Ayats Found (2)
Surah 22 : Ayat 28
لِّيَشْهَدُواْ مَنَـٰفِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِۖ فَكُلُواْ مِنْهَا وَأَطْعِمُواْ ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ
تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں1 اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انہیں بخشے ہیں2، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں3
3 | بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب ہیں ، کیونکہ حکم بصیغہ امر دیا گیا ہے۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب۔ یہ رائے امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کی ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے ، اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد اعانت ہے۔ یہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے۔ ابن جریر نے حسن بصری ، عطاء ، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ : فَکُلُوْ ا مِنْھَا۔ میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امر ویسا ہی ہے جیسے فرمایا: و اِذَ ا حَلَلْتُمْ فَصْطَا دُوْا ، ’’ جب تم حالت احرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو‘‘ (المائدہ۔ آیت 2 ) اور : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْ ا فِی الْاَرْضِ ، ’’ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ‘‘ (الجمعہ۔ آیت 10 )۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے تھے اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں ، اسے کھاؤ ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جا سکتا ، دوست، ہمساۓ ، رشتہ دار ، خواہ محتاج نہ ہوں ، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے۔ یہ بات صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ عَلْقمہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا ، خود بھی کھانا ، مساکین کو بھی دینا ، اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصہ کھاؤ ، ایک حصہ ہمسایوں کو دو ، اور ایک حصہ مساکین میں تقسیم کرو |
2 | جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں ، یعنی اونٹ ، گائے، بھیڑ ، بکری، جیسا کہ سور انعام 142۔ 144 میں بصراحت بیان ہوا ہے۔ ان پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے ، جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم ’’جانور پر اللہ کا نام لینے ‘‘ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے ، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور کو ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کرے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا ، اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا۔ ایام معلومات (چند مقرر دنوں ) سے مراد کون سے دن ہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ ابن عباسؓ ، حسن بصری، ابراہیم نَخعی، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے یہ قول منقول ہے۔ امام ابو حنیفہؒ بھی اسی طرف گۓ ہیں۔ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر (یعنی، 10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ اس کی تائید میں ابن عباسؒ ، اب عمرؓ ، ابراہیم نخعی، حسن اور عطاء کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں ، اور امام شافعیؒ و احمدؒ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں ، یوم النحر اور دو دن اس کے بعد۔ اس کی تائید میں حضرات عمر، علی، ابن عمر ، ابن عباس، انس بن مالک ، ابو ہریرہ ، سعید بن مُسیّب اور سعید بن حبیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ فقہا میں سے سفیانؒ ثوری ، امام مالکؒ ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں ، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے ، کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے ، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا مانا ہے۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے |
1 | اس سے مراد صرف سینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے بھی ہیں۔ یہ اسی خانہ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکز وحدت حاصل رہا جس نے ان کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہو جانے سے بچائے رکھا۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک رہی، ان کی تہذیب ایک رہی، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا، اور ان کو خیالات ، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بد امنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، آل عمران ، حواشی، 80۔ 81۔ المائدہ ، حاشیہ 113۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہو گۓ۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا۔ اب وہ ساری دنیا کے اہل توحید کے لیے رحمت ہو گیا |
Surah 22 : Ayat 29
ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُواْ نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُواْ بِٱلْبَيْتِ ٱلْعَتِيقِ
پھر اپنا میل کچیل دور کریں1 اور اپنی نذریں پوری کریں2، اور اس قدیم گھر کا طواف کریں3
3 | کعبہ کے لیے ’’بیت عتیق‘‘ کا لفظ بہت معنی خیز ہے ‘‘ عتیق‘‘ عربی زبان میں تین معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک، قدیم۔ دوسرے آزاد ، جس پر کسی کی ملکیت نہ ہو۔ تیسرے ، مکرم اور معزز۔ یہ تینوں ہی معنی اس پاک گھر پر صادق آتے ہیں۔ طواف سے مراد طوافِ زیارت ہے جو یوم النحر کو قربانی کرنے اور اِحرام کھول دینے کے بعد کیا جاتا ہے۔ یہ ارکان حج میں سے ہے۔ اور چونکہ قضائے تَفَث کے حکم سے متصل اس کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طواف قربانی کرنے اور اِحرام کھول کر نہا دھو لینے کے بعد کیا جانا چاہیے |
2 | یعنی جو نذر بھی کسی نے اس موقع کے لیے مانی ہو |
1 | یعنی یوم النحر ( 10 ذی الحج) کو قربانی سے فارغ ہو کر احرام کھول دیں ، حجامت کرائیں ، نہائیں ، دھوئیں اور وہ پابندیاں ختم کر دیں جو احرام کی حالت میں عائد ہو گئی تھیں۔ لغت میں تَفَث کے اصل معنی اس غبار اور میل کچیل کے ہیں جو سفر میں آدمی پر چڑھ جاتا ہے۔ مگر حج کے سلسلے میں جب میل کچیل دور کرنے کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا مطلب وہی لیا جائے گا جو اوپر بیان ہوا ہے۔ کیونکہ حاجی جب تک مناسک حج اور قربانی سے فارغ نہ ہو جائے، وہ نہ بال ترشوا سکتا ہے ، نہ ناخن کٹوا سکتا ہے ، نہ ناخن کٹوا سکتا ہے ، اور نہ جسم کی دوسری صفائی کر سکتا ہے۔( اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قربانی سے فراغت کے بعد دوسری تمام پابندیاں تو ختم ہو جاتی ہیں ، مگر بیوی کے پاس جانا اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک آدمی طواف افاضہ نہ کر لے ) |