Ayats Found (5)
Surah 36 : Ayat 22
وَمَا لِىَ لَآ أَعْبُدُ ٱلَّذِى فَطَرَنِى وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
آخر کیوں نہ میں اُس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے1؟
1 | اس فقرے کے دو حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ استدلال کا شاہکار ہے، اور دوسرے حصے میں حکمتِ تبلیغ کا کمال دکھایا گیا ہے۔پہلے حصے میں وہ کہتا کہ خالق کی بندگی کرنا تو سراسر عقل و فطرت کا تقاضا ہے۔نا معقول بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آدمی ان کی بندگی کرے جنہوں نے اسے پیدا نہیں کیا ہے، نہ یہ کہ وہ اس کا بندہ بن کر رہے جس نے اسے پیداکیا ہے۔دوسرے حصّے میں وہ اپنی قوم کے لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مرنا آخر تم کو بھی ہے،اور اسی خدا کی طرف جانا ہے جس کی بندگی اختیار کرنے پر تمھیں اعتراض ہے۔اب تم خود سوچ لو کہ اس سے منہ موڑ کر تم کس بھلائی کی توقع کر سکتے ہو۔ |
Surah 82 : Ayat 6
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْإِنسَـٰنُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ ٱلْكَرِيمِ
اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اُس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا
Surah 82 : Ayat 9
كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِٱلدِّينِ
ہرگز نہیں1، بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو2
2 | یعنی دراصل جس چیز نے تم لوگوں کو دھوکے میں ڈالا ہے وہ کوئی معقول دلیل نہیں ہےبلکہ محض تمہارا یہ احمقانہ خیال ہے کہ دنیا کے اس دارالعمل کے پیچھے کوئی دارالجز نہیں ہے۔ اسی غلط اور بے بنیاد گمان نے تمہیں خدا سے غافل، اس کے انصاف سے بے خوف، اور اپنے اخلاقی رویے میں غیر ذمہ دار بنا دیا ہے |
1 | یعنی کوئی معقول وجہ اس دھوکے میں پڑنے کی نہیں ہے۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا ہے تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بنایا ہے عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں ہو گیا ہے، بلکہ ایک خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل انسانی شکل میں ترتیب دیا ہے۔ تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں جن کے مقابلے میں تیری بہترین ساخت اور تیری افضل و اشرف قوتیں صاف نمایاں ہیں۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو د یکھ کر تیرا سر بار احسان سے جھک جاتا اور اس رب کریم کے مقابلے میں توکبھی نافرمانی کی جرات نہ کرتا۔ تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب صرف رحیم و کریم ہی نہیں ہے، جبار و قہار بھی ہے۔ جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفان یا سیلاب آ جاتا ہے تو تیری ساری تدبیریں اس کے مقابلہ میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں بلکہ حکیم و دانا ہے، اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جائے۔ جسے اختیارات دیے جائیں اس سے حساب بھی لیا جائے کہ اس نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا، اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا ا ور بدی پر سزا بھی دی جائے۔ یہ سب حقیقتیں تیرے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں اس لیے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ ا پنے رب کریم کی طرف سے جس دھوکے میں تو پڑ گیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے۔ تو خود جب کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائےاس لیے تیری اپنی فطرت یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہر گز اس کا موجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے مقابلے میں جری ہو جائے اور اس غلط فہمی میں پڑ جائے کہ میں جو کچھ چاہوں کروں، میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا |
Surah 106 : Ayat 1
لِإِيلَـٰفِ قُرَيْشٍ
چونکہ قریش مانوس ہوئے1
1 | اصل الفاظ ہیں ’’ لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ۔ ‘‘۔ ’’ اِیْلاف۔ ‘‘ الف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے ، مانوس ہونے، پھٹنے کے بعد مل جانے، اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں۔ اردو زبان میں الفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔ ایلاف سے پہلے جو لام آیا ہے اس کے متعلق عربی زبان کے بعض ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطاق تعجب کے معنی میں ہے۔ مثلاً عرب کہتے کہ ’’ لِزَیْدٍ وَّمَا صَنَعْنَا بِہٖ ۔ ‘‘، یعنی ذرا اس زید کو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔پس ’’ لِاِیْلٰفِ قُریْشٍ۔ ‘‘کا مطلب یہ ہےکہ قریش کا رویہ بڑا ہی قابل تعجب ہے کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعد جمع ہوئے اور ان تجارتی سفروں کے خوگر ہو گئے جو ان کی خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، اور وہ اللہ ہی کی بندگی سے رو گردانی کر رہے ہیں۔ یہ رائے اخفش، کسائی اور فراء کی ہے، اور اس رائے کو ابن جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب جب اس لام کے بعد کسی بات کا ذ کر کرتے ہیں تو وہی بات بات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے کہ اس کے ہوتے جو شخص کوئی رویہ اختیار کر رہا ہے وہ قابل تعجب ہے۔ بخلاف اس کے خلیل بن احمد سیبویہ اور زمخشری کہتے ہیں کہ یہ لام تعلیل ہے اور اس کا تعلق آگے کے فقرے فَلْیَعْبُدُ وْ ا رَبَّ ھٰذَ ا الْبَیْتِ ۔ ‘‘سے ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں قریش پر اللہ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں، لیکن اگرکسی اور نعمت کی بنا پر نہیں تو اسی ایک نعمت کی بنا پر وہ اللہ کی بندگی کریں کہ اس کے فضل سے وہ ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوئے، کیونکہ یہ بجائے خود ان پر اس کا بہت بڑا احسان ہے |
Surah 106 : Ayat 4
ٱلَّذِىٓ أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَءَامَنَهُم مِّنْ خَوْفِۭ
جس نے اُنہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا1 اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا2
2 | یعنی جس خوف سے عرب کی سر زمین میں کوئی محفوظ نہیں ہے اس سے یہ محفوظ ہیں، عرب کا حال اس دور میں یہ تھا کہ پورے ملک میں کوئی بستی ایسی نہ تھی جس کے لوگ راتوں کو چین سے سو سکتے ہوں، کیونکہ ہر وقت ان کو یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم کب کوئی غارت گر گروہ اچانک اس پر چھاپا مار دے۔ کوئی شخص ایسا ن ہ تھا جو اپنے قبیلے کے حدود سے باہر قدم رکھنے کی ہمت کر سکے، کیونکہ اکا دکا آدمی کا زندہ بچ کر واپس آ جانا، یا گرفتار ہو کر غلام بن جانے سے محفوظ رہنا گویا امر محال تھا۔ کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کر سکے، کیونکہ راستے میں جگہ جگہ اس پر ڈاکہ پڑنے کا خطرہ تھا، اور راستے بھر کے با اثر قبائلی سرداروں کو رشوتیں دے کر تجارتی قافلے بخریت گزر سکتے تھے۔ لیکن قریش مکہ میں بالکل محفوظ تھے، انہیں کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہ تھا۔ ان کے چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے قافلے ملک کے ہر حصے میں آتے جاتے تھے، کوئی یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ قافلہ خرم کے خادموں کا ہے، انہیں چھیڑنے کی جرات نہ کر سکتا تھا۔ حد یہ ہے کہ اکیلا قریشی میں اگر کہیں سے گزر رہا ہو اور کوئی اس سے تعرض کرے تو صرف لفظ ’’حرمی‘‘ یا اَنَا مِنْ حَرَمِ اللہِ ۔ ‘‘کہہ دینا کافی ہو جاتا تھا، یہ سنتے ہی اٹھے ہوئے ہاتھ رک جاتے تھے |
1 | یہ اشارہ ہے اس طرف کہ مکے میں آ نے سے پہلے جب قریش عرب میں منتشر تھے تو بھوکوں مر رہے تھے، یہاں آنے کے بعد ان کے لیے رزق کے دروازے کھلتے چلے گئے اور ا ن کے حق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا حرف بحرف پوری ہوئی کہ اے پروردگار ، میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا ہے تاکہ یہ نماز قائم کریں، پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے (ابراہیم آیت 37) |