Ayats Found (4)
Surah 26 : Ayat 224
وَٱلشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ ٱلْغَاوُۥنَ
رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں1
1 | یعنی شاعروں کے ساتھ لگے رہنے والے لوگ اپنے اخلاق، عادات و خصائل اور اُفتادِ مزاج میں ان لوگوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تمہیں نظر آتے ہیں۔ دونوں گروہوں کا فرق ایسا کھلا ہوا فرق ہے کہ ایک نظر دیکھ کر ہی آدمی جان سکتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں اور وہ کیسے۔ ایک طرف انتہائی سنجیدگی، تہذیب، شرافت، راستبازی اور خدا ترسی ہے۔ بات بات میں ذمہ داری کا احساس ہے۔ برتاؤ میں لوگوں کے حقوق کا پاس و لحاظ ہے۔ معاملات میں کمال درجہ کی دیانت و امانت ہے اور زبان جب کھلتی ہے خیر ہی کے لیے کھلتی ہے ، شر کا کلمہ کبھی اس سے ادا نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ان لوگوں کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے ، ایک بلند اور پاکیزہ نصب العین ہے جس کی دھن میں یہ رات دن لگے ہوئے ہیں اور ان کی ساری زندگی ایک مقصد عظیم کے لیے وقف ہے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ کہیں عشق بازی اور شراب نوشی کے مضامین بیان ہو رہے ہیں اور حاضرین اچھل اچھل کر ان پر داد دے رہے ہیں۔ کہیں کسی زن بازاری یا کسی گھر کی بہو بیٹی کا حسن موضوع سخن ہے اور سننے والے اس پر مزے لے رہے ہیں۔ کہیں جنسی مواصلت کی حکایت بیان ہو رہی ہے اور پورے مجمع پر شہوانیت کا بھوت مسلط ہے۔ کہیں ہزل بکا جا رہا ہے یا مسخرہ پن کی باتیں ہو رہی ہیں اور مجمع میں ہر طرف ٹھٹھے لگ رہے ہیں۔ کہیں کسی کی ہجو اڑائی جا رہی ہے اور لوگ اس سے لطف لے رہے ہیں۔ کہیں کسی کی بے جا تعریف ہو رہی ہے اور اس پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ اور کہیں کسی کے خلاف نفرت، عداوت اور انتقام کے جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں اور سننے والوں کے دلوں میں ان سے آگ سی لگی جاتی ہے۔ ان مجلسوں میں شاعروں کے کلام سننے کے لیے جو ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگتے ہیں ، اور بڑے بڑے شاعروں کے پیچھے جو لوگ لگے پھرتے ہیں ان کو دیکھ کر کوئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ اخلاق کی بندشوں سے آزاد، جذبات و خواہشات کی رو میں بہنے والے ، اور لطف و لذت کے پرستار، نیم حیوان قسم کے لوگ ہیں جن کے ذہن کو کبھی یہ خیال چھو بھی نہیں گیا ہے کہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کا کوئی بلند تر مقصد و نصب العین بھی ہو سکتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کا کھلا کھلا فرق و امتیاز اگر کسی کو نظر نہیں آتا تو وہ اندھا ہے ، اور اگر سب کچھ دیکھ کر بھی کوئی محض حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایمان نگل کر یہ کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے گرد جمع ہونے والے اسی قبیل کے لوگ ہیں جیسے شعراء اور ان کے پیچھے لگے رہنے والے لوگ ہوتے ہیں ، تو وہ جھوٹ بولنے میں بے حیائی کی ساری حدیں پار کر گیا ہے |
Surah 26 : Ayat 225
أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِى كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں1
1 | یعنی کوئی ایک متعین راہ نہیں ہے جس پر وہ سوچتے اور اپنی قوت گویائی صرف کرتے ہوں ، بلکہ ان کا تو سَنِ فکر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رَو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے جسے سوچنے اور بیان کرنے میں اس بات کا کوئی لحاظ سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ یہ بات حق اور صدق بھی ہے۔ کبھی ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں اور کبھی دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہو گیا۔ کبھی کسی سے خود ہوئے تو اے آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی بگڑ بیٹھے تو اسی کو تحت الثریٰ میں جا گرایا۔ ایک بخیل کو حاتم اور ایک بزدل کو رستم و اسفندیار پر فضیلت دینے میں انہیں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر اس سے کوئی غرض وابستہ ہو۔ اس کے برعکس کسی سے رنج پہنچ جائے تو اس کی پاک زندگی پر دھبہ لگانے اور اس کی عزت پر خاک پھینکنے میں ، بلکہ اس کے نسب پر طعن کرنے میں بھی ان کو شرم محسوس نہیں ہوتی۔ خدا پرستی اور دہریت، مادہ پرستی اور روحانیت، حسن اخلاق اور بد اخلاقی، پاکیزگی اور گندگی، سنجیدگی اور ہزل، قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو بہ پہلو مل جائے گا۔ شعراء کی ان معروف خصوصیات سے جو شخص واقف ہو اس کے دماغ میں آخر یہ بے تکی بات کیسے اتر سکتی ہے کہ اس قرآن کے لانے والے پر شاعری کی تہمت رکھی جائے جس کی تقریر جچی تلی، جس کی بات دو ٹوک، جس کی راہ بالکل واضح اور متعین ہے اور جس نے حق اور راستی اور بھلائی کی دعوت سے ہٹ کر کبھی ایک کلمہ بھی زبان سے نہیں نکالا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ آپ کے مزاج کو تو شاعری کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے : وَمَا عَلَّمْنَا ہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ، (یٰسٓ۔آیت 69 ) ’’ہم نے اس کو شعر نہیں سکھایا ہے نہ یہ اس کے کرنے کا کام ہے ‘‘۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت تھی کہ جو لوگ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ذاتی واقفیت رکھتے تھے وہ سب اسے جانتے تھے۔ معتبر روایات میں آیا ہے کہ کوئی شعر حضورؐ کو پورا یاد نہ تھا۔ دوران گفتگو میں کبھی کسی شاعر کا کوئی اچھا شعر زبان مبارک پر آتا بھی تو غیر موزوں پڑھ جاتے تھے ، یا اس میں الفاظ کا الٹ پھیر ہو جاتا تھا۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوران تقریر میں آپ نے شاعر کا مصرعہ یوں نقل کیا : کفی بالا سلام و الشیب اللمرء ناھیا حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ اصل مصرع یوں ہے : کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا ایک مرتبہ عباس بن مرداس سُلَمی سے آپ نے پوچھا، کیا تم ہی نے یہ شعر کہا ہے : اتجعل نھبی و نھب العبید و بین الاقرع و عیینہ انہوں نے عرض کیا آخری فقرہ یوں نہیں ہے بلکہ یوں ہے بینا عُیَیْنَۃَ والاقرء۔ آپ نے فرمایا معنی میں تو دونوں یکساں ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ حضورؐ کبھی اشعار بھی اپنی تقریروں میں استعمال فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا شعر سے بڑھ کر آپ کو کسی چیز سے نفرت نہ تھی۔ البتہ کبھی کبھار بنی قیس کے شاعر کا یک شعر پڑھتے تھے مگر اول کو آخر اور آخر کو اول پڑھ جاتے تھے۔ حضرت ابو بکر عرض کرتے یا رسول اللہ یوں نہیں بلکہ یوں ہے ، تو آپ فرماتے کہ ’’ بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شعر گوئی میرے کرنے کا کام ہے ‘‘ جس قسم کے مضامین سے عرب کی شاعری لبریز تھی وہ یا تو شہوانیت اور عشق بازی کے مضامین تھے ، یا شراب نوشی کے ، یا قبائلی منافرت اور جنگ و جدل کے ، یا نسلی فخر و غرور کے۔ نیکی اور بھلائی کی باتیں ان میں بہت ہی کم پائی جاتی تھیں۔ پھر جھوٹ، مبالغہ، بہتان، ہجو، بے جا تعریف، ڈینگیں ، طعن، پھبتیاں ، اور مشرکانہ خرافات تو اس شاعری کی رگ رگ میں پیوست تھیں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی راۓ اس شاعری کے متعلق یہ تھی کہ : لان یمتلئ جوف احد کم قیحا خیر لہ من ان یمتلئ شعراً، ’’ تم میں سے کسی شخص کا خول پیپ سے بھر جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے ‘‘۔ تا ہم جس شعر میں کوئی چھی بات ہوتی تھی آپ اس کی داد بھی دیتے تھے اور آپ کا ارشاد تھا کہ : ان من الشعر لحکمۃ۔’’بعض اشعار حکیمانہ ہوتے ہیں ‘‘۔ امیرین ابی الصلْٰت کا کلام سن کر آپ نے فرمایا : اٰمن شعرہ و کفر قلبہ۔ ’’اس کا شعر مومن ہے مگر اس کا دل کافر ہے ‘‘۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سو (100) کے قریب عمدہ عمدہ اشعار آپ کو سنائے اور آپ فرماتے گۓ ’’ اور سناؤ‘‘ |
Surah 26 : Ayat 226
وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ
اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں1
1 | یہ شاعروں کی ایک اور خصوصیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طرز عمل کی عین ضد تھی۔ حضورؐ کے متعلق آپ کا ہر جاننے والا جانتا تھا کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہی کہتے ہیں۔ آپ کے قول اور فعل کی مطابقت ایسی صریح حقیقت تھی جس سے آپ کے گرد و پیش کے معاشرے میں کوئی انکار نہ کر سکتا تھا۔ اس کے برعکس شعراء کے متعلق کس کو معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں کہنے کی باتیں اور ہیں اور کرنے کی اور۔ سخاوت کا مضمون اس زور شور سے بیان کریں گے کہ آدمی سمجھے شاید ان سے بڑھ کر دریا دل کوئی نہ ہو گا۔ مگر عمل میں کوئی دیکھے تو معلوم ہو گا کہ سخت بخیل ہیں۔ بہادری کی باتیں کریں گے مگر خود بزدل ہوں گے۔ بے نیازی اور قناعت و خود داری کے مضامین باندھیں گے مگر خود حرص و طمع میں ذلت کی آخری حد کو پار کر جائی گے۔ دوسروں کی ادنیٰ کمزوریوں پر گرفت کریں گے مگر خود بد ترین کمزوریوں میں مبتلا ہوں گے |
Surah 26 : Ayat 227
إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَذَكَرُواْ ٱللَّهَ كَثِيرًا وَٱنتَصَرُواْ مِنۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُواْۗ وَسَيَعْلَمُ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَىَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ
بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا1، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں2
2 | ظلم کرنے والوں سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے سراسر ہٹ دھرمی کی راہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر شاعری اور کہانت اور ساحری اور جنون کی تہمتیں لگاتے پھرتے تھے تاکہ نا واقف لوگ آپ کی دعوت سے بد گمان ہوں اور آپ کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دیں |
1 | یہاں شعراء کی اس عام مذمت سے جو اوپر بیان ہوئی، ان شعراء کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں : اول یہ کہ وہ مومن ہوں ، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔ دوسرے یہ کہ اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں ، بد کار اور فاسق و فاجر نہ ہوں ، اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر جھک نہ مارتے پھریں۔ تیسرے یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں ، اپنے عام حالات اور اوقات میں بھی، اور اپنے کلام میں بھی۔ یہ نہ ہو کہ شخصی زندگی تو زہد و تقویٰ سے آراستہ ہے مگر کلام سراسر رندی و ہوسناکی سے لبریز۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ شعر میں تو بڑی حکمت و معرفت کی باتیں بگھاری جا رہی ہیں مگر ذاتی زندگی کو دیکھیے تو یاد خدا کے سارے آثار سے خالی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حالتیں یکساں مذموم ہیں۔ ایک پسندیدہ شاعر وہی ہے جس کی نجی زندگی بھی خدا کی یاد سے معمور ہو اور شاعرانہ قابلیتیں بھی اس راہ میں وقف رہیں جو خدا سے غافل لوگوں کی نہیں بلکہ خدا شناس، خدا دوست اور خدا پرست لوگوں کی راہ ہے۔ چوتھی صفت ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخصی اغراض کے لیے تو کسی کی ہجو نہ کریں ، نہ ذاتی یا نسلی و قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں ، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔ ہروقت گھگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیاز مندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اسی کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفار و مشرکین کے شاعر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف الزامات کا جو طوفان اٹھاتے اور نفرت و عداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے اس کا جوب دینے کے لیے حضورؐ خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ کعب بن مالکؓ سے آپ نے فرمایا : اھجھم فوالذی نفسی بیدہ لہوا شد علیہم من النبل، ’’ ان کی ہجو کہا، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے ‘‘۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا اھجھم وجبریل معک، اور قلو روح القدس معک، ’’ ان کی خبر لو اور جبریل تمہارے ساتھ ہے ‘‘۔ ’’کہو اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے ‘‘ آپ کا ارشاد تھا کہ : ان المؤمن یجاھدبہ بفہٖ و لسانہٖ۔ ’’مومن تلوار سے بھی لڑتا ہے اور زبان سے بھی‘‘ |