Ayats Found (1)
Surah 4 : Ayat 3
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فِى ٱلْيَتَـٰمَىٰ فَٱنكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثْنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُبَـٰعَۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَٲحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْۚ ذَٲلِكَ أَدْنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُواْ
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو1 لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو 2یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں3، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے
3 | لونڈیاں مراد ہیں ، یعنی وہ عورتیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آزاد خاندانی بیوی کا با ر بھی برداشت نہ کر سکو تو پھر لونڈی سے نکاح کر لو، جیسا کہ رکوع ۴ میں آگے آتا ہے ۔ یا یہ کہ اگر ایک سے زیادہ عورتوں کی تمہیں ضرورت ہو اور آزاد خاندانی بیویوں کے درمیان عدل رکھنا تمہارے لیے مشکل ہو تو لونڈیوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ ان کی وجہ سے تم پر ذمّہ داریوں کا بار نسبتًہ کم پڑے گا۔ (آگے حاشیہ نمبر ۴۴ میں لونڈیوں کے متعلق احکام کی مزید تفصیل ملے گی) |
2 | اس بات پر فقہا ءِ اُمّت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رُو سے تعدّد ازواج کو محدُود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے ۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غَیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اِسی طرح ایک دُوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔ نیز یہ آیت تعدّد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے ۔ جو شخص عدل کی شرط پُوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فائدہ اُٹھاتا ہے وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے۔ حکومت ِ اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو اُن کی داد رسی کریں۔ بعض لوگ اہلِ مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلُوب و مرعُوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآں کا اصل مقصد تعدّدِ ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطہ ٴ نظر سے فی الاصل بُرا طریقہ ہے) مٹا دینا تھا، مگر چونکہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا ۔ لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں ۔ تعدّد ازواج کا فی نفسہ١ایک بُرائی ہونا بجائے کود ناقابلِ تسلیم ہے ، کیونکہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدّنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے ، حصارِ نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں جس کے نقصانات تمدّن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعدّدِ ازواج سے پہنچ سکتے ہیں۔ اِسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے جو اس کی ضرورت محسُوس کریں۔ تاہم جن لوگوں کے نزدیک تعدّدِ ازواج فی نفسہ١ ایک بُرائی ہے اُن کو یہ اختیا ر تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے بر خلاف اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کر دینے کا مشورہ دیں۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خوا مخواہ قرآن کی طرف منسُوب کریں ۔ کیونکہ قرآن نے صریح الفاظ میں اس جو جائز ٹھیرایا ہے اور اشارةً و کنایةً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اس کو مسدُود کرنا چاہتا تھا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب” سنت کی آئینی حیثیت “، ص ۳۰۷ تا ۳١٦) |
1 | اس کے تین مفہوم اہلِ تفسیر نے بیان کیے ہیں: (١) حضرت عائشہ ؓ اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں جو یتیم بچّیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں اُن کے مال اور اُن کے حُسن و جمال کی وجہ سے ، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کر لیتے تھے اور پھر اُن پر ظلم کیا کرتے تھے ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دُوسری عورتیں دُنیا میں موجود ہیں ، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کر لو۔ اسی سُورة میں اُنیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔ (۲) ابن عباس ؓ اور ان کے شاگرد عِکرِمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کر لیتا تھا۔ اور جب اس کثرتِ ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبُور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں، بھانجوں اور دُوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ ظلم و بے انصافی سے بچنے کی صُورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔ (۳)سَعید بن جُبَیر اور قَتَادَہ اور بعض دُوسرے مفسّرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہلِ جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن عورتوں کے معاملہ میں اُن کے ذہن عدل و انصاف کے تصوّر سے خالی تھے۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر اُن کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اِس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کےساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو ۔ اوّل تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو۔ آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے متحمل ہیں اور عجب نہیں کہ تینوں مفہُوم مراد ہوں۔ نیز اس کا ایک مفہُوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہوں |