Ayats Found (1)
Surah 2 : Ayat 226
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍۖ فَإِن فَآءُو فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھے ہیں، اُن کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے1 اگر انہوں نے رجوع کر لیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے2
2 | بعض فقہا نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ اگر وہ اس مدّت کے اندر اپنی قسم توڑ دیں اور پھر سے تعلقِ زن و شو قائم کر لیں توان پر قسم توڑنے کا کفّارہ نہیں ہے، اللہ ویسے ہی معاف کر دے گا۔ لیکن اکثر فقہا کی رائے یہ ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا۔ غفورٌ رحیم کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کفارہ سے تمہیں معاف کر دیا گیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہارے کفارے کو قبول کر لے گا اور ترکِ تعلق کے دَوران میں جو زیادتی دونوں نے ایک دُوسرے پر کی ہو، اسے معاف کر دیا جائے گا |
1 | اِصطلاحِ شرع میں اس کو ایلاء کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوش گوار تو نہیں رہ سکتے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ لیکن ایسے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کےساتھ قانونی طور پر رشتہ ء ازدواج میں تو بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دُوسرے سے اس طرح الگ رہیں کہ گویا وہ میاں اور بیوی نہیں ہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالٰی نے چار مہینے کی مدّت مقرر کر دی کہ یا تو اس دَوران میں اپنے تعلقات درست کر لو، ورنہ ازدواج کا رشتہ منقطع کر دو تاکہ دونوں ایک دُوسرے سے آزاد ہو کر جس سے نباہ کر سکیں، اس کے ساتھ نکاح کر لیں۔ آیت میں چونکہ”قَسم کھالینے“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس لیے فقہائے حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشا یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شوہر نہ رکھنے کی قَسم کھائی ہو، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہوگا، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدّت کے لیے ہو، اس آیت کا حکم اُس صُورت پر چسپاں نہ ہوگا۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قَسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئے ہو، دونوں صُورتوں میں ترکِ تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مُدّت ہے۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔( بدایۃ المجتہد، جلد دوم ، ص ۸۸ ، طبع مصر، سن ۱۳۳۹ ھ) حضرت علی ؓ اور ابنِ عباس ؓ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اُس ترکِ تعلق کے لیے ہے ، جو بگاڑ کی وجہ سے ہو۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی رابطہ منقطع کر دینا، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا۔ لیکن دُوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطہ ء جسمانی کو منقطع کر دے، ایلاء ہے اور سے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے، خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے |