Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 126
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ رَبِّ ٱجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا ءَامِنًا وَٱرْزُقْ أَهْلَهُۥ مِنَ ٱلثَّمَرَٲتِ مَنْ ءَامَنَ مِنْهُم بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُۥ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُۥٓ إِلَىٰ عَذَابِ ٱلنَّارِۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: "اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے2" جواب میں اس کے رب نے فرمایا: "اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے"
2 | حضرت ابراہیم ؑ نے جب منصبِ امامت کے متعلق پوچھا تھا، تو ارشاد ہوا تھا کہ اس منصب کا وعدہ تمہاری اولاد کے صرف مومن و صالح لوگوں کے لیے ہے ، ظالم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے بعد جب حضرت ابراہیم ؑ رزق کے لیے دُعا کر نے لگے ، تو سابق فرمان کو پیشِ نظر رکھ کر اُنہوں نے صرف اپنی مومن اولاد ہی کے لیے دُعا کی، مگر اللہ تعالیٰ نے جواب میں اس غلط فہمی کو فوراً رفع فرما دیا اور انہیں بتایا کہ امامتِ صالحہ اَور چیز ہے اور رزق ِ دُنیا دُوسری چیز۔ امامتِ صالحہ صرف مومنینِ صالح کو ملے گی، مگر رزقِ دُنیا مومن و کافر سب کو دیا جائےگا۔ اس سے یہ بات خود بخود نِکل آئی کہ اگر کسی کو رزقِ دُنیا فراوانی کے ساتھ مِل رہا ہو، تو وہ اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ اللہ سے راضی بھی ہے اور وہی خدا کی طرف سے پیشوائی کا مستحق بھی ہے |
Surah 14 : Ayat 35
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٲهِيمُ رَبِّ ٱجْعَلْ هَـٰذَا ٱلْبَلَدَ ءَامِنًا وَٱجْنُبْنِى وَبَنِىَّ أَن نَّعْبُدَ ٱلْأَصْنَامَ
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے دعا کی تھی1 کہ 2"پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا
1 | عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اُن خاص احسانات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا ، اُس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو |
Surah 14 : Ayat 37
رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ فَٱجْعَلْ أَفْــِٔدَةً مِّنَ ٱلنَّاسِ تَهْوِىٓ إِلَيْهِمْ وَٱرْزُقْهُم مِّنَ ٱلثَّمَرَٲتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے1، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں
1 | یہ اُسی دُعا کی برکت ہے کہ پہلے سارا عرب مکّہ کی طرف حج اور عمرے کے لیے کھچ کر آتا تھا، اور اب دنیا بھر کے لوگ کھچ کھچ کروہاں جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی اُسی دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں ہر طرح کے پھل ،غلّے ، اور دوسرے سامانِ رزق وہاں پہنچتے رہتے ہیں، حالانکہ اس وادیِ غیر ذی زرع میں جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا |