Ayats Found (3)
Surah 8 : Ayat 25
وَٱتَّقُواْ فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةًۖ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو1 اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے
1 | س سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں نفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں۔ ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افرد ہی متاثر ہوتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہو جاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سمیت پھیل جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے گندہ ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگروہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح ساسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو اسن کے نقصانات محدود رہتے ہیں۔ لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہو جاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اُس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان بُرے اور بے حیا اور بد اخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو اعلانیہ اچھا لنے اور پھیلانے لگتے ہیں، اور جب اچھے لوگ بے عملی (Passive attitude ) اختیار کرکے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہو جاتے ہیں، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ پس اللہ تعالی ٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ رسول جس اصلاح وہدایت کے کام کے لیے اٹھا ہے اور تمہیں جس خدمت میں ہاتھ بٹناے کے لیے بلا رہا ہے اسی میں درحقیقت شخصی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے تمہارے لیے زندگی ہے۔ اگر اس میں سچے دل سے مخلصانہ حصہ نہ لو گے اور ان برائیوں کو جا سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے تو وہ فتنہ عام برپا ہوگا جس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی خواہ بہت سے افراد تمہارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں۔ یہ وہی بات ہے جس کو سورہ اعراف آیات ١٦۳۔١٦٦ میں اصحاب السّبت کی تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے بیان کیا جاچکا ہ، اور یہی وہ نقطہ نظر ہے جسے اسلام کی اصلاحی جنگ کا بنیادی نظریہ کہا جا سکتا ہے |
Surah 22 : Ayat 38
۞ إِنَّ ٱللَّهَ يُدَٲفِعُ عَنِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ
یقیناً اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں1 یقیناً اللہ کسی خائن کافر نعمت کو پسند نہیں کرتا2
2 | یہ وجہ ہے اس بات کی کہ اس کشمکش میں اللہ کیوں اہل حق کے ساتھ ایک فریق بنتا ہے۔ اس لیے کہ حق کے خلاف کشمکش کرنے والا دوسرا فریق خائن ہے ، اور کافر نعمت ہے۔ وہ ہر اس امانت میں خیانت کر رہا ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے ، اور ہر اس نعمت کا جواب ناشکری اور کفران اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے۔ لہٰذا اللہ اس کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے خلاف جد و جہد کرنے والے حق پر ستوں کی تائید کرتا ہے |
1 | مدافعت دفع سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دور کرنے کے ہیں۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے۔ ان دو مفہومات کو نگاہ میں رک کر دیکھا جائے تو اہل ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہل ایمان یکّہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے ، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے ضرر کو ان سے دفع کرتا رہتا ہے۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہل حق کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی |
Surah 22 : Ayat 40
ٱلَّذِينَ أُخْرِجُواْ مِن دِيَـٰرِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّآ أَن يَقُولُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُۗ وَلَوْلَا دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَٲمِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَٲتٌ وَمَسَـٰجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا ٱسْمُ ٱللَّهِ كَثِيرًاۗ وَلَيَنصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُۥٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے1 صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے 2"ہمارا رب اللہ ہے" اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں3، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں4 اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے5 اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے
5 | یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلق خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دین حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی و جہد کرتے ہیں وہ در اصل اللہ کے مدد گار ہیں ، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، آل عمران، حاشیہ 50 |
4 | یعنی اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا ، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کرتا رہتا ہے۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست، اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِالْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ، ’’ اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ‘‘۔(آیت 251) |
3 | اصل میں سَوَأمِعُ اور بِیَعٌ اور سَلَواتٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب اور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیررہتے ہوں۔ بیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صلوات سے مرد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ (Salute) اور (Salutation) اسی سے نکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو |
2 | جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گۓ اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں : حضرت صہیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آۓ تھے اور اب خوب مال دار ہو گۓ ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا، کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گۓ اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ حضرت ام سَلَمہ اور ان کے شوہر ابو سَلَمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے۔ بنی مغیرہ (ام سلمہ کے خاندان ) نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے پھرتے رہو، مگر ہماری لڑکی کو لے کر نہیں جا سکتے۔ مجبوراً بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گۓ۔ پھر بنی عبدالاسد (ابو سلمہ کے خاندان والے ) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے ، اسے ہمارے حوالے کرو۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال تک حضرت ام سلمہ بچے اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں ، اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جاری تھی جن سے مسلح قافلے بھی گزرتے ہوۓ ڈرتے تھے۔ عیاش بن ربیعہ ، ابو جہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گۓ۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا اور بات بنائی کہ اماں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ اس لیے تم بس چل کر انہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آ جانا۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ ’’ اے اہل مکہ۔ اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے ‘‘۔ کافی مدت تک یہ بیچارے قید رہے اور آخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کی خیریت سے نہ نکلنے دیا |
1 | یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ سورہ حج کا یہ حصہ لازماً ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے |