Ayats Found (5)
Surah 3 : Ayat 96
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَـٰلَمِينَ
بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا1
1 | یہودیوں کا دُوسرا اعتراض یہ تھا کہ تم نے بیت المقدِس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیوں بنایا، حالانکہ پچھلے انبیا کا قبلہ بیت المقدِس ہی تھا۔ اس کا جواب سُورہ بقرہ میں دیا جا چکا ہے ۔ لیکن یہُودی اس کے بعد بھی اپنے اعتراض پر مُصِررہے۔ لہٰذا یہاں پھر اس کا جواب دیا گیاہے۔ بیت المقدِس کے متعلق خود بائیبل ہی کی شہادت موجود ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان ؑ نے اس کو تعمیر کیا (١۔سلاطین، باب ٦۔آیت ١)۔ اور حضرت سلیمان ؑ ہی کے زمانہ میں وہ قبلہٴ اہلِ توحید قرار دیا گیا(کتاب مذکور، باب ۸، آیت ۲۹۔۳۰)۔ برعکس اس کے یہ تمام عرب کی متواتر اور متفق علیہ روایات سے ثابت ہے کہ کعبہ کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا ، اور وہ حضرت موسیٰ ؑ سے آٹھ نو سو برس پہلے گزرے ہیں ۔ لہٰذا کعبہ کی اوّلیت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں |
Surah 3 : Ayat 97
فِيهِ ءَايَـٰتُۢ بَيِّنَـٰتٌ مَّقَامُ إِبْرَٲهِيمَۖ وَمَن دَخَلَهُۥ كَانَ ءَامِنًاۗ وَلِلَّهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلْبَيْتِ مَنِ ٱسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاًۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ عَنِ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں1، ابراہیمؑ کا مقام عبادت ہے، اوراس کا حال یہ ہے کہ جو اِس میں داخل ہوا مامون2 ہو گیا لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام د نیا والوں سے بے نیاز ہے
2 | جاہلیّت کے تاریک دَور میں بھی اس گھر کا یہ احترام تھا کہ خون کے پیاسے دُشمن ایک دُوسرے کو وہاں دیکھتے تھے اور ایک کو دُوسرے پر ہاتھ ڈالنے کی جراٴ ت نہ ہوتی تھی |
1 | یعنی اس گھر میں ایسی صریح علامات پائی جاتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جناب میں مقبول ہوا ہے اور اسے اللہ نے اپنے گھر کی حیثیت سے پسند فرما لیا ہے۔ لق و دق بیابان میں بنایا گیا اور پھر اللہ نے اس کے جوار میں رہنے والوں کی رزق رسانی کا بہتر سے بہتر انتظام کر دیا۔ ڈھائی ہزار برس تک جاہلیّت کے سبب سے سارا ملکِ عرب انتہائی بد امنی کی حالت میں رہا ، مگرا س فساد بھری سر زمین میں کعبہ اور اطرافِ کعبہ ہی کا ایک خِطّہ ایسا تھا جس میں امن قائم رہا۔ بلکہ اسی کعبہ کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینہ کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسّر آ جاتا تھا۔ پھرابھی نصف صدی پہلے ہی سب دیکھ چکے ہیں کہ اَبرَہہ نے جب کعبہ کی تخریب کے لیے مکہ پر حملہ کیا تو اس کی فوج کس طرح قہر الہٰی کی شکار ہوئی۔ اس واقعہ سے اُس وقت عرب کا بچہ بچہ واقف تھا اور اس کے چشم دید شاہد اِن آیات کے نزول کے وقت موجود تھے |
Surah 29 : Ayat 67
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا ءَامِنًا وَيُتَخَطَّفُ ٱلنَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْۚ أَفَبِٱلْبَـٰطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ ٱللَّهِ يَكْفُرُونَ
کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ اِن کے گرد و پیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں؟1 کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کفران کرتے ہیں؟
1 | یعنی کیا ان کے شہر مکہ کو، جس کے دامن میں انہیں کمال درجے کا امن میسر ہے، کسی لات یا ہبل نے حرم بنایا ہے؟ کیا کسی دیوی یا دیوتا کی یہ قدرت تھی کہ ڈھائی ہزار سال سے عرب کی انتہائی بد امنی کے ماحول میں اس جگہ کو تمام فتنوں اور فسادوں سے محفوظ رکھتا؟ اس کی حرمت کو برقرار رکھنے والے ہم نہ تھے تو اور کون تھا؟ |
Surah 2 : Ayat 125
وَإِذْ جَعَلْنَا ٱلْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَٱتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَٲهِــۧمَ مُصَلًّىۖ وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٲهِــۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَـٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ
اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو اور ابراہیمؑ اور ا سماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو1
1 | پاک رکھنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ کُوڑے کرکٹ سے اُسے پاک رکھا جائے ۔ خدا کے گھر کی اصل پاکی یہ ہے کہ اس میں خدا کے سوا کسی کا نام بلند نہ ہو۔ جس نے خانہء خدا میں خدا کے سوا کسی دُوسرے کو مالک ، معبُود، حاجت روا اور فریاد رس کی حیثیت سے پکارا، اس نے حقیقت میں اُسے گندا کر دیا۔ یہ آیت ایک نہایت لطیف طریقے سے مشرکینِ قریش کے جُرم کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ ظالم لوگ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کے وارث ہونے پر فخر تو کرتے ہیں ، مگر وراثت کا حق ادا کرنے کے بجائے اُلٹا اس حق کو پامال کر رہے ہیں۔ لہٰذا جو وعدہ ابراہیم ؑ سے کیا گیا تھا، اس سے جس طرح بنی اسرائیل مستثنیٰ ہوگئے ہیں، اسی طرح یہ مشرک بنی اسمٰعیل بھی اس سے مستثنٰی ہیں |
Surah 28 : Ayat 57
وَقَالُوٓاْ إِن نَّتَّبِعِ ٱلْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَآۚ أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا ءَامِنًا يُجْبَىٰٓ إِلَيْهِ ثَمَرَٲتُ كُلِّ شَىْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
وہ کہتے ہیں "اگر ہم تمہارے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی اختیار کر لیں تو اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے1" کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پرامن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں2
2 | یہ اللہ کی طرف سے ان کے عزر کاپہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حرم جس کے امن وامان اور جس کی مرکزیت کی بدولت آج تم اس قابل ہوئے ہوکہ دنیا بھر کامال تجارت اس وادی غیرذ ی میں کھچا چلاآرہا ہے، کیا اس کویہ امن اوریہ مرکزیت کامقام تمہاری کسی تدبیر نےدیا ہے؟ ڈھائی ہزار برس پہلے چٹیل پہاڑوں کےدرمیان اس بےآب وگیاہ وادی میں ایک اللہ کابندہ اپنی بیوی اورایک شیر خوار بچے کولےکرآیا تھا۔ اس نے یہاں پتھر اورگارے کاایک حجرہ تعمیر کردیا اورپکادیا کہ اللہ نے اسے حرم بنایاہے، آو اس گھر کی طرف اوراس کاطواف کرو۔ اب یہ اللہ کی دی ہوئی برکت نہیں تواورکیا ہے کہ ۲۵ صدیوں سے یہ جگہ عرب کامرکز بنی ہوئی ہے، سخت بدامنی کےماحول میں ملک کاصرف یہی گوشہ ایسا ہے جہاں امن میّسر ہے، اس کو عرب کابچہ بچہ احترام کی نگاہ سے دیکھتا ےہے،اورہرسال ہزار ہا انسان اس کے طواف کےلیے چلے آتے ہیں۔ اسی نعمت کاثمرہ توہے کہ تم عرب کے سردار بنے ہوئے ہواوردنیا کی تجارت کاایک بڑاحصہ تمہارے قبضے میں ہے۔ اب کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ جس خدانے یہ نعمت تمہیں بخشی ہے، اس سے منحرف اورباغی ہوکر توتم پھلوپھولوگے مگر اس کے دین کی پیروی اختیار کرتےہی برباد ہوجاؤگے؟ |
1 | یہ وہ بات ہے جوکفار قریش اسلام قبول کرنے لےلیے عزر کے طور پرپیش کرتے تھے۔ اوراگر غور سے دیکھا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ان کے کفروانکار کا سب سے اہم بنیادی سبب یہی تھا ۔اس بات کوٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ تاریخی طور پراُس زمانے میںقریش کی پوزیشن کیاتھی جس پرضرب پڑنے کاانہیں اندیشہ تھا۔ قریش کوابتداء جس چیز نے عرب میں اہمیت دی وہ یہ تھی کہ ان کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہونا انساب عرب کی رُو سے بالکل ثابت تھا، اوراس بنا پران کا خاندان کی نگاہ میں پیرزادوں کا خاندان تھا۔ پھرجب قُصّٰی بن کلاب کے حسن تدبیر سے یہ لوگ کعبہ کے متولی ہوگئے اورمکہ کامسکن بن گیا توان کی اہمیت پہلےسے بہت زیادہ ہوگئی۔اس لیے کہ اب وہ عرب کے سب سے بڑے تیر تھ کے مجاور تھے، تمام قبائل عرب میں ان کومذہبی پیشوائی کامقام حاصل تھا، اورحج کی وجہ سے عرب کاکوئی قبیلہ ایسا نہ تھ جوان سے تعلقات نہ رکھتا ہو۔ اس مرکزی حیثیت سے فائدہ اُٹھاکر قریش نے بتدریج تجارتی ترقی شروع کی اورخوش قسمتی سے روم وایران کی سیاسی کشمکش نے ان کوبین الاقوامی تجارت میں ایک اہم مقام عطا کردیا۔ اُس زمانہ میں روم ویونان اورمصر وشام کی جتنی تجارت بھی چین، ہندوستان، انڈونیشیا اورمشرقی افریقہ کے ساتھ، اس کے کناتے ناکہ ایران نے ر وک دیے تھے آخری راستہ بحر احمر رہ گیا تھا سویمن پر ایران کے قبضہ نے اسے بھی روک دیا۔ اس کے بعد کوئی صورت اس تجارت کوجاری رکھنے کےلیے اس کے سوانہیں رہ گئی تھی عرب کے تاجر ایک طرف رومی مقبوضات کا مال بحر عرب اورخلیج فارس کےبندرگاہوں پرپہنچائیں، اوردوسری طرف انہی بندرگاہوں سے مشرقی اموال تجارت لے کررومی مقبوضات میں پہنچیں۔ اس صورت حال مے مکہ کوبین الاقوامی تجارت کاایک اہم مرکز بنادیا۔ اس وقت قریش ہی تھے جنہین اس کاروبات کا قریب قریب اجارہ حاصل تھا۔ لیکن عرب کی طوائف الملوکی کے ماھول میں یہ تجارتی نقل وحرکت اس کے بغیر نہ ہوسکتی تھی کہ تجارتی شاہراہیں جن قائل کے علاقوں سے گزرتی تھیں ان کےساتھ قریش کے گہرے تعلقات ہوں۔ سرداران قریش اس غرض کےلیے صرف اپنے مذہبی اثر پراکتفا نہ کرسکتےتھے۔اس کےلیے انہوں نےتمام قبائل کے ساتھ معاہدات کررکھے تھے ۔ تجارتی منافع میں سے بھی وہ ان کوحصۃ دیتے تھے۔ شیوخ قبائل اوربااثر سرداروں کوتحائف وہدایا سےبھی خوش رکھتے تھے۔ اورسودی کاروبار کابھی ایک جال انہوں نےپھیلارکھا تھا جس میںقریب قریب تمام ہمسایہ قبائل کے تجار اورسردار جکڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں جب نبی ﷺ کی دعوت توحید اُٹھی تودین آبائی کےتعصب سےبھی بڑھ کرجوچیز قریش کےلیے اُس کے خلاف وجہ اشتعال بنی وہ یہ تھی کہ اس دعوت کی بدولت انہیں اپنا مفاد خطرے میں نظر آرہا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ معقول دلائل اورحجتوں سے شرک وبت پرستی غلط اورتوحید صحیح بھی ہو تواُس کوچھوڑنا اوراسے قبول کر لینا ہمارے لیے تباہ کن ہے۔ ایسا کرتےہی تمام عرب ہمارے خلاف بھڑک اُٹھے گا۔ ہمیں کعبہ کی تولیت سے بےدخل کردیاجائے گا۔ بُت پرست قبائل کے ساتھ ہمارے وہ تمام معاہدانہ تعلقات ختم ہوجائیں گے جن کی وجہ سے ہمارے تجارتی قافلے رات دن عرب کے مختلف حصوں سے گزرتےہیں۔ اس طرح یہ دین ہمارے مذہبی رسُوخ واثر کابھی خاتمہ کردےگااورہماری معاشی کوشحالی کابھی۔ بلکہ بعید نہیں کہ تمام قبائل عرب ہمیں سرے سےمکہ ہی چھوڑنے پرمجبور کردیں۔یہاں پہنچ کردنیا پرستون کی بے بصیرتی کا عجیب نقشہ انسان کےسامنے آتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ باربار انہیں یقین دلاتے تھے کہ یہ کلمہ جومیں تمہارے سامنے پیش کررہاہوں اسے مان لوتوعرب وعجم تمہارے تابع ہوجائیں گے(ملاحظہ ہوتفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحہ ۳۱۶۔۳۱۷)۔ مگر انہیں اس میں اپنی موت نظر آتی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جودولت،اثر، رسوخ ہمیں آ ج حاصل ہے یہ بھی ختم ہوجائے گا۔ ان کواندیشہ تھا کہ یہ کلمہ قبول کرے ہی ہم اس سرزمین میں ایسے بےیارومددگارہوجائیں گے کہ چیل کوّےہماری بوٹیاں نوچ کھائیں گے ۔ ان کی کوتاہ نظری وہ وقت نہ دیکھ سکتی تھی جب چند ہی سال بعد تمام عرب محمد ﷺ کے ماتحت ایک مرکزی سلطنت کا تابع فرمان ہونے والا تھا، پھراسی نسل کی زندگی میں ایران، عراق، شام، مصر، سب ایک ایک کرکے اس سلطنت کےزیرنگیں ہوجانے والے تھے، اوراس قول پرایک صدی گزرنے سے بھی پہلے قریش ہی کے خلفاء سندھ سے کےکراسپین تک اورقفقاز سے لےکریمن کےسواحل تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ پرحکمرانی کرنے والے تھے۔ |