Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 221
وَلَا تَنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكَـٰتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْۗ وَلَا تُنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُواْۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْۗ أُوْلَـٰٓئِكَ يَدْعُونَ إِلَى ٱلنَّارِۖ وَٱللَّهُ يَدْعُوٓاْ إِلَى ٱلْجَنَّةِ وَٱلْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِۦۖ وَيُبَيِّنُ ءَايَـٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں1 اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے
1 | یہ ہے علّت و مصلحت اُس حکم کی جو مشرکین کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق نہ رکھنے کے متعلق اُوپر بیان ہوا تھا۔ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک گہرا تمدّنی ، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آئندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہو گا ، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاٴ ثر ہو جائے گی، اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے ازدواج سے اسلام اور کفر و شرک کی ایک ایسی معجون مرکّب اُس گھر اور اس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیر مسلم خواہ کتنا ہی نا پسند کریں ، مگر اسلام کسی طرح پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو شخص صحیح معنوں میں مومن ہو وہ محض اپنے جذباتِ شہوانی کی تسکین کے لیے کبھی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اس کے گھر اور اس کے خاندان میں کافرانہ و مشرکانہ خیالات اور طور طریقے پرورش پائیں اور وہ خود بھی نادانستہ اپنی زندگی کے کسی پہلو میں کفر و شرک سے متاثر ہو جائے۔ اگر بالفرض ایک فردِ مومن کسی فرد ِ مشرک کے عشق میں بھی مبتلا ہو جائے، تب بھی اس کے ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان ، اپنی نسل اور خود اپنے دین و اخلاق پر اپنے شخصی جذبات قربان کر دے |
Surah 60 : Ayat 10
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا جَآءَكُمُ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ مُهَـٰجِرَٲتٍ فَٱمْتَحِنُوهُنَّۖ ٱللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَـٰنِهِنَّۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَـٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى ٱلْكُفَّارِۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّۖ وَءَاتُوهُم مَّآ أَنفَقُواْۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّۚ وَلَا تُمْسِكُواْ بِعِصَمِ ٱلْكَوَافِرِ وَسْــَٔلُواْ مَآ أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْــَٔلُواْ مَآ أَنفَقُواْۚ ذَٲلِكُمْ حُكْمُ ٱللَّهِۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے پھر جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو1 نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال ان کے کافر شوہروں نے جو مہر اُن کو دیے تھے وہ انہیں پھیر دو اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم اُن کے مہر اُن کو ادا کر دو2 اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں3 یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے
3 | ان آیات میں چار بڑے اہم حکم بیان کیے گۓ ہیں جن کا تعلق اسلام کے عائلی قانون سے بھی ہے اور بین الا قوامی قانون سے بھی : اول یہ کہ جو عورت مسلمان ہو جاۓ وہ اپنے کافر شوہر کے لیے حلال نہیں رہتی اور نہ کافر شوہر اس کے لیے حلال رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جو منکوحہ عورت مسلمان ہو کر دار الکفر سے دار الاسلام میں ہجرت کر آۓ اس کا نکاح آپ سے آپ ٹوٹ جاتا ہے اور جو مسلمان بھی چاہے اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جو مرد مسلمان ہو جاۓ اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی بیوی اگر کافر رہے تو وہ اسے اپنے نکاح میں روکے رکھے۔ چوتھے یہ کہ اگر دار الکفر اور دار الاسلام کے درمیان صلح کے تعلقات موجود ہوں تو اسلامی حکومت کو دار الکفر کی حکومت سے یہ معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کفار کی جو منکوحہ عورتیں مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر آئی ہوں ان کے مہر مسلمانوں کی طرف سے واپس دے دیے جائیں، اور مسلمانوں کی منکوحہ کافر عورتیں جو دار الکفر میں رہ گئی ہوں ان کے مہر کفار کی طرف سے واپس مل جائیں۔ ان احکام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ آغاز اسلام میں بکثرت مرد ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا مگر ان کی بیویاں مسلمان نہ ہوئیں۔اور بہت سی عورتیں ایسی تھیں جو مسلمان ہو گئیں مگر ان کے شوہروں نے اسلام قبول نہ کیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینبؓ کے شوہر ابو العاص غیر مسلم تھے اور کئی سال تک غیر مسلم رہے۔ ابتدائی دور میں ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ مسلمان عورت کے لیے اس کا کافر شوہر اور مسلمان مرد کے لیے اس کی مشرک بیوی حلال نہیں ہے۔ اس لیے ان کے درمیان ازدواجی رشتے برقرار رہے۔ ہجرت کے بعد بھی کئی سال تک یہ صورت حال رہی کہ بہت سی عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر آئیں اور ان کے کافر شوہر دار الکفر میں رہے۔ اور بہت سے مسلمان مرد ہجرت کر کے آ گۓ اور ان کی کافر بیویاں دار الکفر میں رہ گئیں۔ مگر اس کے باوجود ان کے درمیان رشتہ ازدواج قااًئم رہا۔ اس سے خاص طور پر عورتوں کے لیے بڑی پیچیدگی پیدا ہو رہی تھی، کیونکہ مرد تو دوسرے نکاح بھی کر سکتے تھے، مگر عورتوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ جب تک سابق شوہروں سے ان کا نکاح فسخ نہ ہو جاۓ وہ کسی اور شخص سے نکاح کر سکیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب یہ آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے مسلمانوں اور کفار و مشرکین کے درمیان سابق کے ازدواجی رشتوں کو ختم کر دیا اور آئندہ کے لیے ان کے بارے میں ایک قطعی اور واضح قانون بنا دیا۔ فقہاۓ اسلام نے اس قانون کو چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے : ایک، وہ حالت جس میں زوجین دار الاسلام میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جاۓ اور دوسرا کافر رہے۔ دوسرے، وہ حالت جس میں زوجین دار الکفر میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جاۓ اور دوسرا کافر رہے۔ تیسرے، وہ حالت جس میں زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر کے آجاۓ اور دوسرا دار الکفر میں کافر رہے۔ چوتھے، وہ حالت جس میں مسلم زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہو جاۓ۔ ذیل میں ہم ان چاروں حالتوں کے متعلق فقہاء کے مسالک الگ الگ بیان کرتے ہیں : پہلی صورت میں اگر اسلام شوہر نے قبول کیا ہو اور اس کی بیوی عیسائی یا یہودی ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے تو دونوں کے درمیان نکاح باقی رہے گا، کیونکہ مسلمان مرد کے لیے اہل کتاب بیوی جائز ہے۔ یہ امر تمام فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہے۔ اور اگر اسلام قبول کرنے والے مرد کی بیوی غیر اہل کتاب میں سے ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے، تو حنفیہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ عورت کے سامنے اسلام پید کیا جاۓ گا، قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، نہ قبول کرے تو ان کے درمیان تفریق کر دی جاۓ گی۔ اس صورت میں اگر زوجین کے درمیان خلوت ہو دکی ہو تو عورت مہر کی مستحق ہوگی، اور خلوت نہ ہوئی ہو تو اس کو مہر پانے کا حق نہ ہوگا، کیونکہ فرقت اس کے انکار کی وجہ سے واقع ہوئی ہے (المبسوط، ہدایہ، فتح القدیر)۔ امام شافعی اور احمد کہتے ہیں کہ اگر زوجین کے درمیان خلوت نہ ہوئی ہو تو کرد کے اسلام قبول کرتے ہی عورت اس کے نکاح سے باہر ہو جاۓ گی، اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اس کے نکاح میں رہے گی، اس دوران میں وہ خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ تیسری بار ایام سے فارغ ہوتے ہی آپ سے آپ فسخ ہو جاۓ گا۔ امام شافعیؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ذمیوں کو ان کے مذہب سے تعرض نہ کرنے کی جو ضمانت ہماری طرف سے دی گئی ہے اس کی بنا پر یہ درست نہیں ہے کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جاۓ۔ لیکن در حقیقت یہ ایک کمزور بات ہے، کیونکہ ایک ذمی عورت کے مذہب سے تعرض تو اس صورت میں ہوگا جبکہ اس کو اسلام قبول کرنے پر مجور کیا جاۓ۔ اس سے صرف یہ کہنا کوئی بے جا تعرض نہیں ہے کہ تو اسلام قبول کر لے تو اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکے گی ورنہ تجھے اس سے الگ کر دیا جاۓ گا۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں اس کی نظیر پیش بھی آ چکی ہے۔ عراق کے ایک مجوسی زمیندار نے اسلام قبول کیا اور اس کی بیوی کافر رہی۔ حضرت علیؓ نے اس کے سامنے اسلام پیش فرمایا۔ اور جب اس نے انکار کیا تب آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی (المبسوط)۔ امام مالکؒ کہتے ہیں کہ اگر خلوت نہ ہو چکی ہو تو مرد کے اسلام لاتے ہی اس کی کافر بیوی اس سے فوراً جدا ہو جاۓ گی اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جاۓ گا اور اس کے انکار کی صورت میں جدائی واقع ہو جاۓ گی (المغنی لابن قدامہ)۔ اور اگر اسلام عورت نے قبول کیا ہو اور مرد کافر رہے، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب میں سے، تو حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں میں خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو، ہر صورت میں شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جاۓ گا، قبول کر لے تو عورت اس کے نکاح میں رہے گی، انکار کر دے تو قاضی دونوں میں تفریق کرا دے گا۔ اس دوران میں جن تک مرد اسلام سے انکار نہ کرے، عورت اس کی بیوی تو رہے گی مگر اس کو مقاربت کا حق نہ ہوگا۔ شوہر کے انکار کی صورت میں تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہوگی۔ اگر اس سے پہلے خلوت نہ ہوئی ہو تو عورت نصف مہر پانے کی حق دار ہوگی، اور خلوت ہو چکی ہو تو عورت پورا مہر بھی پاۓ گی اور عدت کا نفقہ بھی (المبسوط۔ ہدایہ۔ فتح القدیر)۔ امام شافعیؒ کے نزدیک خلوت نہ ہونے کی صورت میں عورت کے اسلام قبول کرتے ہی نکاح فسخ ہو جاۓ گا، اور خلوت ہونے کی صورت میں عدت ختم ہونے تک عورت اس مرد کے نکاح میں رہے گی۔ اس مدت کے اندر وہ اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ورنہ عدت گزرتے ہی جدائی واقع ہو جاۓ گی۔ لیکن مرد کے معاملہ میں بھی امام شافعیؒ نے وہی راۓ ظاہر کی ہے جو عورت کے معاملہ میں اوپر منقول ہوئی کہ اس کے سامنے اسلام پیش کر نا جائز نہیں ہے، اور یہ مسلک بہت کمزور ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں متعدد واقعات ایسے پیش آۓ ہیں کہ عورت نے اسلام قبول کر لیا اور مرد سے اسلام لانے کے لیے کہا گیا اور جب اس نے انکار کر دیا تو دونوں کے درمیان تفریق کرا دی گئی۔ مثلاً بنی تغلِب کے ایک عیسائی کی بیوی کا معاملہ ان کے سامنے پیش ہوا۔ انہوں نے مرد سے کہا یا تو تُو اسلام قبول کر لے ورنہ میں تم دونوں کے درمیان تفریق کر دوں گا۔ اس نے انکار کیا اور آپ نے تفریق ڈگر دے دی۔ بہزُ المَلِک کی ایک نو مسلم زمیندارنی کا مقدمہ ان کے پاس بھیجا گیا۔ اس کے معاملہ میں بھی انہوں نے حکم دیا کہ اس کے شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جاۓ، اگر وہ قبول کر لے تو بہتر، ورنہ دونوں میں تفریق کرا دی جاۓ۔ یہ واقعات صحابہ کرام کے سامنے پیش آۓ تھے اور کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے (احکام القرآن للجصاص۔المبسوط۔ فتح القدیر) امام مالکؒ کے راۓ اس معاملے میں یہ ہے کہ اگر خلوت سے پہلے عورت مسلمان ہو جاۓ تو شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جاۓ، وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ فوراً تفریق کرا دی جاۓ۔ اور اگر خلوت ہو چکی ہو اور اس کے بعد عورت اسلام لائی ہو تو زمانہ عدت ختم ہونے تک انتظار کیا جاۓ، اس مدت میں شوہر اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ عدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جاۓ گی۔ امام احمدؒ کا ایک قول امام شافعیؒ کی تائید میں ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہو جانا بہر حال فوری تفریق کا موجب ہے خواہ خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو (المغنی)۔ (2) دار الکفر میں اگر عورت مسلمان ہو جاۓ اور مرد کافر رہے، یا مرد مسلمان ہو جاۓ اور اس کی بیوی (جو عیسائی یا یہودی نہ ہو بلکہ کسی غیر کتابی مذہب کی ہو) اپنے مذہب پر قائم رہے، تو حنفیہ کے نزدیک خواہ ان کے درمیان خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، تفریق واقع نہ ہو گی جب تک عورت کو تین مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں، یا اس کے غیر حائضہ ہونے کو صورت میں تین مہینے نہ گزر جائیں۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق بھی مسلمان ہو جاۓ تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ یہ مدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جاۓ گی۔ امام شافعیؒ اس معاملہ میں بھی خلوت اور عدم خلوت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کی راۓ یہ ہے کہ اگر خلوت نہ ہوئی ہو تو زوجین کے درمیان دین کا اختلاف واقع ہوتے ہی فرقت ہو جاۓ گی، اگر خلوت ہو جانے کے بعد دین کا اختلاف رونما ہوا ہو تو عدت کی مدت ختم ہونے تک ان کا نکاح باقی رہے گا۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق اسلام قبول نہ کرے تو عدت ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح بھی ختم ہو جاۓ گا (المبسوط، فتح القدیر،احکام القرآن للجصاص)۔ (3)۔جس صورت میں زوجین کے درمیان اختلاف دین کے ساتھ اختلاف دار بھی واقع ہو جاۓ، یعنی ان میں سے کوئی ایک دار الکفر میں کافر رہے اور دوسرا دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جاۓ،اس کے متعلق حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان نکاح کا تعلق آپ سے آپ ختم ہو جاۓ گا۔ اگر ہجرت کرنے والی عورت ہو تو اسے فوراً دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہے، اس پر کوئی عدت نہیں ہے، البتہ مقاربت کے لیے اس کے شوہر کو استبراء رحم کی خاطر ایک مرتبہ ایام ماہواری آ جانے تک انتظار کر نا ہوگا، اور اگر وہ حاملہ ہو تب بھی نکاح ہو سکتا ہے مگر مقاربت کے لیے وضع حمل تک انتظار کرنا ہوگا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ سے صرف اتنا اختلاف کیا ہے کہ ان کے نزدیک عورت پر عدت لازم ہے، اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا (المبسوط۔ہدایہ۔ احکام القرآن للجصاص)۔ امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور امام مالکؒ کہتے ہیں کہ اختلاف دار کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اصل چیز صرف اختلاف دین ہے۔ یہ اختلاف اگر زوجین میں واقع ہو جاۓ تو احکام وہی ہیں جو دار الاسلام میں زوجین کے درمیان یہ اختلاف واقع ہونے کے احکام ہیں (المغنی)۔ امام شافعیؒ اپنی مذکورہ بالا راۓ کے ساتھ ساتھ ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورت کے معاملہ میں یہ راۓ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے کافر شوہر سے لڑ کر اس کے حق زوجیت کو ساقط کرنے کے ارادے سے آئی ہو تو اختلاف دار کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے اس قصد کی بنا پر فوراً فرقت واقع ہو جاۓ گی (المبسوط و ہدایہ)۔ لیکن قرآن مجید کی زیر بحث آیت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں صحیح ترین راۓ دہی ہے جو امام ابو حنیفہؒ نے ظاہر فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ہجرت کر کے آنے والی مومن عورتوں ہی کے بارے میں نازل فرمائی ہے، اور انہی کا حق میں یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے ان کا فر شوہروں کے لیے حلال نہیں رہیں جنہیں وہ دار الکفر میں چھوڑ آئی ہیں، اور دار الاسلام کے مسلمانوں کی اجازت دی ہے کہ وہ ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کر لیں۔ دوسری طرف مہاجر مسلمانوں سے خطاب کر رکے یہ فرمایا ہے کہ اپنی ان کافر بیویوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رکھو جو دار الکفر میں رہ گئی ہیں اور کفار سے اپنے وہ مہر واپس مانگ لو جو تم نے ان عورتو کو دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اختلاف دین ہی کے احکام نہیں ہیں بلکہ ان احکام کو جس چیز نے یہ خاص شک دے دی ہے وہ اختلاف دار ہے۔ اگر ہجرت کی بنا پر مسلمان عورتوں کے نکاح ان کے کافر شوہروں سے ٹوٹ نہ گۓ ہوتے تو مسلمانوں کو ان سے نکاح کر لینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی تھی، اور وہ بھی اس طرح کہ اس اجازت میں عدت کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ اسی طرح اگر لَا تُمْسِکُوْ ا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ کا حکم آ جانے کے بعد بھی مسلمان مہاجرین کی کافر بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ گئی ہوتیں تو ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا جاتا کہ نہیں طلاق دے دو۔ مگر یہاں اس کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت طلحہؓ اور بعض دوسرے مہاجرین نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تھی۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا، اور ان بیویوں کے ساتھ تعلق زوجیت کا انقطاع ان کے طلاق دینے پر موقوف تھا، اور اگر وہ طلاق نہ دیتے تو وہ بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ جاتیں۔ اس کے جواب میں عہد نبوی کے تین واقعات کی نظیریں پیش کی جاتی ہیں جن کو اس امر کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اختلاف دار کے باوجود مومن اور کافر زوجین کے درمیان نکاح کا تعلق برقرار رکھا۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے ذرا پہلے ابوسفیان مرالظَّہْران (موجودہ وادی فاطمہ ) کے مقام پر لشکر اسلام میں آۓ اور یہاں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی بیوی ہند مکہ میں کافر رہیں۔ پھر فتح مکہ کے بعد ہند نے اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تجدید نکاح کے بغیر ہی ان کو سابق نکاح پر بر قرار رکھا۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد عِکرِمہ بن ابی جہل اور حکیم بن حزَام مکہ سے فرار ہو گۓ اور ان کے پیچھے دونوں کی بیویاں مسلمان ہو گئیں۔ پھر انہوں نے حضورؐ سے اپنے شوہروں کے لیے امان لے لی اور جا کر ان کو لے آئیں۔ دونوں اصحاب نے حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بھی سابق نکاحوں کو بر قرار رکھا۔ تیسرا واقعہ حضورؐ کی اپنی صاحبزادی حضرت زینبؓ کا ہے جو ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئیں تھیں اور ان کے شوہر ابو العاص بحالت کفر مکہ ہی میں مقیم رہ گۓ تھے۔ ان کے متعلق مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ وہ 8 ھ میں مدینہ آ کر مسلمان ہوۓ اور حضورؐ نے تجدید نکاح کے بغیر سابق نکاح ہی پر صاحبزادی کو ان کی زوجیت میں رہنے دیا۔ لیکن ان میں سے پہلے دو واقعے تو در حقیقت اختلاف دار کی تعریف ہی میں نہیں آتے، کیونکہ اختلاف دار اس چیز کا نام نہیں ہے ایک شخص عارضی طور پر ایک دار سے دوسرے دار کی طرف چلا گیا یا فرار ہو گیا، بلکہ یہ اختلاف صرف اس صورت میں واقع ہوتا ہے جب کوئی آدمی ایک دار سے منتقل ہو کر دوسرے دار میں آباد ہو جاۓ اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان موجودہ زمانے کی اصلاح کے مطابق ’’قومیت‘‘ (Nationality) کا فرق واقع ہو جاۓ۔ رہا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا معاملہ تو اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت ابن عباس کی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے، اور دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی ہے جس کو امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ اس دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صاحبزادی کو جدید نکاح اور جدید مہر کے ساتھ پھر ابو العاص ہی کی زوجیت میں دے دیا۔ اس اختلاف روایت کی صورت میں اول تو یہ نظیر ان حضرت کے لیے قطعی دلیل نہیں رہتی جو اختلاف دار کی قانونی تاثیر کا انکار کرتے ہیں۔ دوسرے، اگر وہ ابن عباس ہی کی روایت کے صحیح ہونے پر اصرار کریں تو یہ ان کے مسلک کے خلاف پڑتی ہے۔ کیونکہ ان کے مسلک کی رو سے تو جن میاں بیوی کے درمیان اختلاف دین واقع ہو گیا ہو اور وہ باہم خلوت کر چکے ہوں ان کا نکاح عورت کو صرف تین ایام ماہواری آنے تک باقی رہتا ہے، اس دوران میں دوسرا فریق اسلام قبول کر لے تو زوجیت قائم رہتی ہے، ورنہ تیسری بار ایام آتے ہی نکاح آپ سے آپ فسخ ہو جاتا ہے۔ لیکن حضرت زینب کے جس واقعہ سے وہ استدلال کرتے ہیں اس میں زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہوۓ کئی سال گزر چکے تھے، حضرت زینب کی ہجرت کے چھ سال بعد ابو العاص ایمان لاۓ تھے، اور ان کے ایمان لانے سے کم از کم دو سال پہلے قرآن میں وہ حکم نازل ہو چکا تھا جس کی رو سے مسلمان عورت مشرکین پر حرام کر دی گئی تھی۔ (4)۔ چوتھا مسئلہ ارتداد کا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں، اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مرتد ہو اور دوسرا مسلمان رہے۔ اگر زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں تو شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ خلوت سے پہلے ایسا ہو تو فوراً، اور خلوت کے بعد ہوتو عدت کی مدت ختم ہوتے ہی دونوں کا وہ نکاح ختم ہو جاۓ گا جو حالت اسلام میں ہوا تھا۔ اس کے برعکس حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر چہ قیاس یہی کہتا ہے کہ ان کا نکاح فسخ ہو جاۓ، لیکن حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جو فتنہ ارتداد برپا ہوا تھا اس میں ہزارہا آدمی مرتد ہوۓ، پھر مسلمان ہو گۓ، اور صحابہ کرام نے کسی کو بھی تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا، اس لیے ہم صحابہ کے متفقہ فیصلے کو قبول کرتے ہوۓ خلاف قیاس یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ زوجین کے ایک ساتھ مرتد ہونے کی صورت میں ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے (المبسوط، ہدایہ، فتح القدیر، الفقہ علی المذاہب الاربعہ)۔ اگر شوہر مرتد ہو جاۓ اور عورت مسلمان رہے تو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک فوراً نکاح ٹوٹ جاۓ گا، خواہ ان کے درمیان پہلے خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ لیکن شافعیہ اور حنابلہ اس میں خلوت سے پہلے اور خلوت کے بعد کی حالت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اگر خلوت سے پہلے ایسا ہوا ہو تو فوراً نکاح ہو جاۓ گا، اور خلوت کے بعد ہوا ہو تو زمانہ عدت تک باقی رہے گا، اس دوران میں وہ شخص مسلمان ہو جاۓ تو زوجیت بر قرار رہے گی، ورنہ عدت ختم ہوتے ہی اس کے ارتداد کے وقت سے نکاح فسخ شدہ شمار کیا جاۓ گا، یعنی عورت کو پھر کوئی نئی عدت گزارنی نہ ہوگی۔ چاروں فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خلوت سے پہلے یہ معاملہ پیش آیا ہو تو عورت کو نصف مہر، اور خلوت کے بعد پیش آیا تو پورا مہر پانے کا حق ہو گا۔ اور اگر عورت مرتد ہو گئی ہو تو حنفیہ کا قدیم فتویٰ یہ تھا کہ اس صورت میں بھی نکاح فوراً فسخ ہو جاۓ گا، لیکن بعد کے دور میں علماۓ بلخ و سمر قند نے یہ فتویٰ دیا کہ عورت کے مرتد ہونے سے فوراً فرقت واقع نہیں ہوتی، اور اس سے ان کا مقصد اس امر کی روک تھام کرنا تھا کہ شوہروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے عورتیں کہیں ارتداد کا راستہ اختیار نہ کرنے لگیں۔ مالکیہ کا فتویٰ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر قرائن یہ بتا رہے ہو کہ عورت نے محض شوہر سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے بطور حیلہ ارتداد اختیار کیا ہے تو فرقت واقع نہ ہو گی۔ شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عورت کے ارتداد کی صورت میں بھی قانون وہی ہے جو مرد کے ارتداد کی صورت میں ہے، یعنی خلوت سے پہلے مرتد ہو تو فوراً نکاح فسخ ہو جاۓ گا، اور خلوت کے بعد ہو تو زمانہ عدت گزرنے تک نکاح باقی رہے گا، اس دوران میں وہ مسلمان ہو جاۓ تو زوجیت کا رشتہ برقرار رہے گا۔ ورنہ عدت گزرتے ہی نکاح وقت ارتداد سے فسخ شمار ہو گا۔ مہر کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ خلوت سے پہلے اگر عورت مرتد ہوئی ہے تو اسے کوئی مہر نہ ملے گا، اور اگر خلوت کے بعد اس نے ارتداد اختیار کیا ہو تو وہ پورا مہر پاۓ گی (المبسوط۔ ہدایہ۔ فتح القدیر۔المغنی۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ) |
2 | مطلب یہ ہے کہ ان کے کافر شوہروں کو ان کے جو مہر واپس کیے جائیں گے وہی ان عورتوں کے مہر شمار نہ ہوں گے، بلکہ جو مسلمان بھی ان میں سے کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے وہ اس کا مہر ادا کرے اور اس سے نکاح کر لے |
1 | اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اول اول تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ بھاگ کرمدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا۔ پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سب سے پہلے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کر کے مدینے پہنچیں۔ کفار نے معاہدے کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا اور ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لیے مدینے پہنچ گۓ۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ مسلمان ہوں اور یہ اطمینان کر لیا جائے کہ واقعی وہ ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں، کوئی اور چیز انہیں نہیں لائی ہے، تو انہیں واپس نہ کیا جاۓ۔ اس مقام پر احادیث کی روایت بالمعنٰی سے ایک بڑی پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جسے حل کرنا ضروری ہے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کے متعلق احادیث میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں وہ اکثر و بیشتر بالمعنٰی روایات ہیں۔ زیر بحث شرط کے متعلق ان میں سے کسی روایت کے الفاظ یہ ہیں : من جاءمنکم لم نردہ علیک مومن جاء کم مناردد تموہ علینا۔ ’’ تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آۓ گا اسے ہم واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو تمہارے پاس جاۓ گا اسے تم واپس کرو گے ‘‘۔ کسی میں یہ الفاظ ہیں، من اتٰی رسول اللہ من اصحابہ بغیر اذن ولیہ ردہ علیہ۔ ’’ رسول اللہ کے پاس ان کے اصحاب میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آۓ گا اسے وہ واپس کر دیں گے ‘‘۔ اور کسی میں ہے من اتٰی محمداً من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیہم۔ ’’قریش میں سے جو شخص محمدؐ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جاۓ گا اسے وہ قریش کو واپس کر دیں گے ‘‘۔ ان روایات کا طرز بیان خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان میں معاہدے کی اس شرط کو ان الفاظ میں نقل نہیں کیا گیا ہے جو اصل معاہدے میں لکھے گۓ تھے، بلکہ راویوں نے ان کا مفہوم خود اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ لیکن چونکہ بکثرت روایات اسی نوعیت کی ہیں اس لیے عام طور پر مفسرین و محدثین نے اس سے یہی سمجھا کہ معاہدہ عام تھا جس میں عورت مرد سب داخل تھے اور عورتوں کو بھی اس کی رو سے واپس ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد جب ان کے سامنے اللہ تعالٰی کا یہ حکم آیا کہ مومن عورتیں واپس نہ جائیں تو ان حضرات نے اس کی یہ تاویل کی کہ اللہ تعالٰی نے اس آیت میں مومن عورتوں کی حد تم معاہدہ توڑ دینے کا فیصلہ فرما دیا۔ مگر یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کو اس آسانی کے ساتھ قبول کر لیا جاۓ۔ اگر معاہدہ فی الواقع بلا تخصیص مرد و زن سب کے لیے عام تھا تو آخر یہ کیسے جائز ہو سکتا تھا کہ ایک فریق اس میں یک طرفہ ترمیم کر دے یا اس کے کسی جز کو بطور خود بدل ڈالے؟ اور بالفرض ایسا کیا بھی گیا تھا تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قریش کے لوگوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ قریش والے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کی ایک ایک بات پر گرفت کرنے کے لیے خار کھاۓ بیٹھے تھے۔ انہیں اگر یہ بات ہاتھ آ جاتی کہ آپ شرائط معاہدہ کی صریح خلاف ورزی کر گزرے ہیں تو وہ زمین و آسمان سر پر اٹھا لینے۔ لیکن ہمیں کسی روایت میں اس کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ انہوں نے قرآن کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی چون و چرا کی ہو۔ یہ ایسا سوال تھا جس پر گور کیا جاتا تو معاہدے کے اصل الفاظ کی جستجو کر کے اس پیچیدگی کا حل تلاش کیا جاتا، مگر بہت سے لوگوں نے تو اس کی طرف توجہ نہ کی، اور بعض حضرات (مثلاً واسی ابو بکر ابن عربی) نے توجہ کی بھی تو انہوں نے قریش کے اعتراض نہ کرنے کی یہ توجیہ تک کرنے میں تامل نہ کیا کہ اللہ تعالٰی نے بطور معجزہ اس معاملہ میں قریش کی زبان بند کر دی تھی۔ تعجب ہے کہ اس توجیہ پر ان حضرات کا ذہن کیسے مطمئن ہوا۔ اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ کفار قریش کی طرف سے تھی، اور ان کی جانت سے ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے جو الفاظ معاہدے میں لکھواۓ تھے وہ یہ تھے : علیٰ ان لا یا تیکا منا رجل و ان کان علی دین کالا رددتہ الینا۔ ’’ اور یہ کہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد بھی آۓ، اگر چہ وہ تمہارے دین ہی پر ہو، تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے ’’۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری، کتاب الشروط،باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ میں قوی سند کے ساتھ نقل ہوۓ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سہیل نے رجل کا لفظ شخص کے معنی میں استعمال کیا ہو، لیکن یہ اس کی ذہنی مراد ہوگی۔ معاہدے میں جو لفظ لکھا گیا تھا وہ رجل ہی تھا جو عربی زبان میں مرد کے لیے بولا جاتا ہے۔اسی بنا پر جب ام کلثوم بنت عقبہ کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ تو (امام زہری کی روایت کے مطابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ کان الشرط فی الرجال دون النساء۔ ’’ شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں ‘‘۔ (احکام القرآن، ابن عربی۔ تفسیر کبیر، امام رازی)۔ اس وقت تک خود قریش کے لوگ بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ معاہدے کا اطلاق ہر طرح کے مہاجرین پر ہوتا ہے، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ مگر جب حضور نے ان کو معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تو وہ دم بخود رہ گۓ اور انہیں ناچار اس فیصلے کو ماننا پڑا۔ معاہدے کے ان شرط کے لحاظ سے مسلمانوں کو حق تھا کہ جو عورت بھی مکہ چھوڑ کر مدینے آتی، خواہ وہ کسی غرض سے آتی، اسے واپس دینے سے انکار کر دیتے۔ لیکن اسلام کی صرف مومن عورتوں کی حفاظت سے دلچسپی تھی، ہر طرح کی بھاگنے والی عورتوں کے لیے مدینہ طیبہ کو پناہ گاہ بنانا مقصود نہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو عورتوں ہجرت کر کے آئیں اور اپنے مومن ہونے کا اظہار کریں، ان سے پوچھ گچھ کر کے اطمینان کر لو کہ وہ واقعی ایمان لے کر آئی ہیں، اور جب اس کا اطمینان ہو جاۓ تو انکو واپس نہ کرو۔ چنانچہ اس ارشاد الٰہی پر عمل در آمد کرنے کے لیے جو قاعدہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آتی تھیں ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا وہ اللہ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر نکل کر آئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ شوہر سے بگڑ کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہوں؟ یا ہمارے ہاں کے کسی مرد کی محبت ان کو ہے آئی ہو؟ یا کوئی اور دنیوی غرض ان کے اس فعل کی محرک ہوئی ہو؟ ان سوالات کا اطمینان بخش جواب جو عورتیں دے دیتی تھیں صرف ان کو روک لیا جاتا تھا، باقی سب کو واپس کر دیا جاتا تھا (ابن جریر بحوالہ ابن عباس، قتادہ، مجاہد، عکرمہ، ابن زید)۔ اس آیت میں قانون شہادت کا بھی ایک اصولی ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی مزید توضیح اس طریق کار سے ہو گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر عمل درآمد کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ آیت میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ہجرت کرنے والی جو عورتیں اپنے آپ کو مومن ہونے کی حیثیت سے پیش کریں ان کے ایمان کی جانچ کرو۔ دوسرے یہ کہ ان کے ایمان کی حقیقت کو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، تمہارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں ایمان لائی ہیں۔ تیسرے یہ کہ جانچ پڑتال سے جب تمہیں معلوم ہو جاۓ کہ وہ مومن ہیں تو انہیں واپس نہ کرو۔ پھر اس حکم کے مطابق ان عورتوں کے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا وہ یہ تھا کہ ان عورتوں کے حلفیہ باین پر اعتماد کیا جاۓ اور ضروری جرح کر کے یہ اطمینان کر لیا جاۓ کہ ان کی ہجرت کا محرک ایمان کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اس سے اول تو یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کو حقیقت کا علم حاصل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف وہ علم کافی ہے جو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ہم ایک شخص کے حلفیہ باین پر اعتماد کریں گے۔ تاوقتیکہ کوئی صریح قرینہ اس کے کاذب ہونے پر دلالت نہ کر رہا ہو۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی اپنے عقیدے اور ایمان کے متعلق خو د جو خبر دے رہا ہو ہم اسے قبول کریں گے اور اس بات کی کھوج میں نہ پڑیں گے کہ فی الواقع اس کا وہی عقیدہ ہے جو وہ بیان کر رہا ہے، الا یہ کہ کوئی صریح علامت ہمارے سامنے ایسی ظاہر ہو جاۓ جو اس کی تردید کر رہی ہو۔ اور چوتھی بات یہ کہ ایک شخص کے جن ذاتی حالات کو دوسرا کوئی نہیں جان سکتا ان میں اسی کے بیان پر بھروسہ کیا جاۓ گا، مثلاً طلاق اور عدت کے معاملات میں عورت کے حیض اور طہر کے متعلق اس کا اپنا بیان ہی معتبر ہوگا، خواہ وہ جھوٹ بولے یا سچ۔ انہی قواعد کے مطابق علم حدیث میں بھی ان روایات کو قبول کیا جاۓ گا جن کے راویوں کا ظاہر حال ان کے راستباز ہونے کی شہادت دے رہا ہو، الا یہ کہ کچھ دوسرے قرائن ایسے موجود ہوں جو کسی روایت کے قبول میں مانع ہوں |