Ayats Found (1)
Surah 65 : Ayat 6
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَآرُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُواْ عَلَيْهِنَّۚ وَإِن كُنَّ أُوْلَـٰتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُواْ عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَـَٔـاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّۖ وَأْتَمِرُواْ بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُۥٓ أُخْرَىٰ
اُن کو (زمانہ عدت میں) اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسر ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ 1اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے2 پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو، اور بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو3 لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلا لے 4گی
4 | اس میں ماں اور باپ دونوں کے لیے عتاب کا ایک پہلو ہے ۔ انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی تلخیوں کی بنا پر، جن کے باعث بالآخر طلاق تک نوبت پہنچی تھی، دونوں بھلے طریقہ سے آپس میں بچے کی رضاعت کا معاملہ طے نہ کریں تو یہ اللہ کو پسند نہیں ہے ۔ عورت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تو زیادہ اجرت مانگ کر مرد کو تنگ کرنے کی کوشش کرے گی تو بچے کی پرورش کچھ تیرے ہی اوپر موقوف نہیں ہے ، کوئی دوسری عورت اسے دودھ پلالے گی۔ اور مرد کو بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تو ماں کی مامتا سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے تنگ کرنا چاہے گا تو یہ بھلے آدمیوں کا سا کام نہ ہو گا۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ بقرہ، آیت 233 میں زیادہ تفصیل کے ساتھ ارشاد ہوا ہے |
3 | اس ارشاد سے کئی اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ عورت اپنے دودھ کی مالک ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اس کی اجرت لینے کی مجاز نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ جب وہ وضع حمل ہوتے ہی اپنے سابق شوہر کے نکاح سے باہر ہو گئی تو بچے کو دودھ پلاۓ گی ور اس پر اجرت لینے کی حق دار ہو گی۔ تیسرے یہ کہ باپ بھی قانوناً مجبور نہیں ہے کہ بچے کی ماں ہی سے اس کو دودھ پلواۓ ۔چوتھے یہ کہ بچے کا نفقہ باپ پر عائد ہوتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ بچے کو دودھ پلانے کی اولین حق دار ماں ہے اور دوسری عورت سے رضاعت کا کام اسی صورت میں لیا جاسکتا ہے جبکہ ماں خود اس پر راضی نہ ہو، یا اس کی اجرت مانگے جس کا ادا کرنا باپ کی مقدرت میں نہ ہو۔ اسی سے چھٹا قاعدہ یہ نکلتا ہے کہ اگر دوسری عورت کو بھی وہی اجرت دینی پڑے جو بچے کی ماں مانگتی ہو تو ماں کا حق اولیٰ ہے ۔ فقہاء کی آراء اس مسئلے میں یہ ہیں: ضحاک کہتے ہیں کہ ’’ بچے کی ماں اسے دودھ پلانے کی زیادہ حق دار ہے ۔ مگر اسے اختیار ہے کہ چاہے دودھ پلاۓ یا نہ پلاۓ۔ البتہ اگر بچہ دوسری عورت کی چھاتی قبول نہ کرے تو ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جاۓ گا‘‘۔ اسی سے ملتی جلتی راۓ قتادہ اور ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کی ہے ۔ ابراہیم نخعی یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ اگر دوسرے عورت رضاعت کے لیے نہ مل رہی ہو تب بھی ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جاۓ گا’‘ (ابن جریر)۔ ہدایہ میں ہے ، ’’ اگر ماں باپ کی علیٰحدگی کے وقت چھوٹا بچہ دودھ پیچا ہو تو ماں پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہی اسے دودھ پلاۓ ۔ البتہ اگر دوسری عورت نہ ملتی ہو تو وہ رضاعت پر مجبور کی جاۓ گی۔ اور اگر باپ یہ کہے کہ میں بچے کی ماں کو اجرت دے کر اس سے دودھ پلوانے کے بجاۓ دوسری عورت سے اجرت پریہ کام لوں گا، اور ماں دوسری عورت ہی کے برابر اجرت مانگ رہی ہو، یا بلا اجرت ہی اس خدمت کے لیے راضی ہو، تو اس صورت میں ماں کا حق مقدم رکھا جاۓ گا۔ اور اگر بچے کی ماں زیادہ اُجرت مانگ رہی ہو تو باپ کو اس پر مجبور نہیں کیا جاۓ گا |
2 | یہ امر متفق علیہ ہے کہ مطلقہ، خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے ۔ البتہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ حاملہ کا شوہر مر گیا ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ طلاق دینے کے بعد مرا ہو، یا اس نے کوئی طلاق نہ دی ہو اور عورت زمانہ حمل میں بیوہ ہو گئی ہو۔ اس معاملہ میں فقہاء کے مسالک یہ ہیں: 1)۔ حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ شوہر کے مجموعی ترکہ میں اس کا نفقہ واجب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، قاضی شریح، ابو العالیہ، شعبی اور ابراہیم نخعی سے بھی یہی قول منقول ہے ، اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے (آلوسی۔جصاص)۔ 2)۔ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ اس پر اس کے پیٹ کے بچہ کے حصے میں سے خرچ کیا جاۓ اگر میت نے کوئی میراث چھوڑی ہو۔ اور اگر میراث نہ چھوڑی ہو تو میت کے وارثوں کو اس پر خرچ کرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ (البقرہ، آیت 233)۔ 3)۔ حضرت جابرؓ بن عبد اللہ، حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ، حضرت حسن نصری، حضرت سعید بن المُسَیَّب اور حضرت عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ متوفیٰ شوہر کے مال میں اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی ایک تیسرا قول یہی منقول ہوا ہے (جصاص)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے ترکہ میں سے اس کو جو میراث کا حصہ ملا ہو اس سے وہ اپنا خرچ پورا کر سکتی ہے ، لیکن شوہر کے مجموعی ترکے پر اس کا نفقہ عائد نہیں ہوتا جس کا بار تمام وارثوں پر پڑے ۔ 4)۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ اس کا نفقہ متوفی شوہر کے مال میں اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے مال میں کسی کا قرض واجب ہوتاہے (جصاص)۔ یعنی مجموعی ترکہ میں سے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے اسی طرح اس کا نفقہ بھی ادا کیا جاۓ ۔ 5)۔ امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ اور امام زُفرؒ کہتے ہیں کہ میت کے مال میں اس کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ کیونکہ موت کے بعد میت کی کوئی ملکیت ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد تو وہ وارثوں کا مال ہے ۔ ان کے مال میں حاملہ بیوہ کا نفقہ کیسے واجب ہو سکتا ہے (ہدایہ، جصاص)۔ یہی مسلک امام احمدؒ بن حنبل کا ہے (الانصاف)۔ 6)۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ، البتہ اسے سکونت کا حق ہے (مُغنی المحتاج)۔ ان کا اسدلال حضرت ابو سعید خدریؓ کی بہن فریعہ بنت مالک کے اس واقعہ سے ہے کہ ان کے شوہر جب قتل کر دیے گۓ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے گھر ہی میں عدت گزاریں( ابو داؤد، نسائی، ترمذی)۔ مزید برآں ان کا استدلال دارقُطنی کی اس روایت سے ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: للحامل المتوفی عنھا زوجھا نفقۃ۔ ’’بیوہ حاملہ کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ‘‘۔ یہی مسلک امام مالکؒ کا بھی ہے (حاشیۃ الد سوقی) |
1 | اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مطلّقہ کو اگر ر جعی طلاق دی گئی ہو تو شوہر پراس کی سکو نت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری عائد ہو تی ہے ۔اور اس امر پر بہی اتفاق ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو،تو خو ا ہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہویا قطعی طور پرا لگ کر دینے والی بہر حال اس کے وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کی نفقہ کا ذمہ دار شو ہر ہو گا۔اس کے بعد اختلاف اس امر میں ہو ا ہے کہ آیا غیر حاملہ مطلّقۂ مَبتُوتہ(یعنی جسے قطعی طور پرا لگ کر دینے والی طلاق دی گئی ہو ) سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ؟یا صرف سکونت کا حق ر کہتی ہے ؟یا دو نو ں میں سے کسی کی بہی حق دار نہیں ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ۔یہ رائے حضرت عمر،حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی بن حسین(امام زین العابد ین)،قاضی شُر یح اور ابراہیم نخعی کی ہے ۔اسی کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے ،اور امام سُفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اس کی تائید و ارقطنی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت جاب بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : المطلقۃ ثلاثا لھا السکنٰی واجفقۃ، ’’ جس عورت کو تین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس کے لیے زمانہ عدت میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ’’۔ اس کی مزید تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ایک عورت کے قول پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے علم میں لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سنت ہو گی کہ ایسی عورت کے لیے نفقہ اور سکونت کا حق ہے ۔بلیہ ابراہیم نخعی کی ایک روایت میں تو یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو رد کرتے ہوۓ فرمایا تھا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بقول لھا السکنٰی و انفقۃ، ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایسی عورت کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کابھی‘‘امام ابو بکر جصاص احکام القرآن میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوۓ اس مسلک کے حق میں پہلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً فرمایا ہے فَطَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ، ’’ ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو‘‘ اس فرمان الہٰی کا اطلاق اس شخص پر بھی تو ہوتا ہے جو دو طلاق پہلے دے کر رجوع کر چکا ہو اور اب اسے صرف ایک ہی طلاق دینے کا حق باقی ہو۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طلاق دینے کا جب یہ طریقہ بتایا کہ ’’ آدمی یا تو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو یا ایسی حالت میں طلاق دے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا ظاہر ہو چکا ہو‘‘ تو اس میں آپ نے پہلی، دوسری، یا آخری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’’ ان کو اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو‘‘ ہر قسم کی طلاق سے متعلق مانا جاۓ گا۔ تیسیر دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اس کی سکونت اور اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ۔ اور غیر حاملہ رجعیہ کے لیے بھی یہ دونوں حقوق واجب ہیں۔ اس سے معلوم ہو ا کہ کونت اور نفقہ کا وجوب در اصل حمل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں شرعاً شوہر کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اب اگر یہی حکم مبتوتہ غیر حاملہ کے بارے میں بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی سکونت اور اس کا نفقہ مرد کے ذمہ نہ ہو۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق تو ہے مگر نفقہ کا حق نہیں ہے ۔ یہ مسلک سعید بن المسیب، سلیمان بن یسار، عطاء، شعبی، اوزاعی، لیث اور ابو عبید رحمہم اللہ کا ہے ،اور امام شافعی اور امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ لیکن مغنی المحتاج میں امام شافعی کا مسلک اس سے مختلف بیان ہوا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے ۔ تیسرا گروہ کہاتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ یہ مسلک حسن بصری، حماد، ابن ابی لیلیٰ، عمرو بن دینار، طاؤس، اسحاق بن راہویہ، اور ابو ثور کا ہے ۔ابن جریر نے حضرت ابن عباس کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل اور امامیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔اور مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ تجب سکنٰی لمعتدۃِ طلاقٍ او حاملٍ ولا بائن............ ولحائل البائن لا نفقۃ لھا ولا کسوۃ۔’’ طلاق کی بنا پر جو عورت عدت گزار رہی ہو اس کے لیے سکونت کا حق واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا نہ ہو، مگر بائنہ کے لیے واجب نہیں ہے ............ اور غیر حاملہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ کپڑا‘‘۔ اس مسلک کا استدلال ایک تو قرآن مجید کی اس آیت سے ہے کہ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللہُ یُحْدِ ثُ بَعْدَ ذٰ لِکَ اَمْراً، تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ‘‘۔اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ بات مطلقہ رجعیہ کے حق ہی میں درست ہو سکتی ہے نہ کہ مبتوتہ کے حق میں۔ اس لیے مطلقہ کو گھر میں رکھنے کا حکم بھی رجعیہ ہی کے لیے خاص ہے ۔ دوسرا استدلالفاطمہ بنت قیس کی حدیث سے ہے جسے کتب حدیث میں بکثرت صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ یہ فاطمہؓ بن قیس الفہریہ اولین مہاجرات میں سے تھیں، بڑی عاقلہ سمجھی جاتی تھیں، اور حضرت عمرؓ کی شہادت کے موقع پر اصحاب شوریٰ کا اجتماع انہی کے ہاں ہوا تھا۔ یہ پہلے ابو عمرو بن حفص ؓ المحیرۃ المخزُومی کے نکاح میں تھیں، پھر ان کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دے کر الگ کر دیا، اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے کیا۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ان کو شوہر ابو عمرو پہلے ان کو دو طلاق دے چکے تھے ۔ پھر جب حضرت علی کے ساتھ وہ یمن بھیجے گۓ تو انہوں نے وہاں سے باقی ماندہ تیسری طلاق بھی ان کو بھیج دی۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ابو عمرو ہی نے اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجا تھا کہ عدت کے زمانے میں ان کو گھر میں رکھیں اور ان کا خرچ برداشت کریں۔ اور بعض میں یہ ہے کہ انہوں نے خود نفقہ و سکونت کے حق کا مطالبہ کیا تھا۔ بہر حال جو صورت بھی ہو، شوہر کے رشتہ داروں نے ان کا حق ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر یہ دعویٰ لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچیں، اور حضورؐ نے فیصلہ فرمایا کہ نہ تمہارے لیے نفقہ ہے نہ سکونت۔ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: الما النفقہ و السکنٰی للمرأۃ علیٰ زوجھا ما کانت لہۂ علیھا رجعۃ، فاذالم یکن لہ علیہحا رجعۃ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔’’ عورت کا نفقہ اور اس کی سکونت تو شوہر پر اس صورت میں واجب ہے جب کہ شوہر کو اس پر رجوع کا حق ہو۔ مگر جب رجوع کا حق نہ ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکونت‘‘(مسند احمد)۔ طبرانی اور نسائی نے بھی قریب قریب یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں فاذا کانت لا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔’’ لیکن جب وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے تو پھر اس کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکونت’’۔ یہ حکم بیان کرنے کے بعد حضورؐ نے ان کو پہلے ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا اور بعد میں فرمایا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو۔ لیکن اس حدیث کو جن لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں: اولاً، ان کو شوہر کے رشتہ داروں کا گھر چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ بہت تیز زبان تھیں اور شوہر کے رشتہ دار ان کی بد مزاجی سے تنگ تھے ۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ ’’ ان خاتون نے اپنی حدیث بیان کر کے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ زبان دراز تھیں، اس لیے ان کو ابن ام مکتوم کے ہاں رکھا گیا‘‘(ابو داؤد)۔ دوسری روایت میں سعید بن المسیب کا یہ قول منقول ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں سے زبان درازی کی تھی اس لیے انہیں اس گھر سے منتقل ہونے کا حکم دیا گیا تھا (جصاص)۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں ’’ ان کا گھر سے نکلنا در اصل بد مزاجی کی وجہ سے تھا’’ (ابو داؤد)۔ ثانیاً، ان کی روایت کو حضرت عمر نے اس زمانے میں رد کر دیا تھا جب بکثرت صحابہ موجود تھے اور اس معاملہ کی پوری تحقیقات ہو سکتی تھی۔ ابراہیم نَخعی کہتے ہیں کہجب حضرت عمر کو فاطمہؓ کی یہ حدیث پہنچی تو انہوں نے فرمایا لسنا بتاوکی اٰیۃ فی کتاب اللہ و قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لقسل امأۃ لعلھا اوھمت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لھا السکنٰی و لنفقۃ۔ ’’ ہم کتاب اللہ کی ایک آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قسل کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے جسے شاید کچھ وہم ہوا ہے ۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ مبتونہ کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی ‘‘(جصاص)۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس کوفہ کی مسجد میں بیٹھا تھا۔ وہاں شعبی نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کا ذکر کیا۔ اس پر حضرت اسود نے شعبی کو کنکریا کھینچ ماریں اور کہا کہ حضرت عمر کے زمانے میں جب فاطمہ کی یہ روایت پیش کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا ’’ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے رد نہیں کر سکتے ، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا یا بھول گئی۔ اس کے لیے نفقہ اور سکونت ہے ، اللہ کا حکم ہے لَا تُخءرِجُوْھُنَّ مِنْ؍بُیُوْتِھِنَّ‘‘ یہ روایت باختلاف الفاظ مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں منقول ہوئی ہے ۔ ثالثاً، مروان کے زمانہ حکومت میں جن مطلقہ مبتوتہ کے متعلق ایک نزاع چل پڑی تھی، حضرت عائشہؓ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت پر سخت اعتراضات کیے تھے ۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کیا آپ کو فاطمہ کا قصہ معلوم نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا’’ فاطمہ کی حدیث کا ذکر نہ کرو تو اچھا ہے ‘‘ (بخاری) بخاری نے دوسری روایت جو نقل کی ہے اس میں حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں’’ فاطمہ کو کیا ہو گیا ہے ، وہ خدا سے ڈرتی نہیں؟‘‘ تیسری روایت میں حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا’’ فاطمہ کے لیے یہ حدیث بیان کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ‘‘۔ حضرت عروہ ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فاطمہ پر سخت ناراضی اک اظہار فرمایا اور کہا ’’ وہ دراصل ایک خالی مکان میں تھیں جہاں کوئی مونِس نہ تھا اس لیے ان کی سلامتی کی خاطر حضورؐ نے ان کو گھر بدل دینے کی ہدایت فرائی تھی‘‘۔ رابعاً، ان خاتون کا نکاح بعد میں اسامہؓ بن زید سے ہوا تھا، اور محمد بن اسامہ کہتے ہیں کہ جب کبھی فاطمہ اس حدیث کا ذکر کرتیں میرے والد، جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اٹھا کر ان پر دے مارتے تھے (جصاص)۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ کے علم میں سنت اس کے خلاف نہ ہوتی تو وہ اس حدیث کی روایت پر اتنی ناراضی کا اظہار نہیں کر سکتے تھے |