Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 191
وَٱقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْۚ وَٱلْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ ٱلْقَتْلِۚ وَلَا تُقَـٰتِلُوهُمْ عِندَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِيهِۖ فَإِن قَـٰتَلُوكُمْ فَٱقْتُلُوهُمْۗ كَذَٲلِكَ جَزَآءُ ٱلْكَـٰفِرِينَ
ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا اُن سے مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے1 اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں، تم بھی نہ لڑو، مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چُوکیں، تو تم بھی بے تکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے
1 | یہاں فتنے کا لفظ اُسی معنی میں استعمال ہوا ہے ، جس میں انگریزی کا لفظ ( Persecution ) استعمال ہوتا ہے، یعنی کسی گروہ یا شخص کو محض اس بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بنانا کہ اس نے رائج الوقت خیالات و نظریات کی جگہ کچھ دُوسرے خیالات و نظریات کو حق پا کر قبول کر لیاہے اور وہ تنقید و تبلیغ کے ذریعے سے سوسائٹی کے موجود الوقت نظام میں اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ بلا شبہہ انسانی خون بہانا بہت بُرا فعل ہے ، لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی اپنا فکری استبداد دُوسروں پر مسلّط کرے اور لوگگوں کو قبولِ حق سے بجبر روکے اور اصلاح و تغیر کی جائز و معقول کوششوں کا مقابلہ دلائل سے کرنے کے بجائے حیوانی طاقت سے کرنے لگے ، تو وہ قتل کی بہ نسبت زیادہ سخت بُرائی کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے گروہ کو بزورِ شمشیر ہٹا دینا بالکل جائز ہے |
Surah 2 : Ayat 195
وَأَنفِقُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى ٱلتَّهْلُكَةِۛ وَأَحْسِنُوٓاْۛ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو1 احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے2
2 | احسان کا لفظ حُسن سے نِکلا ہے، جس کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں۔ عمل کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی کے سپرد جو خدمت ہو، اُسے بس کردے۔ اور دُوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے خوبی کے ساتھ کرے، اپنی پُوری قابلیت اور اپنے تمام وسائل اس میں صرف کر دے اور دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرے۔ پہلا درجہ محض طاعت کا درجہ ہے، جس کے لیے صرف تقویٰ اور خوف کافی ہو جاتا ہے۔ اور دُوسرا درجہ احسان کا درجہ ہے، جس کے لیے محبت اور گہرا قلبی لگا ؤ درکار ہوتا ہے |
1 | اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مُراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گےا ور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے، تو یہ تمہارے لیے دُنیا میں بھی موجب ِ ہلاکت ہو گا اور آخرت میں بھی۔ دُنیا میں تم کفّار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت بار پرس ہو گی |
Surah 8 : Ayat 39
وَقَـٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ كُلُّهُۥ لِلَّهِۚ فَإِنِ ٱنتَهَوْاْ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے1 پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے
1 | یہاں پھر مسلمانوں کی جنگ کے اُسے ایک مقصد کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے سورة بقر آیت ١۹۳ میں بیان کیا گیا تھا۔ اس مقصد کا سلبی جزے یہ ہے کہ فتنہ باقی رہ رہے، اور ابجابی جزء یہ کہ دین بالکل اللہ کے لیے ہو جائے بس یہی ایک اخلاقی مقصد ایسا ہے جس کے لیے لڑنا اہل ایمان کے لیے جائز بلکہ فرض ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے مقصد کی لڑائی جائزنہیں ہے اور نہ اہل ایمان کو زیبا ہے کہ اُس میں کسی طرح حصہ لیں ۔(تشریح کے یے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حواشی ۲۰۴و ۲۰۵) |
Surah 8 : Ayat 40
وَإِن تَوَلَّوْاْ فَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَوْلَـٰكُمْۚ نِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ
اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مدد گار ہے