Ayats Found (1)
Surah 22 : Ayat 36
وَٱلْبُدْنَ جَعَلْنَـٰهَا لَكُم مِّن شَعَـٰٓئِرِ ٱللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌۖ فَٱذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُواْ مِنْهَا وَأَطْعِمُواْ ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّۚ كَذَٲلِكَ سَخَّرْنَـٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور (قربانی کے) اونٹوں کو1 ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے2، پس انہیں کھڑا کر کے3 ان پر اللہ کا نام لو4، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں5 تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو6
6 | یہاں پھر اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ فرمایا ، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کر کے تمہیں بخشی ہے |
5 | ٹِکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں ، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گر کر ٹھیر جائیں ، یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نکل جائے۔ ابو داؤد ، ترمذی اور مسنداحمد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : ما قُطع (اَو ما بان) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ، یعنی ’’ جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے |
4 | یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ’’ ذبح کرو‘‘ کہنے کے بجائے ’’ ان پر اللہ کا نام لو‘‘ فرما رہا ہے ، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصور اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے۔ ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللہِ اَللہُ آکْبَر کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے۔ آیت 36 میں فرمایا : فَاذْکُرُو ا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا ، ’’ ان پر اللہ کا نام لو‘‘۔ اور آیت 37 میں فرمایا : لِتَکَبِّرُ وا اللہ عَلٰی مَا ھَدٰ کُمْ، ’’ تاکہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو‘‘۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں۔ مثلاً 1 :۔ بِسْمِ اللہِ وَللہُ اکْبَر ، اَللہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، ’’ اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ‘‘۔ 2 :۔ اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ اللہمّ منک ولک ، ’’ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ خدایا تیار ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ’’۔ 3 :۔ اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَجِیْفاً وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَا یَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰ لِکَ اَمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، ’’ میں نے یکسو ہو کر اپنی رُخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رَبّ العالمین کے لیے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہیں لیے حاضر ہے |
3 | واضح رہے کہ اونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کرکے کی جاتی ہے۔ اس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے ، پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے ، پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اونٹ زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہی مفہوم ہے صَواف کا۔ ابن عباس ، مجاہد، ضحاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی یہی منقول ہے۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابن عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا : البعثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ و سلم۔ ’’ اس کو پاؤں باندھ کر کھڑا کر ، یہ ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت‘‘۔ ابوداؤد میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اسے کھڑا کرتے تھے ، پھر اس کو نحر کرتے تھے۔ اسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے : اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا ، ’’ جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں ‘‘۔ یہ اسی صورت میں بولیں گے جب کہ جانور کھڑا ہو اور پھر زمین پر گرے۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے |
2 | یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے ، نہ صرف شکر نعمت کے لیے ، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کرنے کے لیے بھی ، تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز اور روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ ان اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت پر اس کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوار ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں ، جن کے گوشت کھاتے ہیں ، جن کے دودھ پیتے ہیں ، جن کی کھالوں اور بالوں اورخون اور ہڈی ، غرض یک ایک چیز سے بے حساب فائدے اٹھاتے ہیں |
1 | اصل میں لفظ ’’بدن‘‘ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ، اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی مل کر کر سکتے ہیں۔ مسلم میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ : امر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان نشرک فی الاضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ،’’رسول ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں ، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گاۓ سات آدمیوں کے لیے‘‘ |