Ayats Found (7)
Surah 47 : Ayat 6
وَيُدْخِلُهُمُ ٱلْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ
اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے1
1 | یہ ہے وہ نفع جو راہ خدا میں جان دینے والوں کو حاصل ہو گا۔ اس کے تین مراتب بیان فرماۓ گۓ ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ ان کی رہنمائی فرماۓ گا۔ دوسرے یہ کہ ان کا حال درست کر دے گا۔ تیسرے یہ کہ ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ پہلے ہی ان کو واقف کرا چکا ہے۔ رہنمائی کرنے سے مراد ظاہر ہے کہ اس مقام پر جنت کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ حالت درست کرنے سے مراد یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کو خلعتوں سے آراستہ کر کے وہاں لے جاۓ گا اور ہر اس آلائش کو دور کر دے گا جو دنیا کی زندگی میں ان کو لگ گئی تھی۔ اور تیسرے مرتبے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پہلے ہی ان کو قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے بتایا جا چکا ہے کہ وہ جنت کیسی ہے جا اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھی ہے۔ اس جنت میں جب وہ پہنچیں گے تو بالکل اپنی جانی پہچانی چیز میں داخل ہوں گے اور ان کو معلوم ہو جاۓ گا کہ جس چیز کے دینے کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہی ان کو دی گئی ہے، اس میں یک سر مُو فرق نہیں ہے |
Surah 9 : Ayat 19
۞ أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ ٱلْحَآجِّ وَعِمَارَةَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ كَمَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَجَـٰهَدَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۚ لَا يَسْتَوُۥنَ عِندَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں1؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا
1 | یعنی کسی زیارت گاہ کی سجدہ نشینی ، مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری ، جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں ، خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی۔ اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے۔ ان صفات کا جو شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خوا ہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں۔ لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں ۔ سجدہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آرہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں، نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ایسے بے حقیقت ”موروثی“ حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں |
Surah 9 : Ayat 20
ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَـٰهَدُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٲلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ ٱللَّهِۚ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَآئِزُونَ
اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں
Surah 61 : Ayat 12
يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ وَمَسَـٰكِنَ طَيِّبَةً فِى جَنَّـٰتِ عَدْنٍۚ ذَٲلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی1
1 | یہ اس تجارت کے اصل فوائد ہیں جو آخرت کی ابدی زندگی میں حاصل ہوں گے ۔ ایک، خدا کے عذاب سے محفوظ رہنا۔ دوسرے ، گناہوں کی معافی۔ تیسرے ، خدا کی اس جنت میں داخل ہونا جس کی نعمتیں لازوال ہیں |
Surah 61 : Ayat 13
وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَاۖ نَصْرٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ
اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح 1اے نبیؐ، اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو
1 | دنیا میں فتح و کامرانی بھی اگر چہ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ، لیکن مومن کے لیے اصلی اہمیت کی چیز یہ نہیں ہے بلکہ آخرت کی کامیابی ہے ۔ اسی لیے جو نتیجہ دنیا کی اس زندگی میں حاصل ہونے والا ہے اس کا ذکر بعد میں کیا گیا، اور جو نتیجہ آخرت میں رونما ہونے والا ہے اس کے ذکر کو مقدم رکھا گیا |
Surah 4 : Ayat 74
۞ فَلْيُقَـٰتِلْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يَشْرُونَ ٱلْحَيَوٲةَ ٱلدُّنْيَا بِٱلْأَخِرَةِۚ وَمَن يُقَـٰتِلْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
(ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں1، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجر عظیم عطا کریں گے
1 | یعنی اللہ کی راہ میں لڑنا دنیا طلب لوگوں کا کام ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایسے لوگوں کا کام ہے جن کے پیشِ نظر صرف اللہ کی خوشنودی ہو، جو اللہ اور آخرت پر کام اعتماد رکھتے ہوں، اور دنیا میں اپنی کامیابی و خوشحالی کے سارے امکانات اور اپنے ہر قسم کے دُنیوی مفاد اس اُمید پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں کہ ان کا رب ان سے راضی ہو گا اور اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں بہرحال ان کی قربانیاں ضائع نہ ہوں گی۔ رہے وہ لوگ جن کی نگاہ میں اصل اہمیت اپنے دُنیوی مفاد ہی کی ہو، تو درحقیقت یہ راستہ ان کے لیے نہیں ہے |
Surah 4 : Ayat 95
لَّا يَسْتَوِى ٱلْقَـٰعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِى ٱلضَّرَرِ وَٱلْمُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٲلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْۚ فَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَـٰهِدِينَ بِأَمْوَٲلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى ٱلْقَـٰعِدِينَ دَرَجَةًۚ وَكُلاًّ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰۚ وَفَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَـٰهِدِينَ عَلَى ٱلْقَـٰعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اُس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے1
1 | یہاں اُن بیٹھنے والوں کا ذکر نہیں ہے جن کو جہاد پر جانے کا حکم دیا جائے اور وہ بہانے کر کے بیٹھ رہیں، یا نفیرِ عام ہو اور جہاد فرضِ عین ہو جائے پھر بھی وہ جنگ پر جانے سے جی چرائیں۔ بلکہ یہاں ذکر اُن بیٹھنے والوں کا ہے جو جہاد کے فرضِ کفایہ ہونے کی صورت میں میدانِ جنگ کی طرف جانے کے بجائے دوسرے کاموں میں لگے رہیں ۔ پہلی دو صورتوں میں جہاد کے لیے نہ نکلنے والا صرف منافق ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اللہ کی طرف سے کسی بھلائی کا وعدہ نہیں ہے اِلّا یہ کہ وہ کسی حقیقی معذوری کا شکار ہو۔ بخلاف اس کے یہ آخری صورت ایسی ہے جس میں اسلام جماعت کی پوری فوجی طاقت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ محض اس کا ایک حصہ مطلوب ہوتا ہے ۔ اس صورت میں اگر امام کی طرف سے اپیل کی جائے کہ کون سرباز ہیں جو فلاں مہم کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، تو جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں وہ افضل ہیں بہ نسبت اُن کے جو دوسرے کاموں میں لگے رہیں ، خواہ وہ دوسرے کام بھی بجائے خود مفید ہی ہوں |