Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 44
۞ أَتَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ ٱلْكِتَـٰبَۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟
Surah 48 : Ayat 11
سَيَقُولُ لَكَ ٱلْمُخَلَّفُونَ مِنَ ٱلْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ أَمْوَٲلُنَا وَأَهْلُونَا فَٱسْتَغْفِرْ لَنَاۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِى قُلُوبِهِمْۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ ٱللَّهِ شَيْــًٔا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعَۢاۚ بَلْ كَانَ ٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرَۢا
اے نبیؐ، بدوی عربوں1 میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ 2"ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں" یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ان سے کہنا 3"اچھا، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے
3 | یعنی اللہ کا فیصلہ تو اس علم کی بنا پر ہوگا جو وہ تمہارے عمل کی حقیقت کے متعلق رکھتا ہے۔ اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق ہو اور میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دوں تو میری یہ دعا تمہیں اللہ کی سزا سے نہ بچا دے گی۔ اور اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق نہ ہو اور میں تمہارے حق میں استغفار نہ کروں تو میرا استغفار نہ کرنا تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے گا ۔ اختیار میرا نہیں بلکہ اللہ کا ہے، اور اس کو کسی کی زبانی باتیں دھوکا نہیں دے سکتیں۔ اس لیے تمہارے ظاہری قول کو میں سچ مان بھی لوں اور اس بنا پر تمہارے حق میں دعاۓ مغفرت بھی کر دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہےیعنی اللہ کا فیصلہ تو اس علم کی بنا پر ہوگا جو وہ تمہارے عمل کی حقیقت کے متعلق رکھتا ہے۔ اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق ہو اور میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دوں تو میری یہ دعا تمہیں اللہ کی سزا سے نہ بچا دے گی۔ اور اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق نہ ہو اور میں تمہارے حق میں استغفار نہ کروں تو میرا استغفار نہ کرنا تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے گا ۔ اختیار میرا نہیں بلکہ اللہ کا ہے، اور اس کو کسی کی زبانی باتیں دھوکا نہیں دے سکتیں۔ اس لیے تمہارے ظاہری قول کو میں سچ مان بھی لوں اور اس بنا پر تمہارے حق میں دعاۓ مغفرت بھی کر دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے |
2 | اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تمہارے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ لوگ اپنے نہ نکلنے کے لیے جو عذر اب پیش کریں گے وہ محض ایک جھوٹا بہانہ ہو گا ، ورنہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ در اصل کیوں بیٹھ رہے تھے ۔ دوسرے یہ کہ ان کا اللہ کے رسول سے دعاۓ مغفرت کی درخواست کرنا محض زبانی جمع خرچ ہو گا۔ اصل میں وہ نہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں، نہ انہیں یہ احساس ہے کہ انہوں نے رسول کا ساتھ نہ دے کر کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اور نہ ان کے دل میں مغفرت کی کوئی طلب ہے۔ اپنے نزدیک تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس خطرناک سفر پر نہ جا کر بڑی عقلمندی کی ہے۔ اگر انہیں واقعی اللہ اور اس کی مغفرت کی کوئی پرسا ہوتی تو وہ گھر بیٹھے ہی کیوں رہتے |
1 | یہ اطراف مدینہ کے ان لوگوں کا ذکر ہے جنہیں عمرے کی تیاری شروع کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی، مگر وہ ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود صرف اس لیے اپنے گھروں سے نہ نکلے تھے کہ انہیں اپنی جان عزیز تھی ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اَسلم،مُزَینہ، جُہَینہ ،غِفار، اَشْجع، دِیل وغیرہ قبائل کے لوگ تھے |
Surah 61 : Ayat 2
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟
Surah 61 : Ayat 3
كَبُرَ مَقْتًا عِندَ ٱللَّهِ أَن تَقُولُواْ مَا لَا تَفْعَلُونَ
اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں1
1 | اس ارشاد کا ایک مدعا تو عام ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ اور ایک مدعا خاص ہے جو بعد والی آیت کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا۔ پہلا مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہئے ۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے ، اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے ۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں ، کجا کہ ایک ایسا شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ایٰۃ المنافق ثلاث (زادمسلم وان صام و صلی و زعم اہ مسلم) اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف واذا أتمن خان (بخاری و مسلم) منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ یہ جب بولے جھوٹ بولے ، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ، اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ۔ ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہے : اربع من کن فیہ کان منافقاخالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھم کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا، اذا اتمن خان واذاحدث کذب۔ واذا عاھد غدر، واذاخاصم فجر۔ (بخاری و مسلم) چار صفتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ چاروں پائیں جائیں و خالص منافق ہے ، اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے ، جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے ۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ، اور جب بولے تو جھوٹ بولے ، اور عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کر جائے ، اور لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالیں ۔ فقہ اسلام کا ایک بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ کوئی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرے (مثلاً کسی چیز کی نذر مانیں ) یا بندوں سے کوئی معاہدہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے تو اسے وفا کرنا لازم ہے ، الا یہ کہ کام بجائے خود گناہ ہو جس کا اس نے عہد یا وعدہ کیا ہو۔ اور گناہ ہونے کی صورت میں وہ فعل تو نہیں کرنا چاہئے جس کا عہد یا وعدہ کیا گیا ہے لیکن اس کی پابندی سے آزاد ہونے کے لیے کفارہ یمین ادا کرنا چاہئے ، جو سورہ المعائدہ آیت ۸۹ میں بیان کیا گیا ہے ۔(احکام القرآن الجصاص وابن عربی) یہ تو ہے ان آیات کا مدعا۔ رہا وہ خاص مدعا جس کے لیے اس موقع پر یہ آیات ارشاد فرمائی گئی ہیں تو بعد والی آیت کو ان کے ساتھ ملاکر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ مقصود ان لوگوں کو ملامت کرنا ہے جو اسلام کے لیے سرفروشی و جانبازی کے لمبے چوڑے وعدے کرتے تھے ، مگر جب آزمائش کا وقت آتا تھا تو بھاگ نکلتے تھے ۔ ضعیف الایمان لوگوں کی اس کمزوری پر قرآن مجید میں کئی جگہ گرفت کی گئی ہے ۔ مثلاً سورہ نساء آیت ۷۷ میں فرمایا ’’تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے ، یا اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا، یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی‘‘۔ اور سورہ محمدؐ آیت ۲۰ میں فرمایا ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی صورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے ) مگر جب ایک محکم سورت نازل کی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرف دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو‘‘۔ جنگ احد کے موقع پر یہ کمزوریاں خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں جن کی طرف سورہ آل عمران میں ۱۳ ویں رکوع سے ۱۷ ویں رکوع تک اشارات کئے گئے ہیں ۔ مفسرین نے ان آیات کی شان نزول میں ان کمزوریوں کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جہاد فرض ہونے سے پہلے مسلمانوں میں کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ کاش ہمیں وہ عمل معلوم ہو جائے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو ہم وہی کریں ۔ مگر جب بتایا گیا کہ وہ عمل ہے جہاد، تو ان پر اپنی اس بات کو پورا کرنا بہت شاق ہو گیا۔ مقاتِل بن حیّان کہتے ہیں کہ احد کی جنگ میں ان لوگوں کو آزمائش سے سابقہ پیش آیا اور یہ حضور کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ ابن زید کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ نبی ﷺ کو یقین دلاتے تھے کہ آپﷺ کو دشمنوں کے مقابلہ کے لیے نکلنا پڑے تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ نکلیں گے ۔ مگر جب وقت آیا تو ان کے وعدے جھوٹے نکلے ۔ قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ بعض لوگ جنگ میں شریک ہوتے بھی تھے تو کوئی کارنامہ انجام نہ دیتے تھے مگر آ کر یہ ڈینگیں مارتے تھے کہ ہم یوں لڑے اور ہم نے یوں مارا۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آیات میں ملامت کی ہے |