Ayats Found (10)
Surah 14 : Ayat 19
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟ 1وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے
1 | یہ دلیل ہے اُس دعوے کی جو اوپر کیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اِس بات کو سُن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانۂ تخلیق حق پر قائم ہوا ہے نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز حقیقت اور واقعیت پر مبنی نہ ہو، بلکہ ایک بے اصل قیاس و گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو ، اُسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی۔ اُس کے لیے قرار ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اُس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اُس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی یہ اُمید کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اور ریت کی حقیقت نہیں کہ وہ عمارتوں کے لیے مضبوط بنیاد بن سکے۔ لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اُسے ناکام ہونا ہی چاہیے۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سُن کر تمہیں حیرت کس لیے ہوتی ہے کہ خدا کی اِس کائنات میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اَور کی خدائی مان کر (جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے) زندگی بسر کرے گا ، اس کا پورا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختا ر ہو یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو ، تو اس جھوٹ پر ، اس خلاف ِ واقعہ مفروضہ پر، اپنے پورے نظامِ فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تواُ س کے لیے اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو؟ |
Surah 14 : Ayat 32
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٲتِ رِزْقًا لَّكُمْۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلْفُلْكَ لِتَجْرِىَ فِى ٱلْبَحْرِ بِأَمْرِهِۦۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلْأَنْهَـٰرَ
اللہ وہی تو ہے1 جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اُس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا2
1 | یعنی وہ اللہ جس کی نعمت کا کفران کیا جا رہا ہے، جس کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا جارہا ہے، جس کے ساتھ زبردستی کے شریک ٹھہرائے جا رہے ہیں ، وہ وہی تو ہے جس کے یہ اور یہ احسانات ہیں |
Surah 16 : Ayat 3
خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۚ تَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اُس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں1
1 | دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں، اسی کی شہادت زمین وآسمان کا پورا کارخانۂ تخلیق دے رہا ہے۔ یہ کارخانۂ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے، بلکہ ایک سراسر مبنی برحقیقت نظام ہے۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اُٹھا کر دیکھ لو، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہینِ منت ہے۔ پھرجب یہ ٹھوس حقیقت پربنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اِس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آثارِ کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔ |
Surah 30 : Ayat 8
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُواْ فِىٓ أَنفُسِهِمۗ مَّا خَلَقَ ٱللَّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ إِلَّا بِٱلْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّىۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ بِلِقَآىِٕ رَبِّهِمْ لَكَـٰفِرُونَ
کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟1 اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرّر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے2 مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں3
3 | یعنی اس بات کے منکرکہ انہیں مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے حاضر ہوناہے۔ |
2 | اس فقرے میں آخرت کی دو مزید دلیلیں دی گئی ہیں۔اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے وجود سے باہر کے نظامِ کائنات کو بنظرِ غور دیکھے تو اسے دو حقیقتیں نمایاں نظر آئیں گی: ایک یہ کہ یہ کائنات برحق بنائی گئی ہے۔یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بے ڈھنگا سا گھروندا بنالیا ہو جس کی تعمیراور تخریب دونوں ہی بے معنی ہوں۔بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے،جس کا ایک ایک ذرہ اس بات پرگواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیاہے،جس کی ہر چیز میں ایک قانون کارفرما ہے،جس کی ہر شے بامقصد ہے۔انسان کا ساراتمدّن اور اس کی پوری معیشت اوراس کے تمام علوم وفنون خود اس بات پرگواہ ہیں۔دینا کی ہرچیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کرکےاور ہرشے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہےاسے تلاش کرکے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیرکرسکا ہے۔ورنہ ایک بے ضابطہ اور بے مقصد کھلونے میں اگر ایک پُتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہوتا تو کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدن کا تصور تک نہ کیا جا سکتا تھا۔اب آخریہ بات تمہاری عقل میں کیسے سماتی ہے کہ جس حکیم نے اِس حکمت اور مقصدیت کے ساتھ یہ دینا بنائی ہے اور اس کے اندر تم جیسی ایک مخلوق کو اعلٰی درجہ کی ذہنی و جسمانی طاقتیں دے کر،اختیارات دے کر،آزادئی انتخاب دے کر،اخلاق کی حِس دے کراپنی دینا کا بےشمار سروسامان تمہارے حوالہ کیا ہے،اس نے تمہیں بے مقصد ہی پیدا کردیا ہو گا؟ تم دنیا میں تعمیروتخریب،اور نیکی و بدی،اور ظلم و عدل،اور راستی و ناراستی کے سارے ہنگامے پربا کرنے کے بعد پس یونہی مرکرمٹی میں مل جاؤ گے اور تمہارے کسی اچھے یا بُرے کام کا کوئی نتیجہ نہ ہو گا؟ تم اپنے ایک ایک عمل سے اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی پراور دنیا کی بے شمار اشیاء پربہت سے مفید یا مضراثرات ڈال کرچلے جاؤ گے اورتمہارے مرتے ہی یہ سارادفترِعمل بس یونہی لپیٹ کردریا بُرد کردیاجائے گا؟ دوسری حقیقت جو اس کائنات کے نظام کا مطالعہ کرنے سے صاف نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کسی چیز کے لیے بھی ہمیشگی نہیں ہے۔ہرچیز کے لیے ایک عمر مقرر ہے جسے پہنچنے کے بعد وہ ختم ہو جاتی ہے۔اور یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا بھی ہے۔یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں۔ایک وقت تک ہی وہ کام کررہی ہیں،اور کسی وقت پرانہیں لامحالہ خرچ ہوجانا اوراس نظام کو ختم ہو جانا ہے۔قدیم زمانے میں تو علم کی کمی کے باعث اُن فلسفیوں اور سائنسدانوں کی بات کچھ چل بھی جاتی تھی جو دنیا کوازلی و ابدی قرار دیتے تھے۔مگر موجودہ سائنس نے عالم کے حدوث و قدم کی اُس بحث میں، جو ایک مّدتِ دراز سے دہریوں اور خدا پرستوں کے درمیان چلی آرہی تھی،قریب قریب حتمی طور پراپناووٹ خداپرستوں کے حق میں ڈال دیا ہے،اب دہریوں کے لیے عقل اور حکمت کا نام لے کریہ دعوٰی کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہیمشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہ آئے گی۔پرانی مادہ پرستی کا ساراانحصار اس تخیل پر تھاکہ مادہ فنا نہیں ہو سکتا،صرف صورت بدلی جا سکتی ہے،مگرہرتغیرکے بعد مادّہ ہی رہتا ہے اوراس کی مقدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی۔اس بناپریہ نتیجہ نکالا جاتا تھا کہ اس عالَمِ مادّی کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔لیکن اب جوہری توانائی (Atomic Energy)کے انکشاف نے اس پورے تخیل کی بساط اُلٹ کررکھ دی ہے۔اب یہ بات کھل گئی ہے کہ قوّت مادّے میں تبدیل ہوتی ہے اور مادّہ پھرقوت میں تبدیل ہوجاتا ہے حتٰی کی نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولی۔اب حَرکیاتِ حرارت کے دوسرے قانون(Second Law of Thermo-Dynemics)نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ عالم مادّی نہ ازلی ہوسکتاہے نہ ابدی۔اس کو لازماً ایک وقت شروع اور ایک وقت ختم ہونا ہی چاہیے۔اس لیے سائنس کی بنیاد پراب قیامت کا انکار ممکن نہیں رہا ہے۔اور ظاہر بات ہے کہ جب سائنس ہتھیار ڈال دے تو فلسفہ کنِ ٹانگوں پراُٹھ کر قیامت کاانکار کرے گا؟ |
1 | یہ آخرت پر بجائے خود ایک مستقل استدلال ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ باہر کسی طرف نگاہ دوڑانے سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرتے تو انہیں اپنے اندر ہی وہ دلائل مل جاتے جو موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں۔ انسان کی تین امتیازی خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو زمین کی دوسری موجودات سے ممیز کرتی ہیں: ایک یہ کہ زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات اس کو بخش دیے گئے ہیں۔دوسرے یہ کہ اِسے اپنی راہِ زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ایمان اورکفر،طاعت اور معصیت،نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پربھی جانا چاہے جا سکتا ہے۔حق اور باطل، صحیح اورغلط،جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ ہرراستے پرچلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پرچلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کرسکتا ہے،خواہ وہ خدا کی اطاعت کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔تیسرے یہ کہ اس میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حِس رکھ دی گئی ہے جس کی بنا پروہ اختیاری اعمال اور غیر اختیاری اعمال میں فرق کرتاہے،اختیاری اعمال پرنیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے،اور بداہتہً یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اوربُرا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔یہ تینوں خصوصیتیں جو انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے محاسبہ کیا جائے۔جب اس سے پوچھا جائے کہ جو کچھ دنیا میں اس کو دیا گیا تھا اس پرتصرف کے اختیارات کو اس نے کس طرح استعمال کیا؟ جب یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آزادی انتخاب کو استعمال کرکے صحیح راستہ اختیار کیا یا غلط؟ جب اس کے اختیاری اعمال کی جانچ کی جائے اور نیک عمل پرجزا اور برے عمل پر سزا دی جائے۔یہ وقت لامحالہ انسان کا کارنامہ زندگی ختم اوراس کا دفترِعمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتاہے نہ کہ اس سے پہلے۔اور یہ وقت لازماً اسی وقت آنا چاہیے جب کہ ایک فرد یا ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا دفترِعمل بند ہو۔کیونکہ ایک فرد یا قوم کے مر جانے پراُن اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دینا میں چھوڑے ہیں۔اُس کے چھوڑے ہوئے اچھے یا بُرے اثرات بھی تواس کے حساب میں شمار ہونے چاہییں۔یہ اثرات جب تک مکمل طور پرظاہر نہ ہو لیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزایا سزا دینا کیسے ممکن ہے؟ اس طرح انسان کا اپنا وجود اس بات کی شہادت دیتا ہے،اورزمین میں انسان کو جو حثییت حاصل ہے وہ آپ سے آپ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ دینا کی موجودہ زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ایسی ہو جس میں عدالت قائم ہو،انصاف کے ساتھ انسان کے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے،اور ہر شخص کو اس کے کام کے لحاظ سے جزا دی جائے۔ |
Surah 16 : Ayat 3
خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۚ تَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اُس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں1
1 | دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں، اسی کی شہادت زمین وآسمان کا پورا کارخانۂ تخلیق دے رہا ہے۔ یہ کارخانۂ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے، بلکہ ایک سراسر مبنی برحقیقت نظام ہے۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اُٹھا کر دیکھ لو، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہینِ منت ہے۔ پھرجب یہ ٹھوس حقیقت پربنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اِس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آثارِ کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔ |
Surah 45 : Ayat 22
وَخَلَقَ ٱللَّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسِۭ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے1 اور اس لیے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اُس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے لوگوں پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا2
2 | اس سیاق و سباق میں اس فقرے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر نیک انسانوں کو ان کی نیکی کا اجر نہ ملے، اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا نہ دی جاۓ، اور مظلوموں کی کبھی داد رسی نہ ہو تو یہ ظلم ہو گا۔ خدا کی خدائی میں ایسا ظلم ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح خدا کے ہاں ظلم کی یہ دوسری صورت بھی کبھی رونما نہیں ہو سکتی کہ کسی نیک انسان کو اس کے استحقاق سے کم اجر دیا جاۓ، یا کسی بد انسان کو اس کے استحقاق سے زیادہ سزا دے دی جاۓ |
1 | یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی تخلیق کھیل کے طور پر نہیں کی ہے بلکہ یہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام ہے۔ اس نظام میں یہ بات بالکل ناقابل تصور ہے کہ اللہ کے دی ہوۓ اختیارات اور ذرائع و وسائل کو صحیح طریقہ سے استعمال کر کے جن لوگوں نے اچھا کارنامہ انجام دیا ہو، اور انہیں غلط طریقے سے استعمال کر کے جن دوسرے لوگوں نے ظلم و فساد برپا کیا ہو، یہ دونوں قسم کے انسان آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور اس موت کے بعد کائنات ایک کھلنڈرے کا کھلونا ہو گی نہ کہ ایک حکیم کا بنایا ہوا با مقصد نظام (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص 551۔ جلد دوم، ص 264۔ 265۔ 479۔ 480۔ 525۔ 526۔ جلد سوم، ص 703۔ 733) |
Surah 46 : Ayat 3
مَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ إِلَّا بِٱلْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّىۚ وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ عَمَّآ أُنذِرُواْ مُعْرِضُونَ
ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے1 مگر یہ کافر لوگ اُس حقیقت سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے2
2 | یعنی واقعی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نظام کائنات ایک بے مقصد کھلونا نہیں بلکہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام نظام ہے جس میں لازماً نیک و بد اور ظالم و مظلوم کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہونا ہے، اور کائنات کا موجودہ نظام دائمی و ابدی نہیں ہے بلکہ اسکی ایک خاص عمر مقرر ہے جس کے خاتمے پر اسے لازماً درہم برہم ہو جانا ہے، اور خدا کی عدالت کے لیے بھی ایک وقت طے شدہ ہے جس کے آنے پر وہ ضرور قائم ہونی ہے، لیکن جن لوگوں نے خدا کے رسول اور اس کی کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ ان حقائق سے منہ موڑے ہوۓ ہیں۔ انہیں اس بات کی کچھ فکر نہیں ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب انہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان حقیقتوں سے خبردار کر کے خدا کے رسول نے ان کے ساتھ کوئی بُرائ کی ہے، حالانکہ یہ ان کے ساتھ بہت بڑی بھلائی ہے کہ اس نے محاسبے اور باز پرس کا وقت آنے سے پلے ان کو نہ صرف یہ بتا دیا کہ وہ وقت آنے والا ہے،بلکہ بھی ساتھ ساتھ بتا دیا کہ اس وقت ان سے کن امور کی باز پرس ہو گی تاکہ وہ اس کے لیے تیاری کر سکیں۔ آگے کی تقریر سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ انسان کی سب سے بڑی بنیادی غلطی وہ ہے جو وہ خدا کے متعلق اپنے عقیدے کے تعین میں کرتا ہے۔ اس معاملہ میں سہل انگاری سے کام لے کر کسی گہرے اور سنجیدہ فکر و تحقیق کے بغیر ایک سر سری یا سُنا سنایا عقیدہ بنا لینا ایسی عظیم حماقت ہے جو دنیا کی زندگی میں انسان کے پورے رویے کو، اور ابدلآباد تک کے لیے اس کے انجام کو خراب کر کے رکھ دیتی ہے۔ لیکن جس وجہ سے آدمی اس خطر ناک سہل انگاری میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھ لیتا ہے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ خدا کے بارے میں جو عقیدہ بھی میں اختیار کر لوں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ یا تو مرنے کے بعد سرے سے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں مجھے کسی باز پرس سے سابقہ پیش آۓ، یا اگر ایسی کوئی زندگی ہو اور وہاں باز پرس بھی ہو تو جن ہستیوں کا دامن میں نے تھام رکھا ہے وہ مجھے انجام بد سے بچا لیں گی۔ یہی احساس ذمہ داری کا فقدان آدمی کو مذہبی عقیدے دے انتخاب میں غیر سنجیدہ بنا دیتا ہے اور اسی بنا پر وہ بڑی بے فکری کے ساتھ دہریت سے لے کر شرک کی انتہائی نا معقول صورتوں تک طرح طرح کے لغو عقیدے خود گھڑتا ہے یا دوسروں کے گھڑے ہوۓ عقیدے قبول کر لیتا ہے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،ص 551۔ جلد دوم، ص 264۔ 265۔ 479۔516۔ 525،جلد سوم،ص 151۔ 152۔ 303۔703۔733۔ 734، جلد چہارم، تفسیر سورہ لقمان، حاشیہ 51۔ الدخان، حاشیہ 34۔ الجاثیہ، حاشیہ 28 |
Surah 45 : Ayat 3
إِنَّ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ لَأَيَـٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَ
حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے1
1 | تمہید کے بعد اصل تقریر کا آغاز اس طرح کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پس منظر میں اہل مکہ کے وہ اعتراضات ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش کردہ تعلیم پر کر رہے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آخر محض ایک شخص کے کہنے سے ہم اتنی بڑی بات کیسے مان لیں کہ جن بزرگ ہستیوں کے آستانوں سے آج تک ہماری عقیدتیں وابستہ رہی ہیں وہ سب ہیچ ہیں اور خدائی بس ایک خدا کی ہے۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ جس حقیقت کو ماننے کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے اس کی سچائی کے نشانات سے تو سارا عالم بھر پڑا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ تمہارے اندر اور تمہارے باہر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ساری کائنات ایک خدا اور ایک ہی خدا کی تخلیق ہے اور وہی اکیلا اس کا مالک، حاکم اور مدبر ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ آسمان و زمین میں نشانیاں کس چیز کی ہیں۔ اس لیے کہ سارا جھگڑا ہی اس وقت اس بات پر چل رہا تھا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں اور معبودوں کو بھی ماننے پر اصرار کر رہے تھے، اور قرآن کی دعوت یہ تھی کہ ایک خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے نہ معبود۔ لہٰذا بے کہے یہ بات آپ ہی آپ موقع و محل سے ظاہر ہو رہی تھی کہ نشانیوں سے مراد توحید کی صداقت اور شرک کے بطلان کی نشانیاں ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا کہ’’ یہ نشانیاں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بجاۓ خود تو یہ نشانیاں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں، لیکن انہیں دیکھ کر صحیح نتیجے پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو ایمان لانے کے لیے تیار ہوں غفلت میں پڑے ہوۓ لوگ، جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں، اور ہٹ دھرم لوگ، جو نہ ماننے کا تہیہ کے بیٹھے ہیں، ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے۔ چمن کی رونق اور اس کا حسن و جمال تو آنکھوں والے کے لیے ہے۔ اندھا کسی رونق اور کسی حسن و جمال کا ادراک نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے چمن کا وجود ہی بے معنی ہے |
Surah 51 : Ayat 20
وَفِى ٱلْأَرْضِ ءَايَـٰتٌ لِّلْمُوقِنِينَ
زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے1
1 | نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو آخرت کے امکان اور اس کے وجوب و لزوم کی شہادت دے رہی ہیں۔ زمین کا اپنا وجود اور اس کی ساخت، اس کا سورج سے ایک خاص فاصلے پر اور ایک خاص زاویے پر رکھا جانا، اس پر حرارت اور روشنی کا انتظام، اس پر مختلف موسموں کی آمد و رفت، اس کے اوپر ہوا اور پانی کی فراہمی، اس کے پیٹ میں طرح طرح کے بے شمار خزانوں کا مہیا کیا جانا، اس کی سطح پر ایک زر خیز چھلکا چڑھایا جانا، اس میں قسم قسم کی بے حد و حساب نباتات کا اگایا جانا، اس کے اندر خشکی اور تری اور ہوا کے جانوروں کی بے شمار نسلیں جاری کرنا، اس میں ہر نوع کی زندگی کے لیے مناسب حالات اور موزوں خوراک کا انتظام کرنا، اس پر انسان کو وجود میں لانے سے پہلے وہ تمام ذرائع و وسائل فراہم کر دینا جو تاریخ کے ہر مرحلے میں اس کی روز افزوں ضروریات ہی کا نہیں بلکہ اس کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا ساتھ بھی دیتے چلے جائیں، یہ اور دوسری ان گنت نشانیاں ایسی ہیں کہ دیدۂ بینا رکھنے والا جس طرف بھی زمین اور اس کے ماحول میں نگاہ ڈالے وہ اس کا دامن دل کھینچ لیتی ہیں۔ جو شخص یقین کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہو اس کی بات تو دوسری ہے۔ وہ ان میں اور سب کچھ دیکھ لے گا، بس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی ہی نہ دیکھے گا۔ مگر جس کا دل تعصب سے پاک اور سچائی کے لیے کھلا ہوا ہے وہ ان چیزوں کو دیکھ کر ہر گز یہ تصور قائم نہ کرے گا کہ یہ سب کچھ کسی اتفاقی دھماکے کا نتیجہ ہے جو کئی ارب سال پہلے کائنات میں اچانک برپا ہوا تھا، بلکہ اسے یقین آ جاۓ گا کہ یہ کمال درجے کی حکیمانہ صنعت ضرور ایک قادر مطلق اور دانا و بینا خدا کی تخلیق ہے، اور وہ خدا جس نے یہ زمین بنائی ہے نہ اس بات سے عاجز ہو سکتا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے، اور نہ ایسا نادان ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین میں عقل و شعور رکھنے والی ایک مخلوق کو اختیارات دے کر بے نتھے بیل کی طرح چھوڑ دے۔ اختیارات کا دیا جانا آپ سے آپ محاسبے کا تقاضا کرتا ہے، جو اگر نہ ہو تو حکمت اور انصاف کے خلاف ہو گا۔ اور قدرت مطلقہ کا پایا جانا خود بخود اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کا کام ختم ہونے کے بعد اس کا خالق جب چاہے محاسبے کے لیے اس کے تمام افراد کو زمین کے ہر گوشے سے، جہاں بھی وہ مرے پڑے ہوں، اٹھا کر لا سکتا ہے |
Surah 51 : Ayat 48
وَٱلْأَرْضَ فَرَشْنَـٰهَا فَنِعْمَ ٱلْمَـٰهِدُونَ
زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں1
1 | اس کی تشریح حاشیہ 18 میں گزر چکی ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حاشیہ 74۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ یٰس،حاشیہ 29۔ الزخْرف، حواشی 7 تا 10 |