Ayats Found (1)
Surah 4 : Ayat 23
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَـٰتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَٲتُكُمْ وَعَمَّـٰتُكُمْ وَخَـٰلَـٰتُكُمْ وَبَنَاتُ ٱلْأَخِ وَبَنَاتُ ٱلْأُخْتِ وَأُمَّهَـٰتُكُمُ ٱلَّـٰتِىٓ أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَٲتُكُم مِّنَ ٱلرَّضَـٰعَةِ وَأُمَّهَـٰتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَـٰٓئِبُكُمُ ٱلَّـٰتِى فِى حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ ٱلَّـٰتِى دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَـٰٓئِلُ أَبْنَآئِكُمُ ٱلَّذِينَ مِنْ أَصْلَـٰبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ ٱلْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں1، بیٹیاں2، بہنیں3، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں4، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں35، اور تمہاری بیویوں کی مائیں6، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے7 اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو ورنہ اگر (صرف نکاح ہوا ہو اور) تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو (ا نہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں8 اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو9، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے10
10 | یعنی جاہلیّت کے زمانہ میں جو ظلم تم لوگ کرتے رہے ہو کہ دو دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لیتے تھے اس پر بازپُرس نہ ہوگی بشرطیکہ اب اس سے باز رہو( ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۲)۔ اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ جس شخص نے حالتِ کفر میں دو بہنوں کو نکاح میں جمع کر رکھا ہو اُسے اسلام لانے کے بعد ایک کو رکھنا اور ایک کو چھوڑنا ہوگا |
9 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام ہے ۔ اس معاملہ میں یہ اُصُول سمجھ لینا چاہیے کہ ایسی عورتوں کو جمع کرنا بہر حال حرام ہے جن میں سے کوئی ایک اگر مرد ہو تی تو اس کا نکاح دُوسری سے حرام ہوتا |
8 | یہ قید اس غرض کے لیے بڑھائی گئی ہے کہ جسے آدمی نے بیٹا بنا لیا ہو اس کی بیوہ یا مطلقہ آدمی پر حرام نہیں ہے۔ حرام صرف اُس بیٹے کی بیوی ہے جو آدمی کی اپنی صلب سے ہو۔ اور بیٹے ہی کی طرح پوتے اور نواسے کی بیوی بھی دادا اور نانا پر حرام ہے |
7 | ایسی لڑکی کا حرام ہونا اس شرط پر موقوف نہیں ہے کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ یہ الفاظ اللہ تعالٰی نے محض اس رشتہ کی نزاکت ظاہر کرنے کے لیے استعمال فرمائے ہیں۔ فقہائے اُمّت کا اس بات پر تقریباً اجماع ہے کہ سوتیلی بیٹی آدمی پر بہر حال حرام ہے خواہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو یا نہ پائی ہو |
6 | اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے محض نکاح ہوا ہو اس کی ماں حرام ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ، مالک، احمد اور شافعی رحمہم اللہ اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ اور حضرت علی ؓ کی رائے یہ ہے کہ جب تک کسی عورت سے خلوت نہ ہوئی ہو اس کی ماں حرام نہیں ہوتی |
5 | اِس امر پر اُمّت میں اتفاق ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی نے جس عورت کا دُودھ پیا ہو اس کے لیے وہ عورت ماں کے حکم میں اور اس کا شوہر باپ کے حکم میں ہے ، اور تمام وہ رشتے جو حقیقی ماں اور باپ کے تعلق سے حرام ہوجاتے ہیں۔ اس حکم کا ماخذ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ یحرم من الرضاع مایحرم من النسب۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ حرمت رضاعت کس قدر دُودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک جتنی مقدار سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ سکتا ہے اتنی ہی مقدار میں اگر بچہ کسی کا دُودھ پی لے تو حُرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ مگر امام احمد ؒ کے نزدیک تین مرتبہ پینے سے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک پانچ دفعہ پینے سے یہ حُرمت ثابت ہوتی ہے۔ نیز اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کس عمر میں پینے سے یہ رشتے حرام ہوتے ہیں ۔ اس باب میں فقہاء کے اقوال حسبِ ذیل ہیں: (١) اعتبار صرف اُس زمانہ میں دُودھ پینے کا ہے جبکہ بچّہ کا دُودھ چھڑا یا نہ جا چکا ہو اور شیر خوارگی ہی پر اس کے تغذیہ کا انحصار ہو۔ ورنہ دُودھ چھُٹائی کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دُودھ پی لیا ہو تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے اُس نے پانی پی لیا ۔ یہ رائے اُم سَلَمَہ اور ابن عباس کی ہے ۔ حضرت علی سے بھی ایک روایت اس معنی میں آئی ہے۔ زُہرِی، حَسَن بصری ، قَتادہ ، عِکرِمہ اور اَوزاعی اسی کے قائل ہیں۔ (۲) دوسال کی عمر کے اندر اندر جو دُودھ پیا گیا ہو صرف اسی سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی۔ یہ حضرت عمر ؓ ، ابن مسعود، ابوہریرہ ؓ، اور ابن ِ عمر ؓ کا قول ہے اور فقہاء میں سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف، امام محمد، اور سُفیان ثَوری نے اسے قُبول کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ امام مالک بھی اسی حد کے قائل ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ دوسال سے اگر مہینہ دو مہینہ زائد عمر بھی ہو تو اس میں دُودھ پینے کا وہی حکم ہے۔ (۳) امام ابو حنیفہ اور امام زُفَر کا مشہور قول یہ ہے کہ زمانہٴ رضاعت ڈھائی سال ہے اور اس کے اندر پینے سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ (۴) خواہ کسی عمر میں دُودھ پیے، حرمت ثابت ہو جائے گی۔ یعنی اس معاملہ میں اصل اعتبار دُودھ کا ہے نہ کہ عمر کا۔ پینے والا اگر بوڑھا بھی ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو شیر خوار بچے کا ہے۔ یہی رائے ہے حضرت عائشہ ؓ کی۔ اور حضرت علی ؓ سے بھی صحیح تر روایت اسی کی تائید میں منقول ہے۔ اور فقہاء میں سے عُروَہ بن زبیر ، عطاء، لَیث بن سعد اور ابن حَزم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے |
4 | اِن سب رشتوں میں بھی سگے اور سوتیلے کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ باپ اور ماں کی بہن خواہ سگی ہو خواہ سوتیلی، یا باپ شریک ، بہرحال وہ بیٹے پر حرام ہے۔ اسی طرح بھائی او ر بہن خواہ سگے ہوں یا سوتیلے یا باپ شریک ، ان کی بیٹیاں ایک شخص کے لیے اپنی بیٹی کی طرح حرام ہیں |
3 | سگی بہن اور ماں شریک بہن اور باپ شریک بہن تینوں اس حکم میں یکساں ہیں |
2 | بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی شامل ہیں۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں جو لڑکی ہوئی ہو وہ بھی حرام ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک وہ بھی ناجائز بیٹی کی طرح محرّمات میں سے ہے، اور امام شافعی ؒ کے نزدیک وہ محرّمات میں سے نہیں ہے۔ مگر درحقیقت یہ تصوّر بھی ذوقِ سلیم پر بار ہے کہ جس لڑکی کے متعلق آدمی یہ جانتا ہو کہ وہ اسی کے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے اس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہو |
1 | ماں کااطلاق سگی اور سوتیلی ، دونوں قسم کی ما ؤ ں پر ہوتا ہے اس لیے دونوں حرام ہیں۔ نیز اسی حکم میں باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی شامل ہے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے باپ کا ناجائز تعلق ہو چکا ہو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے یا نہیں۔ سلف میں سے بعض اس کی حُرمت کے قائل نہیں ہیں ، اور بعض اسے بھی حرام قرار دیتے ہیں ، بلکہ ان کے نزدیک جس عورت کو باپ نے شہوت سے ہاتھ لگایا ہو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے۔ اسی طرح سلف میں اس امر پر بھی اختلاف رہا ہے کہ جس عورت سے بیٹے کا ناجائز تعلق ہو چکا ہو ، وہ باپ پر حرام ہے یا نہیں۔ اور جس مرد سے ماں یا بیٹی کا ناجائز تعلق رہا ہو یا بعد میں ہو جائے اس سے نکاح ماں اور بیٹی دونوں کے لیے حرام ہے یا نہیں۔ اس باب میں فقیہانہ بحثیں بہت طویل ہیں، مگر یہ بات بادنیٰ تامّل سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی شخص کے نکاح میں ایسی عورت کا ہونا جس پر اس کا باپ یا اس کا بیٹا بھی نظر رکھتا ہو ، یا جس کی ماں یا بیٹی پر بھی اس کی نگاہ ہو، ایک صالح معاشرت کے لیے کسی طرح مناسب نہیں ہو سکتا ۔ شریعتِ الہٰی کا مزاج اس معاملہ میں اُن قانونی موشگافیوں کو قبول نہیں کرتا جن کی بنا پر نکاح اور غیر نکاح اور قبل نکاح اور بعد نکاح اور لمس اور نظر وغیرہ میں فرق کیا جاتا ہے۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ خاندانی زندگی میں ایک ہی عورت کے ساتھ باپ اور بیٹے کے، یا ایک ہی مرد کے ساتھ ماں اور بیٹی کے شہوانی جذبات کا وابستہ ہونا سخت مفاسد کا موجب ہے اور شریعت اسے ہرگز برداشت نہیں کر سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ من نظر الیٰ فرج امراٴة حرمت علیہ امّھاو ابنتھا۔”جس شخص نے کسی عورت کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالی ہو اُس کی ماں اور بیٹی دونوں اُس پر حرام ہیں۔“ اور لا ینظر اللہ الیٰ رجل نظر الیٰ فرج امراٴة و ابنتھا، ” خدا اس شخص کی صُورت دیکھنا پسند نہیں کرتا جو بیک وقت ماں اور بیٹی دونوں کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالے۔“ ان روایات سے شریعت کا منشاء صاف واضح ہوجاتا ہے |