Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 256
لَآ إِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّۚ فَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَاۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے1 صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت2 کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
2 | ”طاغوت“ لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو۔ قران کی اِصطلاح میں طاغوت سے مُراد وہ بندہ ہے، جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اُصُولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے، مگر دعملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے ۔ اِس کا نام فِسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اُصُولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اَور کی بندگی کرنے لگے۔ یہ کففر ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے مُلک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے ، اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو |
1 | یہاں” دین“ سے مُراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اُوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے ، اور وہ پُورا نظامِ زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ”اسلام“ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پر زبر دستی نہیں ٹھونسا جا سکتا۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا سکے |
Surah 39 : Ayat 15
فَٱعْبُدُواْ مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِۦۗ قُلْ إِنَّ ٱلْخَـٰسِرِينَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓاْ أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ أَلَا ذَٲلِكَ هُوَ ٱلْخُسْرَانُ ٱلْمُبِينُ
تم اُس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو کہو، اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا خوب سن رکھو، یہی کھلا دیوالہ ہے1
1 | دیوالہ عُرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ ا پنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ یہی استعارہ کفار و مشرکین کے لیے اللہ تعالٰی نے یہاں استعمال کیا ہے۔ انسان کو زندگی، عمر، عقل، جسم، قوتیں اور قابلیتیں، ذرائع اور مواقع، جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں، ان سب کا مجموعہ دراصل وہ سرمایہ ہے جسے وہ حیات دنیا کے کاروبار میں لگاتا ہے۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں، اور کسی کو مجھے حساب نہیں دینا ہے، یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا مجھے آ کر بچالے گا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبو دیا۔ یہ ہے پہلا خُسران۔ دوسرا خُسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آئندہ نسلوں اوراللہ کی دوسری بہت سے مخلوق پرعمر پھر ظلم کرتا رہا۔اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے،مگر اس کے پلّے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے۔اس پر مزید خُسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز و اقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا۔یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالٰی خسران مبین قرار دے رہا ہے۔ |
Surah 109 : Ayat 6
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِىَ دِينِ
تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین1
1 | یعنی میرا دین الگ ہے اور تمہارا دین الگ۔ میں تمہارے معبودوں کا پرستار نہیں اور تم میریے معبود کے پرستار نہیں۔ میں تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کر سکتا اور تم میرے معبود کی بندگی کے لیے تیار نہیں ہو۔ اس لیے میرا اور تمہارا راستہ کبھی ایک نہیں ہو سکتا۔ یہ کفار کو رواداری کا پیغام نہیں ہے، بلکہ جب تک وہ کافر ہیں ان سے ہمیشہ کے لیے براءت ، بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان ہے، اور اس سے مقصود ان کو اس امر سے قطعی اور آخری طور پر مایوس کر دینا ہے کہ دین کے معاملہ میں اللہ کا رسول، اور اس پر ایمان لانے والوں کا گروہ کبھی ان سے کوئی مصالحت کرے گا۔ یہی اعلانِ براءت اور اظہارِ بیزاری اس سورۃ کے بعد نازل ہونے والی مکی سورتوں میں پے درپے کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ یونس میں فرمایا ’’اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہار عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں‘‘ (آیت 4)۔ پھر آگے چل کر اس سورہ میں فرمایا: ’’اے نبی کہہ دو کہ لوگو، اگر تم میرے دین کے متعلق (ابھی تک) کسی شبہ میں ہو تو (سن لو کہ) اللہ کے سوا تم جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اس خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے اختیار میں تمہاری موت ہے‘‘۔ (آیت 104) ۔ سورۃ شعراء میں فرمایا ’’اے نبی، اب اگر یہ لوگ تمہاری بات نہیں مانتے تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں ‘‘۔ (آیت 216)۔ سورہ سبا میں فرمایا ’’ ان سے کہو جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی باز پرس تم سے نہ ہو گی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جا ئے گی۔ کہو، ہمارا رب (ایک وقت ہمیں اور تمہیں جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا‘‘ (آیات 25۔26) سورہ زمر میں فرمایا ’’ان سے کہو، اے میری قوم کے لوگو، تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ میں اپنا کام کرتا رہوں گا۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر سوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو ٹلنے والی نہیں‘‘(39۔40)۔ پھر یہی سبق مدینہ طیبہ میں تمام مسلمانوں کو دیا گیا کہ ’’تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے ا ور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ‘‘ (الممتحنہ 4) قرآن مجید کی ان پے درپے توضیحات سے اس شبہ کی گنجائش تک نہیں رہتی کہ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔ ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو اور مجھے اپنے دین پر چلنے دو۔ بلکہ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی سورہ زمر میں فرمائی گئی ہے ’’اے نبی، ان سے کہو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا، تم اسے چھوڑ کر جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو‘‘۔ (آیت 14)۔ اس آیت سے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے یہ ا ستدلال کیا ہے کہ کافروں کے مذاہب خواہ باہم کتنے ہی مختلف ہوں لیکن کفر بحیثیت مجموعی ایک ہی ملت ہے، اس لیے یہودی عیسائی کا،اورعیسائی یہودی کا، اور اسی طرح ایک مذہب کا کافر دوسرے مذہب کے کافر کا وارث ہو سکتا ہے اگر ان کے درمیان نسب، یا نکاح یا کسی سبب کی بنا پر کوئی ایسا تعلق ہو جو ایک کی وراثت دوسرے کو پہنچنے کا مقتضی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام اوزاعی اور امام احمد اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیرو کی وراثت نہیں پا سکتے۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یتوارث اھل ملّتین شتّٰی۔ ‘‘’’دو مختلف ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے‘‘(مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، دارقطنی)۔ اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک حدیث ترمذی نے حضرت جابرؓ سے اور ابن حبان نے حضرت عبداللہ بن عمر سے اور بزار نے حضرت ابو ہریرہؓ سے نقل کی ہے۔ اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے مسلک حنفی کے مشہور اما شمس الائمہ سرحسی لکھتے ہیں ’’کفار آس میں ان سب اساب کی بنا پر بھی ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں جن کی بنا پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان بعض ایسی صورتوں میں بھی توارث ہو سکتا ہے جن میں مسلمانوں کے درمیان نہیں ہو تا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بس دو ہی دین قرار دیے ہیں، ایک دین حق ، دوسرے دین باطل چنانچہ فرمایا لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔ ‘‘اور اس نے لوگوں کے دو ہی فریق رکھے ہیں، ایک فریق جنتی ہے اور وہ مومن ہے اور دوسرا فریق دوزخی ہے اور وہ بحیثیت مجموعی تمام کفار ہیں۔ اور اس نے دو ہی گروہوں کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا ھِذَا نِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ‘‘ (یہ دو مد مقابل فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ الحج آیت 19) یعنی ایک فریق تمام کفار بحیثیت مجموعی ہیں اور ان کا جھگڑا اہل ایمان سے ہیں۔۔۔ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق باہم الگ الگ ملتیں ہیں، بلکہ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ سب ایک ہی ملت ہیں، کیونکہ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور قرآن کا اقرار کرتے ہیں اور وہ ان کا انکارکرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ کافر قرار پائے ہیں اور مسلمانوں کے معاملہ میں وہ سب ایک ملت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حدیث لا یتوارث اھل ملّتین ‘‘اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، کیونکہ ملتین (دو ملتوں) کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس ارشاد سے کر دی ہے کہ لا یرث المسلم الکافر و لا الکافر المسلم۔ ‘‘مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے‘‘۔ (المبسوط ، ج ۔3 ، صفحات 30۔32) امام سرخسی نے یہاں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے بخاری ، مسلم، نسائی، احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے حضرت اسامہؓ بن زید سے روایت کیا ہے |