Ayats Found (1)
Surah 22 : Ayat 25
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ٱلَّذِى جَعَلْنَـٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءً ٱلْعَـٰكِفُ فِيهِ وَٱلْبَادِۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادِۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
جن لوگوں نے کفر کیا1 اور جو (آج) اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجدِ حرام کی زیارت میں مانع ہیں2 جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں3 (اُن کی روش یقیناً سزا کی مستحق ہے) اِس (مسجدِ حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا4 اسے ہم درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے
4 | اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو، نہ کہ کوئی خاص فعل۔ اس طرح کے افعال اگر چہ ہر حال میں گناہ ہیں ، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے۔ مفسرین نے بلا ضرورت قسم کھانے تک کو الحاد فی الحرم میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجہ اولیٰ اس تعریف میں آتی ہے۔ مثلاً : حرم کے باہر جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہو، یا کوئی اور ایسا جرم کیا ہو جس پر حد لازم آتی ہو، اور پھر وہ حرم میں پناہ لے لے ، تو جب تک وہ وہاں رہے اس پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا۔ حرم کی یہ حیثیت حضرت ابراہیم کے زمانے سے چلی آتی ہے ، اور فتح مکہ کے روز صرف ایک ساعت کے لیے اٹھائی گئی ، پھر ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئی۔ اور اُن کا ارشاد ہے : وَمَنْ دَخَلَہٗ کَنَ اٰمِناً ، ’’ جو اس میں داخل ہو گیا وہ امن میں آگیا‘‘۔ حضرت عمر ، عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن عباسؓ کے یہ اقوال معتبر روایات میں آئے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں پائیں تو اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ اسی لیے جمہور تابعین اور حنفیہ اور حنا بلہ اور اہل حدیث اس کے قائل ہیں کہ حرم کے باہر کیے ہوۓ جرم کا قصاص حرم میں نہیں لیا جا سکتا۔ وہاں جنگ اور خونریزی حرام ہے۔ فتح مکہ کے دوسرے روز جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا اس میں آپ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ’‘ لوگو، اللہ نے مکے کو ابتداۓ آفرینش سے حرام کیا ہے اور یہ قیامت تک کے لیے اللہ کی حرمت سے حرام ہے۔ کسی شخص کے لیے ، جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو، حلال نہیں ہے کہ یہاں کوئی خون بہائے ‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’ اگر میری اس جنگ کو دلیل بنا کر کوئی شخص اپنے لیے یہاں خونریزی کو جائز ٹھیرائے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسول کے لیے اس کو جائز کیا تھا نہ کہ تمہارے لیے۔ اور میرے لیے بھی یہ صرف ایک دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا، پھر آج اس کی حرمت اسی طرح قائم ہو گئی جیسی کل تھی‘‘۔ وہاں کے قدرتی درختوں کونہیں کاٹا جا سکتا ، نہ خود رو گھاس اکھاڑی جا سکتی ہے ، نہ پرندوں اور دوسرے جانوروں کا شکار کیا جا سکتا ہے ، اور نہ شکار کی غرض سے وہاں کے جانور کو بھگا یا جا سکتا ہے تاکہ حرم کے باہر اس کا شکار کیا جاۓ۔ اس سے صرف سانپ بچھو اور دوسرے موذی جانور مستثنیٰ ہیں۔ اور خودرو گھاس سے : اِذْ خر، اور خشک گھاس مستثنیٰ کی گئی ہے۔ ان امور کے متعلق صحیح احادیث میں صاف صاف احکام وارد ہوئے ہیں۔ وہاں کی گری پڑی چیز اٹھانا ممنوع ہے ،جیسا کہ ابوداؤد میں آیا ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم نھٰی عن القطۃ الحاج ، یعنی ’’ آپ نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا تھا ‘‘۔ وہاں جو شخص بھی حج یا عمرے کی نیت سے آئے وہ اِحرام کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ دوسری کسی غرض سے داخل ہونے والے کے لیے بھی احرام باندھ کر جانا ضروری ہے یا نہیں۔ ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ کسی حال میں بلا اِحرام داخل نہیں ہو سکتے۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی ایک ایک قول اسی کا مؤید ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ صرف وہ لوگ اِحرام کی قید سے مستثنیٰ ہیں جن کو بار بار اپنے کام کے لیے وہاں جانا آنا پڑتا ہو۔ باقی سب کو احرام بند جانا چاہیے۔ یہ امام احمد اور شافعی کا دوسرا قول ہے۔ تیسرا مذہب یہ ہے کہ جو شخص میقاتوں کے حدود میں رہتا ہو وہ مکہ میں بلا احرام داخل ہو سکتا ہے ، مگر جو حدود میقات سے باہر کا رہنے والا ہو وہ بلا احرام نہیں جا سکتا۔ یہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے |
3 | یعنی جو کسی شخص یا خاندان یا قبیلے کی جائداد نہیں ہے ، بلکہ وقف عام ہے اور جس کی زیارت سے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ یہاں فقہی نقطہ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں : اول یہ کہ ’’ مسجد حرام‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف ،مسجد یا پورا حرم مکہ ؟ دوم یہ کہ اس میں عاکف (رہنے والے )اور باد (باہر سے آنے والے ) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پورا حرم ، جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے سے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے ، جیسا کہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ : یا بنی عبد مناف من ولی منکم من امور الناس شیئا فلا یمنعن احداً طاف بھٰذا البیت او صلی اَیَّۃَ ساعۃ شاء من لیل او نھار۔ ’’ اے اولاد عبد مناف، تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہو اسے چاہیے کہ کسی شخص کو رات اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے ‘‘۔ اس رائے کے حامی کہتے ہیں کہ مسجد حرام سے پورا حرام مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت اور حقوق بیع و اجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے ، حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صفوان بن امیہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیے چار ہزار درہم میں خریدا گیا۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔ یہ امام شافعیؒ اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکین مکہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے ، اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کر رد کیا گیا کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر مِنٰی ، مُزولفہ، عرفات ، سب مناسک حج کے مقامات ہیں۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں متعدد مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا : وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَاللہِ ، ’’ مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ (بقرہ۔آیت 217)۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالا نہیں بلکہ مکہ سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِ ی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ،’’ یہ رعایت اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں ‘‘ (البقرہ۔ آیت 196 )۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے نہ کہ محض مسجد۔ لہٰذا ’’ مجد حرم‘‘ میں مساوات کو صرف مسجد میں مساوات ک محدود نہیں قرار دیا جا سکتا ، بلکہ یہ حرم مکہ میں مساوات ہے۔ پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے ، بلکہ حرم مکہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے۔ یہ سر زمین خدا کی طرف سے وقفِ عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عمارات پر کسی کے حقوق ملکیت نہیں ہیں۔ ہر شخص ہر جگہ ٹھیر سکتا ہے ، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوئے کو اٹھا سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں۔ مثلاً عبداللہ بن عمر کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مکۃ مناخٌ لا نُبَاع رباعھا ولا تؤ اجر بیوتھا ، ’’ مکہ مسافروں کے اترنے کی جگہ ہے ، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں۔‘‘ ابراہیم نخعی کی مرسل روایت کہ حضورؐ نے فرمایا : مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھاء ‘‘مکہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے۔‘‘(واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں ، کیونکہ ان کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبداللہ بن مسعودؓ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں ) مجاہد نے بھی بھی تقریباً ان ہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔ عَلْقَمہ بن نضْلَہ کی روایت کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکے کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یا شاملات) سمجھی جاتی تھیں ، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھیرا دیتا تھا ‘‘۔ عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہل مکہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہ ان پر دروازے لگانے سے منع کرتے تھے تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھیرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سہیل بن عمرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے ہوتے تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ کا قول کہ جو شخص مکہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔ عبداللہ بن عباسؓ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔ عمر بن عبدالعزیز کا فرمان امیر مکہ کے نام کہ مکے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے۔ ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گۓ ہیں ، اور فقہا میں سے امام مالک ، امام ابو حنیفہ، سفیان ثوری، امام احمد بن حنبل، اور اسحاق بن رَاھَوَیہ کی بھی یہی رائے ہے کہ اراضی مکہ کی بیع ، اور کم از کم موسم حج میں مکے کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں۔ البتہ بیشتر فقہاء کے مکہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت ، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہل مکہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکان زمین اور مالکان مکانات خوب کرائے وصول کر کر کے لوٹیں۔ وہ ایک وقف عام ہے تمام اہل ایمان کے لیے۔ اس کی زمین کسی کی ملک نہیں ہے۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں جگہ پاۓ ٹھیر جاۓ |
2 | یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے پیروؤں کو حج اور عمرہ نہیں کرنے دیتے |
1 | یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ماننے سے انکار کر دیا۔ آگے کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ ان سے مراد کفار مکہ ہیں |