Ayats Found (1)
Surah 2 : Ayat 229
ٱلطَّلَـٰقُ مَرَّتَانِۖ فَإِمْسَاكُۢ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحُۢ بِإِحْسَـٰنٍۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ شَيْــًٔا إِلَّآ أَن يَخَافَآ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا ٱفْتَدَتْ بِهِۦۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَاۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے1 اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو2 البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے3 یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں
3 | شریعت کی اصطلاح میں اسے” خُلع“ کہتے ہیں، یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلا کر اس سے طلاق حاصل کرنا۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر ہی میں کوئی معاملہ طے ہو جائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو، وہی نافذ ہو گا۔ لیکن اگر عدالت میں معاملہ جائے ، تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اُس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اُس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے ، تجویز کرے ، اور اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گا۔ بالعمُوم فقہانے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فدیہ اسے دلوایا جائے۔ خُلع کی صُورت میں جو طلاق دی جاتی ہے، وہ رجعی نہیں ہے، بلکہ بائنہ ہے۔ چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خرادا ہے، اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رُجوع کر سکے۔ البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دُوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چائیں، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے۔ جمہور کے نزدیک خُلع کی عدّت وہی ہے جو طلاق کی ہے ۔ مگر ابوداوٗد ، ترمذی اور ابنِ ماجہ وغیرہ میں متعدّد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدّت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اسی کے مطابق حضرت عثمان ؓ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا (ابنِ کثیر، جلد اوّل، ص ۲۷۶) |
2 | یعنی مَہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ ، جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اُصُولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو، جسے وہ دُوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو، واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اُس کتّے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصُو صیّت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رُخصت کر تے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے ، اُسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رُخصت کرے۔ جیسا کہ آگے آیت ۲۴۱ میں ارشاد فرمایا گیا ہے |
1 | اس مختصر سی آیت میں ایک بہت بڑی معاشرتی خرابی کی، جو عربِ جاہلیّت میں رائج تھی ، اِصلاح کی گئی ہے۔ عرب میں قاعدہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بے حدّو حساب طلاق دینے کا مجاز تھا۔ جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا اُس کو وہ بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، تاکہ نہ تو وہ غریب اس کے ساتھ بس ہی سکے اور نہ اس سے آزاد ہو کر کسی اَور سے نکاح ہی کر سکے۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسی ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے۔ اس آیت کی رُوسے ایک مرد ایک رشتہ ء نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ طلاقِ رجعی کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رُجوع کر چکا ہو، وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔ طلاق کا صحیح طریقہ، جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یہ ہے کہ عورت کو حالتِ طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے۔ اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو، جبکہ عورت ایّامِ ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں ہے، بلکہ ایّام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے، تو دُوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دیدے، ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے۔ اِس صُورت میں شوہر کو حق حاصل رہتا ہے کہ عدّت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رُجوع کر لے، اور عدّت گزر بھی جائے ، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر لیں۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اِس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے۔ رہی یہ صُورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، جیسا کہ آج کل جُہلا کا عام طریقہ ہے ، تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے اور حضرت عمر ؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا، آپ اس کو دُرّے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود ، ائمہء اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہو جاتی ہے |