Ayats Found (6)
Surah 8 : Ayat 56
ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِى كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ
(خصوصاً) ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے1
1 | یہاں خاص طور پر اشارہ ہے یہود کی طرف، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے انہی کے ساتھ حسن جوار اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوشگوار تعلقات قائم رہیں۔ نیز دینی حیثیت سے بھی آپ یہود کو مشرکین کی بہ نسبت اپنے قریب تر سمجھتے تھے اور ہر معاملہ میں مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب ہی کے طریقہ کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن اُن کے علماء اور مشائخ کو توحیدِ خالص اور اخلاق صالحہ کہ وہ تبلیغ اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر وہ تنقید اور اقامت دین حق کی وہ سعی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے تھے، ایک آن نہ بھاتی تھی اور ان کی پیہم کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔ اسی مقصد کے لیے وہ مدینہ کے منافق مسلمانوں سے ساز باز کرتے تھے۔اسی کے لیے وہ اَوس اور خَزرَج کے لوگوں میں ان پرانی عدادتوں کو بھڑکاتے تھے جوا سلام سے پہلے ان کے درمیان کشت و خون کی موجب ہوا کرتی تھیں۔اسی کے لیے قریش اور دوسرے مخالف ِ اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں اور یہ حرکات اُس معاہد ہ دوستی کے باوجود ہو رہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا ۔ جب جنگ بدر واقع ہوئی تو ابتدا میں ان کو توقع تھی کہ قریش کی پہلی ہی چوٹ اس تحریک کا خاتمہ کر دے گی۔ لیکن جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلا تو اُن کے سینوں کی آتشِ حسد اور زیادہ بھڑک اُٹھی ۔ انہوں نے اس اندیشہ سے کہ بدر کی فتح کہیں اسلام کی چاقت کو ایک مستقل ”خطرہ“ نہ بنا دےاپنی مخالفانہ کوششوں کو تیز تر کر دیا ۔ حتٰی کہ اُن کا ایک لیڈر کعب بن اشرف(جو قریش کی شکست سنتے ہی چیخ اُٹھا تھا کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے لیے اُس کی پیٹھ سے بہتر ہے) خود مکہ گیا اور وہاں سے اس نے ہیجان انگیز مرثیے کہہ کہہ کر قریش کو انتقام کا جوش دلا یا۔ اس پر بھی ان لوگوں نے بس نہ کی۔ یہودیوں کے قبیلہ بنی تَینُقاع نے معاہدہ حسنِ جوار کے خلاف ان مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حرکت پر ملامت کی تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ” یہ قریش نبا شد، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنا جانتے ہیں۔ ہمارے مقابلہ میں آؤ گے تب تمہیں پتہ چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں |
Surah 8 : Ayat 57
فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِى ٱلْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دُوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہو جائیں1 توقع ہے کہ کہ بد عہدوں کے اِس انجام سے وہ سبق لیں گے
1 | اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے ہمارا معاہدہ ہو اور پھر وہ اپنی معاہدانہ ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر ہمارے خلاف کسی جنگ میں حصہ لے، تو ہم بھی معاہدے کی اخلاقی ذمہ داریوں سے سُبک دوش ہو جائیں گے اور ہمیں حق ہوگا کہ اس سے جنگ کریں ۔ نیز اگر کسی قوم سے ہماری لڑائی ہو رہی ہو اور ہم دیکھیں کہ دشمن کے ساتھ ایک ایسی قوم کے افراد بھی شریک جنگ ہیں جس سے ہمارا معاہدہ ہے، تو ہم ان کو قتل کرنے اور ان سے دشمن کا سا معاملہ کرنے میں ہر گز کوئی تامل نہ کریں گے، کیونکہ انہوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی قوم کے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں رہنے دیا ہے کہ ان کی جان و مال کے معاملہ میں اس معاہدے کا احترام ملحوظ رکھا جائے جو ہمارے اور ان کی قوم کے درمیان ہے |
Surah 9 : Ayat 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
اعلان 1برات ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے
1 | جیسا کہ ہم سورہ کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں، یہ خطبہ رکوع ۵ کے آخر تک سہ۹ حج میں اُس وقت نازل ہوا تھا جب نبی ﷺ حضرت ابوبکرؓ کو حج کے لیے روانہ کر چکے تھے۔ ان کے پیچھے جب یہ نازل ہوا تو صحابہ کرام نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ اسے ابوبکر کو بھیج دیجیے تاکہ وہ حج میں اس کو سنا دیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ اس اہم معاملہ کا اعلان میری طرف سے میرے ہی گھر کے آدمی کو کرنا چاہیے۔ چناچہ آپ نے حضرت علیؓ کو اس خدمت پر مامور کیا، اور ساتھ ہی ہدایت فرمادی کہ حاجیوں کے مجمع عام میں اسے سنانے کے بعد حسب ذیل چار باتوں کا اعلان بھی کر دیں: (۱) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہو گا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کرے، (۲) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ (۳) بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے۔ (۴) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ باقی ہے، یعنی جو نقضِ عہد کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں، ان کے ساتھ مدتِ معاہدہ تک وفا کی جائے گی۔ اس مقام پر یہ جان لینا بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دوراسلامی کا پہلا حج سہ۸ھج میں قدیم طریقے پر ہوا، پھر سہ۹ھج میں یہ دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر، اس کے بعد تیسرا حج سہ۱۰ ھج میں خالص اسلامی پر ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجتہ الوداع کہتے ہیں۔ نبیﷺ پہلے دوسال حج کے لیے تشریف نہ لے کے گئے تیسرے سال جب بالکل شرک کا استیصال ہو گیا تب آپ نے حج ادا فرمایا۔ |
Surah 9 : Ayat 2
فَسِيحُواْ فِى ٱلْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى ٱللَّهِۙ وَأَنَّ ٱللَّهَ مُخْزِى ٱلْكَـٰفِرِينَ
پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو1 اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے
1 | یہ اعلان ۱۰ ذی الحجہ سن ۹ ھجری کو ہوا تھا۔ اس وقت ۱۰ ربیع الثانی سن ۱۰ ھجری تک چار مہینہ کی مہلت ان لوگوں کو دی گئی کہ اس دوران میں اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں۔ لڑنا ہو تو لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں ، ملک چھوڑنا ہو تو اپنی جائے پناہ تلاش کر لیں، اسلام قبول کرنا ہو تو سوچ سمجھ کر قبول کر لیں |
Surah 9 : Ayat 16
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُواْ وَلَمَّا يَعْلَمِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ جَـٰهَدُواْ مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُواْ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَا رَسُولِهِۦ وَلَا ٱلْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةًۚ وَٱللَّهُ خَبِيرُۢ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے (اس کی راہ میں) جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا1، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے
1 | خطاب ہے اُن نئے لوگوں سے جو قریب کے زمانہ میں اسلام لائے تھے۔ ان سے ارشاد ہورہا ہے کہ جب تک تم اس آزمائش سے گزر کر یہ ثابت نہ کر دو گے کہ واقعی تم خدا اور اس کے دین کو اپنی جان و مال اور اپنے بھائی بندوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہو، تم سچے مومن قرار نہیں دیے جا سکتے۔ اب تک تو ظاہر کے لحاظ سے تمہاری پوزیشن یہ ہے کہ اسلام چونکہ مومنین صادقین اور سابقین ِ اوّلین کی جانفشانیوں سے غالب آگیا اور ملک پر چھا گیا اس لیے تم مسلمان ہوگئے |
Surah 9 : Ayat 36
إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِى كِتَـٰبِ ٱللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُۚ فَلَا تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْۚ وَقَـٰتِلُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَـٰتِلُونَكُمْ كَآفَّةًۚ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ
حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے1، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو2 اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں3 اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے
3 | یعنی اگر مشرکین ان مہینوں میں بھی لڑنے سے باز نہ آئیں تو جس طرح وہ متفق ہو کر تم سے لڑتے ہیں تم بھی متفق ہو کر ان سے لڑو۔ سورۂ بقرہ آیت ۱۹۴ اِس آیت کی تفسیر کرتی ہے |
2 | یعنی جن مصالح کی بنا پر ان مہینوں میں جنگ کرنا حرام کیا گیا ہے ان کو ضائع نہ کرو اور ان ایام میں بد امنی پھیلا کر اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ چار حرام مہینوں سے مراد ہیں ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عُمرے کے لیے |
1 | یعنی جب سے اللہ نے چاند، سورج اورزمین کو خلق کیا ہے اسی وقت سے یہ حساب بھی چلا آرہا ہے کہ مہینے میں ایک ہی دفعہ چاند ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے اور اس حساب سے سال کے ۱۲ ہی مہینے بنتے ہیں۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ عرب کے لوگ نَسِی کی خاطر مہینوں کی تعداد ۱۳ یا ۱۴ بنالیتے تھے، تاکہ جس ماہِ حرام کو انہوں نے حلال کر لیا ہو اسے سال کی جنتری میں کھپا سکیں۔ اس مضمون کی تشریح آگے آتی ہے |