Ayats Found (2)
Surah 8 : Ayat 58
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَٱنۢبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَآءٍۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْخَآئِنِينَ
اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو1، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا
1 | اس آیت کے رو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرزِ عمل سے یہ شکایت لاحق ہو جائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کو تا ہی برت رہا ہے ، یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی مارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کر لیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کردیں جو معاہدہ نہ ہونے کہ صورت ہی میں کیا جاسکتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا، تا کہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہو جائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے۔ اسی فرمان الہٰی کے مطابق بنی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عقدہ حتی ینقضی امدھا او ینبذ الیھم عل سواء۔”جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے۔ یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے “۔ پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیزادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ لا تخن من خانک”جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سےخیانت نہ کر“۔ اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقہ پر حملہ کر دیا جائے تو ان کی اس کاروائی پر عمروبن عَنبَسَہ صحابی ؓ نے سخت احتجاج کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدہ کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا غداری ہے۔ آخر کار امیر معاویہ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا۔ یک طرفہ فسخِ معاہدہ اور اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دینے کا طریقہ قدیم جاہلیت میں بھی تھا اور زمانہ حال کی مہذب جاہلیت میں بھی اس کا رواج موجود ہے۔ چنانچہ اس کی تازہ ترین مثالین جنگ عظیم نمبر ۲ میں روس پر جرمنی کے حملے اور ایران کے خلاف روس و بر طانیہ کی فوجی کاروائی میں دیکھی گئی ہیں۔ عمو ماً اس کاروائی کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حملہ سے پہلے مطلع کر دینے سے دوسرا فریق ہوشیار ہو جاتا اور سخت مقابلہ کرتا، یا اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو ہمارا دشمن فائدہ اٹھا لیتا لیکن اس قسم کے بہانے اگر اخلاقی ذمہ داریوں کو ساقط کر دینے کے لیے کافی ہوں تو پھر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی بہانے نہ کیا جا سکتا ہو۔ ہر چور، ہر ڈاکو، ہر زانی، ہر قاتل، ہر جعلساز اپنے جرائم کے لیے ایسی ہی کوئی مصلحت بیان کر سکتا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ بین الاقوامی سوسائٹی میں قوموں کے لیے اُن بہت سے افعال کو جائز سمجھتے ہیں جو خود ان کی نگاہ حرام ہیں جب کہ ان کا ارتکاب قومی سو سائٹی میں افراد کی جانب سے ہو۔ اس موقع پر جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اطلاع حملہ کرنے کو جائز رکھتا ہے، اور وہ صورت یہ ہے کہ فریق ثانی علی العلان معاہدہ کو توڑ چکا ہو اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کارردائی کی ہو۔ ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں رہتا کہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق فسخ معاہدہ کا نوٹس دیں، بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی صلی اللہ علیہ عسلم کے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خُزاعہ کے معاملہ میں صلح حُدَیبیہ کو علانیہ توڑ دیا تو آپ نے پھر انہیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی، بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑہائی کر دی۔ لیکن اگر کسی موقع پر ہم اس قاعدہ استثناء سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو لازم ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کاروائی کی تھی، تا کہ پیروی ہو تو آپ کے پورے طرز عمل کہ ہو نہ کہ اس کے کسی ایک مفید مطلب جزء کی۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ: اولاً، قریش کی خلاف ورزی عہد ایسی صریح تھی کہ اس کے نقض عہد ہونے میں کسی کلام کا موقع نہ تھا۔خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ واقعی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ انہوں نے خود ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا تھا جس کے صاف معنی یہی تھے کہ اُن کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا۔ تا ہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ناقضِ عہد قوم کو خود بھی اپنے نقضِ عہد کا اعتراف ہو۔ البتہ یہ یقیناً ضروری ہے کہ نقضِ عہد بالکل صریح اور غیر مشتبہ ہو۔ ثانیاً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صرا حتہً یا اشارةً دکنا یہ یتہً ایسی کوئی بات نہیں کی کہ جس سے یہ ایماء نکلتا ہو کہ اس بد عہدی کے باوجود آپ ابھی تک اُن کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابو سفیان نے مدینہ ا کر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔ ثالثاً، قریش کے خلاف جنگی کاروائی آپ نے خود کی اور کھلم کھلا کی۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپ کے طرز عمل نہیں پایا جاتا کہ آپ نے بظاہر صلح اور بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال فرمایا ہو۔ یہ اس معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے ، لہٰذا آیت مذکورہ بالا کے حکم عام سے ہٹ کر اگر کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے تو ایسے ہی مخصوص حالات میں کی جاسکتی ہے اور اسی سیدھے سیدھے شریفانہ طریقہ سے کی جا سکتی ہے جو حضور نے اختیار فرمایا تھا۔ مزید براں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملہ میں ہماری نزاع ہو جائے اور ہم دیکھیں کہ گفت وشنید یا بین الاقوامی ثالثی کے ذریعہ سے وہ نزاع طے نہیں ہوتی، یا یہ کہ فریق ثانی اس کو بزدر طے کرنے پر تُلا ہوا ہے، تو ہمارے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیے اور کھلم کھلا ہونا چاہیے۔ چوری چھپے ایسی جنگی کاروائیاں کرنا جن کا علانیہ اقرار کرنے کے لیے ہم تیار نہ ہوں، ایک بد اخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے |
Surah 8 : Ayat 59
وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ سَبَقُوٓاْۚ إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ
منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے