Ayats Found (1)
Surah 24 : Ayat 32
وَأَنكِحُواْ ٱلْأَيَـٰمَىٰ مِنكُمْ وَٱلصَّـٰلِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَآئِكُمْۚ إِن يَكُونُواْ فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں1، اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں2، ان کے نکاح کر دو3 اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے گا4، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے
4 | اس کا مطلب نہیں ہے کہ جس کا بھی نکاح ہو جاۓ گا اللہ اس کو مال دار بنا دے گا ، بلکہ مدعا یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں بہت زیادہ حسابی بن کر نہ رہ جائیں۔ اس میں لڑکی والوں کے لیے بھی ہدایت ہے کہ نیک اور شریف آدمی اگر ان کے ہاں پیغام دے تو محض اس کی غربت دیکھ کر انکار نہ کر دیں۔ لڑکے والوں کو بھی تلقین ہے کہ کسی نوجوان کو محض اس لیے نہ بٹھا رکھیں کہ ابھی وہ بہت نہیں کما رہا ہے۔ اور نوجوانوں کو بھی نصیحت ہے کہ زیادہ کشائش کے انتظار میں اپنی شادی کے معاملے کو خواہ مخواہ نہ ٹالتے رہیں۔ تھوڑی آمدنی بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کر ڈالنی چاہیے۔ بسا اوقات خود شادی ہی آدمی کے حالات درست ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بیوی کی مدد سے اخراجات قابو میں آ جاتے ہیں۔ ذمہ داریاں سر پر آ جانے کے بعد آدمی خود بھی پہلے سے زیادہ محنت اور کوشش کرنے لگتا ہے۔ بیوی معاش کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مستقبل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے ، اسے کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ اچھے حالات بُرے حالات میں بھی بدل سکتے ہیں اور بُرے حالات اچھے حالات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آدمی کو ضرورت سے زیادہ حساب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے |
3 | بظاہر یہاں صیغۂ امر دیکھ کر علماء کے ایک گروہ نے یہ خیال کر لیا کہ ایسا کرنا واجب ہے۔ حالانکہ معاملے کی نوعیت خود بتا رہی ہے کہیہ حکم و جوب کے معنی میں نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کا نکاح پیش نظر ہے ؟ کیا دوسرے لوگ جہاں بھی اس کا نکاح کرنا چاہیں اسے قبول کر لینا چاہیے ؟ اگر یہ اس پر فرض ہے ہے تو گویا اس کے نکاح میں اس کی اپنی مرضی کا دخل نہیں۔ اور اگر اسے انکار کا حق ہے تو جن پر یہ کام واجب ہے وہ آخر اپنے فرض سے کس طرح سبکدوش ہوں ؟ ان ہی پہلوؤں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر جمہور فقہاء نے یہ راۓ قائم کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کام کو واجب نہیں بلکہ مندوب قرار دیتا ہے ، یعنی اس کا مطلب در اصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو عام طور پریہ فکر ہونی چاہیے کہ ان کے معاشرے میں لوگ بن بیاہے ہ بیٹھے رہیں۔ خاندان والے ، دوست، ہمساۓ سب اس معاملے میں دلچسپی لیں ، اور جس کا کوئی نہ ہو اس کو حکومت اس کام میں مدد دے |
2 | یعنی جن کا رویہ تمہارے ساتھ بھی اچھا ہو، اور جن میں تم یہ صلاحیت بھی پاؤ کہ وہ ازدواجی زندگی نباہ لیں گے۔ مالک کے ساتھ جس غلام یا لونڈی کا رویہ ٹھیک نہ ہو اور جس کے مزاج کو دیکھتے ہوے یہ توقع بھی نہ ہو کہ شادی ہونے کے بعد اپنے شریک زندگی کے ساتھ اس کا نباہ ہو سکے گا، اس کا نکاح کر دینے کی ذمہ داری مالک پر نہیں ڈالی گئی ہے ، کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے فرد کی زندگی کو خراب کرنے کا ذریعہ بن جاۓ گا۔ یہ شرط آزاد آدمیوں کے معاملے میں نہیں لگائی گئی، کیونکہ آزاد آدمی کے نکاح میں حصہ لینے والے کی ذمہ داری در حقیقت ایک مشیر، ایک معاون اور ایک ذریعہ تعارف سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل رشتہ ناکح اور منکوح کی اپنی ہی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ لیکن غلام یا لونڈی کا رشتہ کرنے کی پوری ذمہ داری اس کے مالک پر ہوتی ہے۔ وہ اگر جان بوجھ کر کسی غریب کو ایک بد مزاج اور بد سرشت آدمی کے ساتھ بندھوا دے تو اس کا سارا وبال اسی کے سر ہو گا |
1 | اصل میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جسے عام طور پر لوگ محض بیوہ عورتوں کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ حالانکہ در اصل اس کا اطلاق ایسے تمام مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو بے زوج ہوں۔ ایامیٰ جمع ہے اَیِّم کی، اور اَیِّم ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی کوئی بیوی نہ ہو، اور ہر اس عورت کو کہتے جس کا کوئی شوہر نہ ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ مجرد کیا ہے |