Ayats Found (1)
Surah 5 : Ayat 5
ٱلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْۖ وَٱلْمُحْصَنَـٰتُ مِنَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَٱلْمُحْصَنَـٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَـٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِىٓ أَخْدَانٍۗ وَمَن يَكْفُرْ بِٱلْإِيمَـٰنِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُۥ وَهُوَ فِى ٱلْأَخِرَةِ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ
آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے1 اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی2، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا3
3 | اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اِس اجازت سے فائد ہ اُٹھائے وہ اپنے ایمان و اخلاق سے ہوشیار رہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عِشق میں مُبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو |
2 | اِس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ نکاح کی اجازت صرف انہی کی عورتوں سے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی گئی ہے کہ و ہ مُحصنَات (محفوظ عورتیں) ہوں۔ اس حکم کی تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ ابنِ عباس ؓ کا خیال ہے کہ یہاں اہلِ کتاب سے مُراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوں۔ رہے دار الحرب اور دارالکفر کے یہود و نصاریٰ ، توان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں۔ حنفیّہ اس سے تھوڑا اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بیرونی ممالک کے اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا حرام تو نہیں ہے مگر مکرُوہ ضرور ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن المُسَیِّب ؒ اور حَسَن بصری ؒ اس کے قائل ہیں کہ آیت اپنے حکم میں عام ہے لہٰذا ذمّی اور غیر ذمّی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر مُحصَنات کے مفہُوم میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت عمر ؓ کے نزدیک اس سے مراد پاک دامن ، عصمت مآب عورتیں ہیں اور اس بنا پر وہ اہلِ کتاب کی آزادمنش عورتوں کو اس اجازت سے خارج قرار دیتے ہیں۔ یہی رائے حسن ؒ، شَعبِیؒ اور ابراہیم نَخعَی ؒ کی ہے۔ اور حنفیہ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔ بخلاف اس کے امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ لونڈیوں کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے، یعنی اس سے مراد اہلِ کتاب کی وہ عورتیں ہیں جو لونڈیاں نہ ہوں |
1 | اہلِ کتاب کے کھانے میں اُن کا ذبیحہ بھی شامل ہے ۔ ہمارے لیے اُن کا اور اُن کے لیے ہمارا کھانا حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور اُن کے درمیان کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ اور کوئی چھُوت چھات نہیں ہے۔ ہم اُن کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ۔ لیکن یہ عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرما دیا گیا ہے کہ ”تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں“۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ کتاب اگر پاکی و طہارت کے اُن قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہیں، یا اگر اُن کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ خدا کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں، یا اس پر خدا کے سوا کسی اَور کا نام لیں ، تو اُسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں۔ اِسی طرح اگر اُن کے دستر خوان پر شراب یا سُور یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔ اہلِ کتاب کے سوا دُوسرے غیر مسلموں کا بھی یہی حکم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذبیحہ اہلِ کتاب ہی کا جائز ہے جبکہ اُنہوں نے خدا کا نام اس پر لیا ہو، رہے غیر اہلِ کتاب ، تو ان کے ہلاک کیے ہوئے جانور کو ہم نہیں کھا سکتے |