ تھیں جس سے سر ڈھانکتی تھیں تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتی تھیں تو سر کھل جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر فرمایا : لیس علیک باسٌ ، انماھوا بوک و غلامک۔ ’’ کوئی حرج نہیں ، یہاں بس تمہارا باپ ہے اور تمہارا غلام ‘‘(ابو داؤد ، احمد، بیہقی بروایت انس بن مالک۔ ابن عسا کرنے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ غلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ کو دے دیا تھا ، انہوں نے اسے پرورش کیا اور پھر آزاد کر دیا، مگر اس احسان کا جو بدلہ اس نے دیا وہ یہ تھا کہ جنگ صفین کے زمانے میں وہ حضرت علی کا بد ترین دشمن اور امری معاویہ کا پر جوش حامی تھا)۔ اسی طرح وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ : اذا کان لاحد اکن مکاتب و کان لہ مایؤ دی فلتحتجب منہ ، ’’ جب تم میں سے کوئی اپنے غلام سے مکاتبت کر لے اور وہ مال کتابت ادا کرنے کی مقدرت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ایسے غلام سے پردہ کرے ‘‘(ابو داؤد، ترمذی ، ابن ماجہ، بروایت ام سلمہ) |
13 | اصل میں لفظ نِسَآئِھِنَّ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ‘‘ ان کی عورتیں ‘‘۔ اس سے کون عورتیں مراد ہیں ، یہ بحث تو بعد کی ہے۔ سب سے پہلے جو بات قابل غور اور قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ محض‘‘عورتوں ‘‘ (النسآء ) کا لفظ استعمال نہیں کیا جس سے مسلمان عورت کے لیے تمام عورتوں اور ہر قسم کی عورتوں کے سامنے بے پردہ ہونا اور اظہارِ زینت کرنا جائز ہو جاتا، بلکہ نِسَآئِھِنَّ کہہ کر عورتوں کے ساتھ اس کی آزادی کو بہر حال ایک خاص دائرے تک محدود کر دیا ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ دائرہ کوئی سا ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کونسا دائرہ ہے ، اور وہ کون عورتیں ہیں جن پر لفظ نِسَآ ءِ ھِنَّ کا الطلاق ہوتا ہے ، اس میں فقہاء اور مفسرین کے اقوال مختلف ہیں : ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسلمان عورتیں ہیں۔ غیر مسلم عورتوں خواہ وہ ذمّی ہوں یا کسی اور قسم کی، ان سے مسلمان عورتوں کو اسی طرح پردہ کرنا چاہیے جس طرح مردوں سے کیا جاتا ہے۔ ابن عباس ، مجاہد اور ابن جریج کی یہی راۓ ہے ، اور یہ لوگ اپنی تائید میں یہ واقعہ بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو عُبیدہ کو لکھا ’’ میں نے سنا ہے مسلمانوں کی بعض عورتیں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے لگی ہیں۔ حالانکہ جو عورت اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کے جسم پر اس کے اہل ملت کے سوا کسی اور کی نظر پڑے ‘‘۔ یہ خط جب حضرت ابو عبیدہ کو ملا تو وہ ایک دم گھبرا کر کھڑے ہو گۓ اور کہنے لگے ‘‘ خدایا جو مسلمان عورت محض گوری ہونے کے لیے ان حماموں میں جاۓ اس کا منہ آخرت میں کالا ہو جاۓ ‘‘۔ (ابن جریر ، بیہقی ، ابن کثیر)۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد تمام عورتیں ہیں۔ امام رازی کے نزدیک یہی صحیح مطلب ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی تھا تو پھر نِسَآءِ ھِنَّ کہنے کا کیا مطلب ؟ اس صورت میں تو النساء کہنا چاہیے تھا۔ تیسری راۓ یہ ہے اور یہی معقول بھی ہے اور قرآن کے الفاظ سے قریب تر بھی کہ اس سے در اصل ان کے میل جول کی عورتیں ، ان کی جانی بوجھی عورتیں ، ان سے تعلقات رکھنے والی اور ان کے کام کاج میں حصہ لینے والی عورتیں مراد ہیں ، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اور مقصود ان عورتوں کو اس دائرے سے خارج کرنا ہے جو یا تو اجنبی ہوں کہ ان کے اخلاق و تہذیب کا حال معلوم نہ ہو، یا جن کے ظاہری حالات مشتبہ ہوں اور ان پر اعتماد نہ کیا جا سکتے۔ اس راۓ کی تائید ان صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کے پاس ذمی عورتوں کی حاضری کا ذکر آتا ہے۔ اس معاملے میں اصل چیز جس کا لحاظ کیا جاۓ گا وہ مذہبی اختلاف نہیں بلکہ اخلاقی حالت ہے۔ شریف، با حیا اور نیک اطوار عورتیں جو معروف اور قابل اعتماد خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ہوں ، ان سے مسلمان عورتیں پوری طرح بے تکلف ہو سکتی ہیں ، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن بے حیا ، آبرو باختہ اور بد اطوار عورتیں ، خواہ ’’ مسلمان‘‘ ہی کیوں نہ ہوں ہر شریف عورت کو ان سے پردہ کرنا چاہیے ، کیونکہ اخلاق کے لیے ان کی صحبت غیر مردوں کی صحبت سے کچھ کم تباہ کن نہیں ہے۔ رہیں اَن جانی عورتیں ، جن کی حالت معلوم نہیں ہے ، تو ان سے ملاقات کی حد ہمارے نزدیک وہی ہے جو غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے آزادی کی زیادہ سے زیادہ حد ہو سکتی ہے ، یعنی یہ کہ عورت صرف منہ اور ہاتھ ان کے سامنے کھولے ، باقی اپنا سارا جسم اور آرائش چھپا کر رکھے |
12 | یہاں چونکہ رشتہ داروں کا حلقہ ختم ہو رہا ہے اور آگے غیر رشتہ دار لوگوں کا ذکر ہے ، اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے تین مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیجیے ، کیونکہ ان کو نہ سمجھنے سے متعدد الجھنیں واقع ہوتی ہیں : پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اظہار زینت کی آزادی کو صرف ان رشتہ داروں تک محدود سمجھتے ہیں جن کا نام یہاں لیا گیا ہے ، باقی سب لوگوں کو ، حتیٰ کہ سگے چچا اور سگے ماموں تک کو ان رشتہ داروں میں شمار کرتے ہیں جن سے پردہ کیا جانا چاہیے۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انکا نام قرآن میں نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ سگے چچا اور ماموں تو درکنار ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تو رضاعی چچا اور ماموں سے بھی پردہ کرنے کی حضرت عائشہ کو اجازت نہ دی۔ صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ابو القُعیس کے بھائی اَفْلَح ان کے ہاں آۓ اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ چونکہ پردے کا حکم آ چکا تھا اس لیے حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی ؛۔ انہوں نے کہلا کر بھیجا کہ تم تو میری بھتیجی ہو ، کیونکہ میرے بھائی ابو القعیس کی بیوی کا تم نے دودھ پیا ہے۔ لیکن حضرت عائشہ کو اس میں تامل تھا کہ یہ رشتہ بھی ایسا ہے جس میں پردہ اٹھا دینا جائز ہو۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آۓ اور آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس آیت کو اس معنی میں نہیں لیا ہے کہ اس میں جن جن رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے ان سے پردہ نہ ہو۔ اور باقی سب سے ہو۔ بلکہ آپ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ جن جن رشتہ داروں سے ایک عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اسی آیت کے حکم میں داخل ہیں ، مثلاً چچا، ماموں ، داماد اور رضاعی رشتہ دار۔ تابعین میں سے حضرت حسن بصری نے بھی یہی راۓ ظاہر کی ہے ، اور اسی کی تائید علامہ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمائی ہے (ج۔ 3 ، ص۔ 390)۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو (یعنی جن سے ایک کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح جائز ہو) وہ نہ تو محرم رشتہ داروں کے حکم میں ہیں کہ عورتیں بے تکلف ان کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ آئیں ، اور نہ بالکل اجنبیوں کے حکم میں کہ عورتیں ان سے ویسا ہی مکمل پردہ کریں جیسا غیروں سے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک کیا رویہ ہونا چاہیے ، یہ شریعت میں متعین نہیں کیا گیا ہے ، کیونکہ اس کا تعین ہو نہیں سکتا۔ اس کے حدود مختلف رشتہ داروں کے معاملے میں ان کے رشتے ، ان کی عمر ، عورت کی عمر، خاندانی تعلقات و روابط، اور فریقین کے حالات (مثلاً مکان کا مشترک ہونا یا الگ الگ مکانوں میں رہنا) کے لحاظ سے لا محالہ مختلف ہوں گے اور ہونے چاہییں۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا طرز عمل جو کچھ تھا اس سے ہم کو یہی رہنمائی ملتی ہے۔ بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر، جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سالی تھیں ، آپ کے سامنے ہوتی تھیں ، اور آخر وقت تک آپ کے اور ان کے درمیان کم از کم چہرے اور ہاتھوں کی حد تک کوئی پردہ نہ تھا۔ حجۃ الوداع نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے صرف چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم تھی (ملاحظہ ہو ابو داؤد، کتاب الحج، باب المحرم یؤ دِّب غلامہ)۔ اسی طرح حضرت ام ہانی ، جو ابو طالب کی صاحبزادی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چچا زاد بہن تھیں ، آخر وقت تک حضور کے سامنے ہوتی رہیں ، اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انہوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا۔ فتح مکہ کے موقع کا ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتا ہے (ملاحظہ ہو ابو داؤد ، کتاب الصوم ، باب فی النیہ فی الصوم والرخصۃ فیہ)۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس اپنے بیٹے فضل کو، اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچا زاد بھائی) اپنے بیٹے عبدالمطلب کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں یہ کہہ کر بھیجتے ہیں کہ اب تم لوگ جوان ہو گۓ ہو، تمہیں جب تک روزگار نہ ملے تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں ، لہٰذا تم رسولؐ اللہ کے پاس جا کر نوکری کی درخواست کرو۔ یہ دونوں حضرت زینب کے مکان پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت زینب فضل کی حقیقی پھوپھی زاد بہن ہیں۔ اور عبد المطلب بن ربیعہ کے والد سے بھی ان کا وہی رشتہ ہے جو فضل سے۔ لیکن وہ ان دونوں کے سامنے نہیں ہوتیں اور حجور کی موجودگی میں ان کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں (ابو داؤد، کتاب الخراج)۔ ان دونوں قسم کے واقعات کو ملا کر دیکھا جاۓ تو مسئلے کی صورت وہی کچھ سمجھ میں آتی ہے جو اوپر ہم بیان کر آۓ ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں رشتے میں شبہ پڑ جاۓ وہاں محرم رشتہ دار سے بھی احتیاطاً پردہ کرنا چاہیے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں ہے کہ حضرت سودہ ام المومنین کا ایک بھائی لونڈی زادہ تھا (یعنی ان کے باپ کی لونڈی کے بطن سے تھا ) اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص کو ان کے بھائی عتبہ نے وصیت کی کہ اس لڑکے کو اپنا بھتیجا سمجھ کر اس کی سر پرستی کرنا، کیونکہ وہ در اصل میرے نطفے سے ہے۔ یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپ نے حضرت سعد کا دعویٰ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ ’’ بیٹا اس کا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، رہا زانی تو اس کے حصے میں کنکر پتھر‘‘۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے حضرت سودہ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کرنا(احتجبی منہ) ، کیونکہ یہ اطمینان نہ رہا تھا کہ وہ واقعی ان کا بھائی ہے |
11 | بھائی بہنوں کے بیٹوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد ہے ، یعنی ان کے پوتے پر پوتے اور نواسے پر نواسے سب اس میں شامل ہیں |
10 | بھائیوں ‘‘ میں سگے اور سوتیلے اور ماں جاۓ بھائی سب شامل ہیں |
9 | بیٹیوں میں پوتے پر پوتے اور نواسے پر نواسے سب شامل ہیں۔ اور اس معاملے میں سگے سوتیلے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اپنے سوتیلے بچوں کی اولاد کے سامنے عورت اسی طرح آزادی کے ساتھ اظہار زینت کر سکتی ہے جس طرح خود اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کے سامنے کر سکتی ہے |
8 | اصل میں لفظ آباء استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا پر دادا اور نانا پر نانا بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ایک عورت اپنی ددھیال اور ننہیال، اور اپنے شوہر کی ددھیال اور ننہیال کے ان سب بزرگوں کے سامنے اسی طرح آ سکتی ہے جس طرح اپنے والد اور سُسر کے سامنے آ سکتی ہے |
7 | یعنی جس حلقے میں ایک عورت اپنی پوری زینت کے ساتھ آزادی سے رہ سکتی ہے وہ ان لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہیں ، خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی، بہر حال ایک عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آۓ۔ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر مھا کے فقرے میں جو حکم دیا گیا تھا اس کا مطلب یہاں کھول دیا گیا ہے کہ اس محدود حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہوں ، ان کے سامنے ایک عورت کو اپنی آرائش قصداً یا بے پروائی کے ساتھ خود نہ ظاہر کرنی چاہیے ، البتہ جو ان کی کوشش کے باوجود یا ان کے ارادے کے بغیر ظاہر ہو جاۓ ، یا جس کا چھپانا مکین نہ ہو وہ اللہ کے ہاں معاف ہے |
6 | زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں (تفسیر کشاف جلد 2 ، صفحہ 90۔ ابن کثیر جلد 3، صفحہ 283۔ 284)۔ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دو پٹہ رائج کیا گیا ، جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جاۓ ، بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر، کمر، سینہ ، سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہیں فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوۓ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں ، بیٹیوں ، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت : ولیضربن بخمر ھن علیٰ جیوبھن کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کم پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتوں مسجد نبوی میں حاضر ہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوۓ تھیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بناۓ (ابن کثیر، ج 3 ، ص 284۔ ابو داؤد ، کتاب اللباس)۔ یہ بات کہ دوپٹہ باریک کپڑے کا نہ ہونا چاہیے ، ان احکام کے مزاج اور مقصد پر غور کرنے سے خود ہی آدمی کی سمجھ میں آ جاتی ہے ، چنانچہ انصار کی خواتین نے حکم سنتے ہیں سمجھ لیا تھا کہ اس کا منشا کس طرح کے کپڑے کا دوپٹہ بنانے سے پورا ہو سکتا ہے۔ لیکن صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو بھی صرف لوگوں کے فہم پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ خود اس کی تصریح فرما دی۔ دِحْیَہ کَلْبی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ (قَبَاطِی) آئی۔ آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا ایک حصہ پھاڑ کر اپنا کرتہ بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دو پٹہ بنانے کے لیے دے دو، مگر ان سے کہہ دینا کہ تجعل تحتہ ثوباً لا یصفھا، ’’ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے۔ (ابو داؤد ، کتاب اللباس) |
5 | اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے ، ورنہ بجاۓ خود بات بالکل صاف ہے۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے کہ : لایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ، ’’ وہ اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں ‘‘۔ اور دوسرے فقرے میں اِلَّا بول کر اس حکم انہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے ما ظَھَرَ مَنْھَا ، ’’ جو کچھ اس آرائش و زیبائش میں سے ظاہر ہو، یا ظاہر ہو جاۓ ‘‘۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمائش نہ کرنی چاہیے ، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جاۓ (جیسے چادر کا ہوا سے اڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا ) یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے ، کیونکہ بہر حال اس کا چھپانا تو مککن نہیں ہے ، اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہر حال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے ) اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حسن بصری، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین نے ما ظھر منھا کا مطلب لیا ہے : مایظھرہ الانسان علی العادۃ الجادیۃ (جسے عادۃً انسان ظاہر کرتا ہے ) ، اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرائشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک یہ جائز ہے کہ عورت اپنے منہ کو مسِّی اور سرمے اور سرخی پاوڈر سے ، اور اپنے ہاتھوں کو انگوٹھی چھلے اور چوڑیوں اور کنگن وغیرہ سے آراستہ رکھ کر لوگوں کے سامنے کھولے پھرے۔ یہ مطلب ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن جصاص، جلد 3 ، صفحہ 388۔ 389)۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ : مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُ عربی زبان کے کس قاعدے سے ہو سکتے ہیں۔ ’’ظاہر ہونے ‘‘ اور ظاہر کرنے ‘‘ میں کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ’’ظاہر کرنے ‘‘ سے روک کر ’’ ظاہر ہونے ‘‘ کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔ اس رخصت کو ’’ظاہر کرنے ‘‘ کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حکم حجاب آ جانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں ، اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا، اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی نا جائز ہے۔ رہا حجاب ، تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیر محرم مردوں کے درمیان حائل کیا گیا ہے ، اور یہاں بحث سنٹر کی نہیں بلکہ احکام حجاب کی ہے |
4 | بناؤ سنگھار‘‘ ہم نے ’’ زینت‘‘ کا ترجمہ کیا ہے ، جس کے لیے دوسرا لفظ آرائش بھی ہے۔ اس کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے : خوشنما کپڑے ، زیور، اور سر، منہ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ کی مختلف آرائشیں جو بالعموم عورتوں دنیا میں کرتی ہیں ، جن کے لیے موجودہ زمانے میں (Make up) کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہ بناؤ سنگھار کس کو نہ دکھایا جاۓ ، اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے |
3 | یہ بات نگاہ میں رہے کہ شریعت الٰہی عورتوں سے صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں کرتی جو مردوں سے اس نے کیا ہے ، یعنی نظر بچانا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا ، بلکہ وہ ان سے کچھ اور مطالبے بھی کرتی ہے جو اس نے مردوں سے نہیں کیے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں عورت اور مرد یکساں نہیں ہیں |
2 | یعنی ناجائز شہوت رانی سے بھی پرہیز کریں ، اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے کھولنے سے بھی۔ اس معاملے میں عورتوں کے لیے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لیے ہیں۔ لیکن عورت کے ستر کے حدود مردوں سے مختلف ہیں۔ نیز عورت کا ستر مردوں کے لیے الگ ہے اور عورتوں کے لیے الگ۔ مردوں کے لیے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد ، حتیٰ کہ باپ بھائی کے سامنے بھی نہ کھلنا چاہیے ، اور عورت کو ایسا باریک یا چست لباس بھی نہ پہننا چاہیے جس سے بدن اندر سے جھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوۓ تھیں۔ حضورؐ نے فوراً منہ پھیر لیا اور فرمایا : یا اسماء ان الرءۃ اذابلغت المحیض لم یصلح لھا ان یریٰ منھا الا ھٰذا و ھٰذا و زاشارا لیٰ وجہ ہٖ وکفیہ ، ’’ اسماء جب عورت بالغ ہو جاۓ تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آۓ ’’(ابو داؤد)۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ ابن جریر نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ان کے ہاں ان کے اَخیانی بھائی عبداللہ بن الطفیل کی صاحبزادی آئی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں تشریف لاۓ تو انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میری بھتیجی ہے۔ آپ نے فرمایا : اذا عرکت المأۃ لم یحل لھا ان تظہر الا وجھہا والا مادون ھٰذا و قبض علیٰ ذرا4 نفسہ و ترک بین الکف مظل قبضۃ اخریٰ۔ ’’ جب عورت بالغ ہو جاۓ تو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا ، اور ہاتھ کی حد آپ نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آپ کی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی‘‘۔ اس معاملے میں صرف اتنی رعایت ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں (مثلاً باپ بھائی وغیرہ) کے سامنے عورت اپنے جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوۓ کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے آٹا گوندھتے ہوۓ آستینیں اوپر چڑھا لینا، یا گھر کا فرش دھوتے ہوۓ پائنچے کچھ اوپر کر لینا۔ اور عورت کے لیے عورت کے ستر کے حدود وہی ہیں جو مرد کے لیے مرد کے ستر کے ہیں ، یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت نیم برہنہ رہے۔ بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصوں کا ڈھانکنا فرض نہیں ہے |
1 | عورتوں کے لیے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لیے ہیں ، یعنی انہیں قصداً غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہیے ، نگاہ پڑ جاۓ تو ہٹا لینی چاہیے ، اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آ گۓ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا حتجبا منہ ، ’’ ان سے پردہ کرو‘‘۔ بیویوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ الیس اعمیٰ لا یبصرناو لایعرفنا ، ’’ یا رسول اللہ ، کیا یہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ‘‘۔ فرمایا : افعمیا وان انتما، الستما تبصرانہٖ ، ’’ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں ‘‘؟ حضرت ام سلمہ تصریح کرتی ہیں کہ : ذٰالک بعد ان اُمِرا بالحجاب ، ’’ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آ چکا تھا ‘‘۔ (احمد ، ابوداؤد، ترمذی)۔ اور اس کی تائید مؤطا کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک نا بینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا۔ کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں ، یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔ جواب میں ام المومنین نے فرمایا: لٰکنی نظرالیہ ، ’’ میں تو اسے دیکھتی ہوں ‘‘۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ 7 ھ میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبوی کے احاطے میں ایک تماشا کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود حضرت عائشہؓ کو یہ تماشا دکھایا (بخاری ، مسلم، احمد)۔ تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس کو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں۔ پہلے حضورؐ نے فرمایا ام شریک انصاریہ کے ہاں رہو۔ پھر فرمایا ’’ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ ایک بڑی مالدار اور فیاض خاتون تھیں ، بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں ،)لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں۔ رہو، وہ اندھے آدمی ہیں۔ تم ان کے ہاں بے تکلف رہ سکوگی ‘‘ (مسلم ، ابو داؤد)۔ ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے۔ ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھنا ممنوع ہے۔ راستہ چلتے ہوۓ یا دور سے کوئی جائز قسم کا کھیل تماشا دیکھتے ہوۓ مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے۔ اور کوئی حقیقی ضرورت پیش آ جاۓ تو ایک گھر میں رہتے ہوۓ بھی دیکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ امام غزالی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی روایات سے قریب قریب یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ شو لکا نی نیل لاوطار میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ جواز کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز ہی پر عمل رہا ہے۔ مسجدوں میں ، بازاروں میں ، اور سفروں میں عورتیں تو نقاب منہ پر ڈال کر جاتی تھیں کہ مرد ان کو نہ دیکھیں ، مگر مردوں کو کبھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب اوڑھیں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے ‘‘ (جلد6۔ صفحہ 101)۔ تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتوں اطمینان سے مردوں کو چھوڑیں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں |