Ayats Found (2)
Surah 59 : Ayat 7
مَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ كَىْ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيْنَ ٱلْأَغْنِيَآءِ مِنكُمْۚ وَمَآ ءَاتَـٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَـٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُواْۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے1 ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے2 جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے3
3 | سلسلہ بیان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموالِ بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ عدلیہ و سلم جو فیصلہ فرمائیں اسے بے چوں و چرا تسلیم کر لو، جو کچھ حضورﷺ کسی کو دیں وہ اسے لے لے، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ صرف اموالِ فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی اطاعت کریں۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کر دیتی ہے کہ ‘جو کچھ رسول تمہیں دے ‘ کے مقابلہ میں ‘جو کچھ نہ دے ‘ کے الفاظ استعمال نہیں فرماۓ گۓ ہیں، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ ‘جس چیز سے وہ تمہیں روک دے (یا منع کر دے ) اس سے رک جاؤ‘۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو ‘جو کچھ دے ‘ کے مقابلہ میں ‘ جو کچھ نہ دے ‘ فرمایا جاتا۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضورﷺ کے امر و نہی کی اطاعت ہے۔ یہی بات ہے جو خود رسولﷺ نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم ومانھیتم عنہ فاتنبوہ ‘جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو۔‘ (بخاری۔مسلم)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوۓ کہا ‘ اللہ تعالٰی نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ‘ اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں اخذ کی ہے؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے مل جاتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآاٰتکُمُ الرَّسُولُ فخذوہُ ومَانھٰکم عنہ فانتھوا؟ اس نے عرض کیا، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی۔ (بخاری۔مسلمسنداحمد سُند ابن ابی حاتم) |
2 | یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان ہی کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اِسی مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے، زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، اموالِ غنیمت میں خُمس نکالنے کا حکم دیا گیا، صدقاتِ نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، مختلف قسم کے کَفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رُخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جاۓ، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع، دائرے میں پھیل جاۓ، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ہی انہیں ادا کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لیے صرف کیا جاۓ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدّات دو ہیں۔ ایک زکوٰۃ، دوسرے فَے۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو پورے زائد از نصاب سرماۓ، مواشی، اموالِ تجارت اور زرعی پیداوار سے وصول کی جاتی ہے اور وہ زیادہ تر غریبوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ اور فَے میں جزیہ و خراج سیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوں، اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ یہ کھلا ہوا اشارہ اس طرف ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمدنی و خرچ کا نظام، اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پاے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے |
1 | پچھلی آیت میںصرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں۔ ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے۔ اس حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضورؐ اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر خرچ فرماۓ تھے (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ)۔ حضورﷺ کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہو گیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا۔ امام شافعیؒ سے یہ راۓ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ِ خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب ِ امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصبِ رسالت کی بنا پر۔ مگر فقہاۓ شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے، اور ان سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب۔ یہ حصہ اِس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول ﷺ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گۓ، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر بن عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے (یتامیٰ، مساکین و ابن السبیل) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باِر کا قول نقل کیا ہے کہ اگر چہ حضرت علیؓ کی ذاتی راۓ وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی راۓ تھی (کہ یہ حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی راۓ کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد ان دونوں حصوں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے ) کے متعلق اختلاف راۓ تھی کہ دوسرا حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہۓ۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہۓ۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہو گیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں۔عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضورﷺ کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہاۓ حنفیہ کی راۓ یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفاۓ راشدین کے زمانہ میں جاری تھا (کتاب الخراج 11،بی یوسف، صفحہ 9تا21) امام شافعی ؒ کی راۓ یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطّلی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر، دونوں طرح کے اشخاص کو نَے میں سے مال دیا جا سکتا ہے۔ (مغنی المحتاج)۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جا سکتی ہے، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے۔ (روح المعانی)۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے۔ مگر اَدنیٰ یہ ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مقدم رکھے۔ (حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر)۔ باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پان برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورۂ بالا مصارف پر اس طرح صرف کیا جانا چاہیے کہ اس کا 5/1مصالح مسلمین پر، 5/1 بنی ہاشم و بنی المطلب پر، 5/1 مساکین پر اور 5/1 مسافروں پر صرف کیا جائے۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں، اور ان کی راۓ یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے۔ (مغنی المحتاج) |
Surah 59 : Ayat 10
وَٱلَّذِينَ جَآءُو مِنۢ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا ٱغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَٲنِنَا ٱلَّذِينَ سَبَقُونَا بِٱلْإِيمَـٰنِ وَلَا تَجْعَلْ فِى قُلُوبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ رَبَّنَآ إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن اگلوں کے بعد آئے ہیں1، جو کہتے ہیں کہ 2"اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے"
2 | اس آیت میں اگر چہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں، بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے، اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعاۓ مغفرت کرتے رہیں، نہ یہ کہ وہ ان پر لعنت بھیجیں اور تبرا کریں۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے وہ در اصل ایمان کا رشتہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیر خواہ ہو گا جو ایمان کے رشتہ سے اس کے بھائی ہیں۔ ان کے لیے بد خواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں اسی وقت جگہ پا سکتی ہے جبکہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جاۓ اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو۔ اس معاملہ میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے، اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضورﷺ نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیر معمولی چیز انہیں نظر نہ آئی۔ ناچار انہوں نے خود ان ہی سے پوچھ لیا کہ بھائی، آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضورؐ سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سنی ہے؟ انہوں نے کہا میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ البتہ ایک بات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو، اور وہ یہ ہے کہ لا ابد فی نفسی غ،لًّا لا حد من المسلمین، ولا احدہ علی خیراٍ اعطاہ اللہ تعالیٰ ایاہ۔ ’’ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو، اس سے حسد کرتا ہوں ‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہر گز نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جاۓ، یا اس کی غلط با ت کو غلط نہ کہا جاۓ۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اسے بیان کر دینا اور چیز ہے، اور بغض و نفرت، مَذَمّت و بد گوئی اور سب و شَتُم بالکل ہی ایک دوسری چیز۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جاۓ تب بھی ایک بڑی برائی ہے، لیکن مرے ہوۓ اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی برائی ہے، کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہو گا نو مرنے والوں کو بھی۔ معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید برائی یہ ہے کہ کوئی شخص ان لوگوں کے حق میں بد گوئی کرے جنہوں نے انتہائی سخت آزمائشوں کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور پنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسر ہوئی ہے۔ ان کے درمیان جو اختلافات رو نما ہوۓ ان میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسے فریق کا موقف اس کے راۓ میں صحیح نہ ہو تو وہ یہ راۓ رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جاۓ اور زبان و قلم سے بد گوئی کی تراوش ہونے لگے، ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سر زد نہیں ہو سکتی۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس نعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ لیکن یہ الزام اس گناہ سے بھی بد تر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی یہی آیات جن کے سلسلہ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوۓ اہل ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعاۓ مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے، ان کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ ان آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ اول مہاجرین، دوسرے انصار، تیسرے ان کے بعد آنے والے مسلمان۔ اور ان بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے ان کے حق میں دعاۓ مغفرت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر اللہ تعالٰی نے اسی سورہ حشر کی آیات 11 تا 17 میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے۔ اس سے یہ بات بالکل ہی کھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنہوں نے غزوہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی، اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شامل تھے۔ اس کے بعد کیا ایک مسلمان، جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو، یہ جسارت کر سکتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟ امام مالک اور امام احمد نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوۓ یہ راۓ ظاہر کی ہے کہ فَے میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابہ کرام کو برا کہتے ہیں (احکام القرآن لابن العربی۔ غایۃ المنتہیٰ)۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس راۓ سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوۓ ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے، مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جاۓ ورنہ نہیں۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ ’’ وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جاۓ وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حقدار نہیں ہے۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ ’’ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جاۓ اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے، خواہ وہ خود تنگ دست ہوں ‘‘۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کو کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہشمند ہو۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ ’’ اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعاۓ مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بعض نہ ہو‘‘، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہل ایمان کا رویہ دوسرے اہل ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوۓ مومنین کے معاملہ میں کیا ہونا چاہیے |
1 | یہاں تک جو احکام ارشاد ہوۓ ہیں ان میں یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ فَے میں اللہؔ اور رسولؔ، اور اقرباۓؔ رسول، اور یتامیٰ اور مساکین اور ابنن السبیل، اور مہاجرین اور انصار، اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں۔ قرآن پاک کا یہی وہ اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی اراضی اور جائدادوں کا اور ان ممالک کی سابق حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کی املاک کا نیا بندوبست کیا۔ یہ ممالک جب فتح ہوۓ تو بعض ممتاز صحابہ کرام نے، جن میں حضرت زبیر، حضرت بلال، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سلمان فارسی جیسے بزرگ شامل تھے، اصرار کیا کہ ان کو ان افواج میں تقسیم کر دیا جاۓ جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہاموال فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ ان پر تو مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے، اس لیے بجز ان شہروں اور علاقوں کے جنہوں نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کی ہے، باقی تمام مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں اور ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی اراضی اور ان کے باشندوں کا پانچواں حصہ بیت المال کی تحویل میں دے دیا جاۓ، اور باقی چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیں، لیکن یہ راۓ اس بنا پر صحیح نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ کر فتح کیے گۓ تھے ان میں سے کسی کی اراضی اور باشندوں کوبھیحضور نے غنائم کیطرح خمس نکالنے کے بعد فوج میں تقسیم نہیں فرمایا تھا۔ آپ کے زمانے کی دو نمایا ترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر کی ہیں۔ ان میں سے مکہ معظمہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا۔ رہا خیبر، تو اس کے متعلق حضرت بشیر بن یسار کی روایت ہے کہ آپ نے اس کے 36 حصے کیے، اور ان میں سے 18 حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کے کے باقی 18 حصے فوج میں تقسیم فرما دیے (ابو داؤد، بیہقی، کتاب الاموال لابی عبید، کتاب الخراج لیحیحیٰ بن آدم، فتوح البلدان للبلاذری، فتح القدیر لا بن ہمام)۔ حضور کے اس عمل سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ااضی مفتوحہ کہ حکم، اگر چہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں، غنیمت کا نہیں ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حضور مکہ کو تو بالکل ہی اہل مکہ کے حوالہ فرما دیتے، اور خیبر میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بجاۓ اس کا پورا نصف حصہ اجتماعی ضروریات کے لیے بیت المال کی تحویل میں لے لیتے۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی وہ یہ کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی مناسب ترین ہو کر ے۔ وہ ان کو تقسیم بھی کر سکتا ہے۔ اور اگر کوئی غیر معمولی نوعیت کسی علاقے کی ہو، جیسی مکہ معظمہ کی تھی، جو اس کے باشندوں کے ساتھ وہ احسان بھی کر سکتا ہے جو حضورؐ نے اہل مکہ کے ساتھ کیا۔ مگر حضورؐ کے زمانے میں چونکہ فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی، اور مختلف اقسام کے مفتوحہ ممالک کا الگ الگ حکم کھل کر لوگوں کے سامنے نہ آیا تھا، اس لیے حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوۓ تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزور شمشیر فتح ہونے والے علاقے آیا غنیمت ہیں یا فَے۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت زبیر نے مطالبہ کیا کہ : اسمھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر، ’’ اس پورے علاقے کو اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا‘‘ (ابوعبید)۔ شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں کے متعلق حضرت بلالؓ نے اصرار کیا کہ اقسم الارَضِین بین الذین افتتحو ھا کما تقسم غنیمۃ العکر۔’’ تمام اراضی کو فاتح فوجوں کے درمیان اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے ‘‘(کتاب الخراج، ابو یوسف)دوسری طرف حضرت علیؓ کی راۓ یہ تھی کہ دعھم یکونوامادۃً للمسلمین۔ ’’ ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیجیے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنے رہیں ‘‘ (ابو یوسف، ابو عبید)۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کی راۓ یہ تھی کہ ’’ اگر آپ نے تقسیم کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے۔ اس تقسیم کی بدولت بڑی بڑی جائدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں۔ پھر یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور ان کی جائدادیں ان کے وارثوں کے پاس رہ جائیں گی، جن میں بسا اوقات کوئی ایک ہی عورت ہو گی یا کوئی ایک مرد ہو گا، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا جس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے مصارف بھی پورے کیے جا سکیں۔ لہٰذا آپ ایسا بندوبست کریں جس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کا یکساں تحفظ ہو‘‘ (ابو عبید ص 59۔ فتح الباری، ج 6، ص 138)۔ حضرت عمرؓ نے حساب لگا کر دیکھا کہ اگر سوادِ عراق کو تقسیم کیا جاۓ تو فی کس کیا حصہ پڑے گا۔ معلوم ہو کہ دو تین فلاح فی کس کا اوسط پڑتا ہے (ابو یوسف،ابو عبید)۔ اس کے بعد انہوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ راۓ قائم کر لی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے تقسیم کا مطالبہ کر نے والے مختلف اصحاب کو جو جوابات دیے وہ یہ تھے : تریدو ن ان یاتی اٰخر الناس لیس لہم شئٍ (ابو عبید) کیا آپ چاہتے ہیں کہبعد کے لوگ اس حالت میں آئیں کہ ان کے لیے کچھ نہ ہو؟ فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلو جھا قد اقتسمت و ورثت عن الابآء و حیزت؟ ما ھٰذا ابرائی (ابو یوسف )۔ ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے اور حالت یہ پائیں گے کہ زمین اپنے کسانوں سمیت بٹ چکی ہے اور باپ دادا سے لوگوں نے وراثت میں سنبھال لی ہے؟ یہ ہر گز مناسب نہیں ہے۔ فما لمن جاء بعد کم من المسلمین واخاف ان قسمتہ ان تفا سد و ابینکم فی لمیاہ (ابو عبید) تمہارے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے کیا رہے گا؟ اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں اسے تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں لڑو گے۔ لولا اٰخر الناس مافنحت قریَۃ الا قسمتھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر(بخاری، موطّا، ابو عبید)۔ اگر بعد میں آنے والوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی میں فتح کرتا اسے تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو تقسیم کیا۔ لا: ھٰذا عین المال، ولکنی احبسہٗ فیما یجری علیھم وعلی المسلمین۔ (ابو عبید)۔ نہیں، یہ تو عین المال(Real estate) ہے۔ میں اسے روک رکھوں گا تاکہ فاتح فوجوں اور عام مسلمانوں، سب کی ضروریات اس سے پوری ہوتی رہیں۔ لیکن ان جوابات سے لوگ مطمئن نہ ہوۓ اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں۔ آخر کار حضرت عمرؓ نے مجلس شوریٰ کا اجتماع منعقد کیا اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ اس موقع پر جو تقریر آپ نے کی اس کے چند فقرے یہ ہیں : ’’میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کے اٹھانے میں میرے ساتھ شریک ہوں جس کا بار آپ کے معاملات کو چلانے کے لیے میرے اوپر رکھا گیا ہے۔ میں آپ ہی لوگوں میں سے ایک فرد ہوں، اور آپ وہ لوگ ہیں جو آج حق کا اقرار کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے جو چاہے میری راۓ سے اتفاق کرے اور جو چاہے اختلاف کرے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں۔ آپ کے پاس کتاب اللہ ہے جو ناطق بالحق ہے۔خدا کی قسم میں نے اگر کوئی بات کہو ہے جسے میں کرنا چاہتا ہوں تو اس سے میرا مقصد حق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ …………… آپ ان لوگوں کی بات سن چکے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کروں۔ میں بڑا شقی ہوں گا اگر ظلم کر کے کوئی ایسی چیز جو فی الواقع ان کی ہو، انہیں نہ دوں اور کسی دوسرے کو دے دوں۔ مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی اور علاقہ فتح ہونے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایرانیوں کے مال اور ان کی زمینیں اور ان کے کسان، سب ہمارے قبضے میں دے دیے ہیں۔ ہماری فوجوں نے جو غنائم حاصل کیے تھے وہ تو میں خمس نکال کر ان میں بانٹ چکا ہوں، اور ابھی جو غنائم تقسیم نہیں ہوۓ ہیں، میں ان کو بانٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہوں۔ البتہ زمینوں کے بارے میں میری راۓ یہ ہے کہ انہیں اور ان کے کسانوں کو تقسیم نہ کروں، بلکہ ان پر خراج اور کسانوں پر جزیہ لگا دوں جسے وہ (ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور یہ اس وقت کے عام مسلمانوں اور لڑنے والی فوجوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے فَے ہو۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہماری ان سرحدوں کے لیے لازماً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت کرتے رہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے ملک، شام، الجزیرہ، کوفہ، بصرہ، مصر، ان سب میں فوجیں رہنے چاہیں اور ان کو پابندی سے تنخواہیں ملنی چاہیں؟ اگر میں ان زمینوں کو ان کے کسانوں سمیت تقسیم کر دوں تو یہ مصارف کہاں سے آئیں گے؟‘‘ یہ بحث دو تین دن چلتی رہی۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمر وغیرہ حضرات نے حضرت عمؓر اٹھے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھے کتاب اللہ سے ایک حجت مل گئی ہے جو اس مسئلے کا فیصلہ کر دینے والی ہے۔ اس کے بعد انہوں ے سورہ حشر کی یہی آیات مَآ اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ سے لے کر رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ تک پڑھیں، اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی عطا کردہ ان املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے، پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے،ہم ان فاتحین میں تقسیم کر دیں اور بعد والوں کے لیے کچھ نہ چھوڑیں؟ نیز اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے کَیْ لَا یَکُوْنَدَوْلَۃً؍بَیْنَالْاَغْنِیَآءِمِنْکُمْ، ’’ تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگا تا رہے ‘‘۔ لیکن اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کر دیا اور اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عامہ مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جاۓ، جو لوگ ان اراضی پر کام کر رہے ہیں انہیں کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جاۓ اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جاۓ (کتاب الخراج لابی یوسف، صفحہ 23 تا 27 و 35 احکام القرآن للجصاص)۔ اس فیصلے کے مطابق اراضی مفتوحہ کی اصل حیثیت یہ قرار پائی کہ مسلم ملت بحیثیت مجموعی ان کی مالک ہے، جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر کام کر رہے تھے ان کو ملت نے اپنی طرف سے بطور کاشتکار بر قرار رکھا ہے، وہ ان اراضی پر اسلامی حکومت کو ایک مقرر لگان ادا کرتے رہیں گے، نسلاً بعد نسلٍ یہ کاشتکارانہ حقوق ان کی میراث میں منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ ان حقوق کو فروخت بھی کر سکیں گے، مگر زمین کے اصل مالک وہ نہ ہونگے بلکہ مسلم ملت ان کی مالک ہو گی۔ امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں اس قانون پوزیشن کو اس طرح بیان کیا ہے۔ اقرا ھل السود فی ارضیھم و ضرب علی رؤ سھم الجزیۃ و علیٰ اَرَضِیھم الطسق (ص 57)۔ حضرت عمرؓ نے سواد عراق کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا، اور ان کے افاد پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر ٹیکس لگا دیا۔ اذا اقرّالامام اھل العَنْوۃ فی ارضیھم توارثوھا و تبایعوھا (ص 84)۔ امام (یعنی اسلامی حکومت کا فرمانروا) جب مفتوحہ ممالم کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھے تو وہ ان اراضی کو میراث میں بھی منتقل کر سکیں گے اور بیع بھی کر سکیں گے۔ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں شعبی سے پوچھا گیا کیا سواد عراق کے لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ معاہدہ تو نہیں ہے، مگر جب ان سے خراج لینا قبول کر لیا گیا تو یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا (ابوعبید،ص49۔ ابویوسف ص 28)۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عتبہ بن فَرقَد نے فُرات کے کنارے ایک زمین خریدی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے؟ انہوں نے کہا اس کے مالکوں سے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اس کے مالک تو یہ لوگ ہیں (یعنی مہاجرین و انصار )۔ رأیٰ عمراب اصل الارض للمسلمین، ’’ عمرؓ کی راۓ یہ تھی کہ ان زمینوں کے اصل مال مسلمان ہیں ‘‘(ابو عبید، ص 74)۔ اس فیصلے کی رو سے ممالک مفتوحہ کے جو اموال مسلمانوں کی اجتماعیہ ملکیت قرار دیے گئے وہ یہ تھے : وہ زمینیں اور علاقے جو کسی صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔ وہ فدیہ یا خراج یا جزیہ جو کسی علاقے کے لوگوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں سے امان حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا قبول کیا ہو۔ وہ اراضی اور جائدادیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ جائدادیں جن کے مالک مرے گۓ اور کوئی مالک باقی نہ رہا۔ وہ اراضی جو پہلے سے کسی کے قبضے میں نہ تھیں۔ وہ اراضی جو پہلے سے لوگوں کے قبضے میں تھیں مگ ان کے سابق مالکوں کو برقرار رکھ کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا گیا۔ سابق حکمراں خاندانوں کی جاگیریں۔ سابق حکومتوں کی املاک۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو بدائع الصنائع، ج7، ص 116۔ 118۔ کتاب الخراج، یحیٰ بن آدم، ص 22۔ 64۔ مغنی المحتاج، ج 3 ِ س 93۔ حاشیہ الدسوتی علی الشرح لکبیر، ج 2، ص 190۔ غائیۃ المنتیہیٰ، ج 1، ص 467۔ 471)۔ یہ چیزیں چونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے فَے قرار دی گئی تھیں، اس لیے فقہاۓ اسلام کے درمیان بھی ان کے فَے قرار دیے جانے پر اصولاً اتفاق ہے۔ البتہ اختلاف چند امور میں ہے جنہیں ہم مختصراً ذیل میں بیان کرتے ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کے معاملہ میں اسلامی حکومت (فقہاء کی اصطلاح میں امام)کو اختیار ہے، چاہے تو ان میں سے خمس لے کر باقی فاتح فوج میں تقسیم کر دے، اور چاہے تو ان کو سابق ملکوں کے قبضے میں رہنے دے اور ان کی مالکوں پر جزیہ اور زمینوں پر خراج عائد کر دے۔ اس صورت میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف للمسلمین قرار پائیں گی۔ (بدائع الصنائع۔ احکام القرآن للجصاص۔ شرح العنایہ علی الہدایہ۔ فتح القدیر)۔ یہی راۓ عبداللہ بن مبارک نے امام سفیان ثوری سے بھی نقل کی ہے (یحیٰ بن آدم۔ کتاب الاموال لابی عبید) مالکیہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے محض فتح کر لینے ہی سے یہ اراضی خود بخود وقف علی المسلمین ہو جاتی ہیں۔ ان کو وقف کرنے کے لیے نہ امام کے فیصلے کی ضرورت ہے اور نہ مجاہدین کو راضی کرنے کی۔ علاوہ بریں مالکیہ کے ہاں مشہور قول یہ ہے کہ صرف اراضی ہی نہیں، مفتوحہ علاقوں کے مکان اور عمارات بھی حقیقۃً وقف علی المسلمین ہیں البتہ اسلامی حکومت ان پر کرایہ عائد نہیں کرے گی (حاشیہ الدسوتی )۔ حنابلہ اس حد تک حنفیوں سے متفق ہیں کہ اراضی کو فاتحین میں تقسیم کرنا، یا مسلمانوں پر وقف کر دینا امام کے اختیار میں ہے۔ اور اس امر میں مالکیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کے مکان بھی اگر چہ وقف میں شامل ہونگے مگر ان پر کرایہ عائد نہ کیا جاۓ گا (غایۃ المنتہیٰ۔ یہ مذہب حنبلی کے مفتیٰ بہ اقوال کا مجموعہ ہے اور دسویں صدی سے اس مذہب میں فتویٰ اسی کتاب کے مطابق دیا جاتا ہے )۔ شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کے تمام اموال منقولہ غنیمت ہیں، اور تمام اموال غیر منقولہ (اراضی اور مکانات ) کو فَے قرار دیا جاۓ گا (مغنی المحتاج)۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کی اراضی کو اگر امام وقف علی المسلمین کرنا چاہے تو لازم ہے کہ وہ پہلے فاتح فوجوں کی رضا مندی حاصل کرے۔ اس کے لیے وہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے سوادعراق کی فتح سے پہلے جریر بن عبداللہ البحلی سے، جن کے قبیلے کے لوگ جنگ قدسیہ میں شریک ہونے والی فوج کا چوتھائی حصہ تھے، یہ وعدہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کا چوتھائی حصہ ان کو دیا جاۓ گا۔ چنانچہ 2۔3۔ سال تک یہ حصہ انکے پاس رہا۔ پھر حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ : لو لا انی قاسم مستول لکنتم علیٰ ماجعل لکم، واری الجاس قد کثر و افادیٰ ان تردہ علیہم، ’’اگر میں تقسیم کے معاملہ میں ذمہ دا اور جو ابدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تمہیں دیا جا چکا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہنے دیا جاتا۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے، اس لیے میری راۓ یہ ہے کہ تم اسے عام لوگوں کو واپس کر دو‘‘۔ حضرت جریرؓ نے اس بات کو قبول کر لیا اور حضرت عمرؓ نے ان کو اس پر 80 دینار بطور انعام دیے (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید)۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فاتحین کو راضی کرنے کے بعد مفتوحہ علاقوں کو وقف علی المسلمین قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ کیونکہ تمام ممالک مفتوحہ کے معاملہ میں تمام فاتحین سے اس طرح کی کوئی رضا مندی نہیں لی گئی تھی، اور صرف حضرت جریر بن عبداللہ کے ساتھ یہ معاملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ فتح سے پہلے، قبل اس کے کہ اراضی مفتوحہ کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ ہوتا، حضرت عمرؓ ان سے ایک وعدہ کر چکے تھے، اس لیے سعدے کی پابندی سے برأت حاصل کرنے کے لیے آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا۔ اسے کوئی عام قانون قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فقہاء کا ایک اور گروہ کہتا ہے کہ وقف قرار دے دینے کے بعد بھی کسی وقت حکومت کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ ان اراضی کو پھر سے فاتحین میں تقسیم کر دے۔اس کے لیے وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا لو لا ان یضرب بعضکم وجوہ بعض لقسمت اسواد بینکم’’ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے سے لڑو گے تو میں سواد کا علاقہ تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا،‘‘ (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید)۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس راۓ کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جزیہ و خراج عائد کر کے انہیں ان کی زمینوں پر بر قرار رکھنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد کبھی یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا۔ رہی وہ بات جو حضرت علیؓ کی طرف منسوب کی جاتی ہے، تو اس پر ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے |