Ayats Found (1)
Surah 9 : Ayat 29
قَـٰتِلُواْ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ ٱلْحَقِّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ حَتَّىٰ يُعْطُواْ ٱلْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَـٰغِرُونَ
جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے1 اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے2 اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں3
3 | یعنی لڑائی کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور دینِ حق کے پیرو بن جائیں ، بلکہ اس کی غایت یہ ہےکہ ان کی خودمختاری و بالادستی ختم ہو جائے۔ وہ زمین میں حاکم اور صاحبِ امر بن کر نہ رہیں بلکہ زمین کے نظامِ زندگی کی باگیں اور فرمانروائی و امامت کے اختیارات متبعینِ دینِ حق کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ ان کے ماتحت تابع و مطیع بن کر رہیں۔ جزیہ بدل ہے اُس امان اور اس حفاظت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جائے گی۔ نیز وہ علامت ہے اس امر کی کہ یہ لوگ تابع امر بننے پر راضی ہیں۔ ”ہاتھ سے جزیہ دینے“ کا مفہوم سیدھی طرح مطیعانہ شان کےساتھ جزیہ ادا کرنا ہے۔ اور چھوٹے بن کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں بڑے وہ نہ ہوں بلکہ وہ اہلِ ایمان بڑے ہوں جو خلافتِ الہٰی کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ ابتداءً یہ حکم یہود و نصاریٰ کے متعلق دیا گیا تھا، لیکن آگے چل کر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے جزیہ لے کر انہیں ذمّی بنایا اور اس کے بعد صحابہ کرام نے بالانفاق بیرونِ عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کر دیا۔ یہ جزیہ وہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں اُنیسویں صدی عیسوی کے دَورِ مذلّت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اُس دَور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالاو برتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں، لیکن انہیں اس کا قطعًا کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار و فرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو گی ،فساد رونما ہوگا اور اہلِ ایمان کا فرض ہوگا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انہیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اُس آزادی کی قیمت ہے جو انہیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے ، اور اس قیمت کو اُس صالح نظامِ حکومت کے نظم و نسق پر صَرف ہونا چاہیے جو انہیں اِس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے ۔ اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بد قسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں |
2 | یعنی اُس شریعت کو اپنا قانونِ زندگی نہیں بناتے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ سے نازل کی ہے |
1 | ”اگرچہ اہلِ کتاب خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں لیکن فی الواقع نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر۔ خدا پر ایمان رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی بس اس بات کو مان لے کہ خدا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خدا کو الٰہِ واحد اور ربِّ واحد تسلیم کر ے اور اس کی ذات ، اس کی صفات، اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں نہ خود شریک بنے نہ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ لیکن نصاریٰ اور یہود دونوں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسا کہ بعد والی آیات میں بتصریح بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کا خدا کو ماننا بے معنی ہے اور اسے ہرگز ایمان باللہ نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح آخرت کو ماننے کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی یہ بات مان لے کہ ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے جائیں گے ، بلکہ اس کے ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ، اور کسی بزرگ سے منتسِب ہونا کام نہ آئے گا اور نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکے گا، خدا کی عدالت میں بے لاگ انصاف ہو گا اور آدمی کے ایمان و عمل کے سوا کسی چیز کا لحاظ نہ رکھا جائے گا۔ اس عقیدے کے بغیر آخرت کو ماننا لا حاصل ہے ۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اسی پہلو سے اپنے عقیدے کو خراب کر لیا ہے۔ لہٰذا ان کا ایمان بالآخر ت بھی مسلّم نہیں ہے |