Ayats Found (35)
Surah 6 : Ayat 63
قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَـٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ تَدْعُونَهُۥ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَـٰنَا مِنْ هَـٰذِهِۦ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ
اے محمدؐ! ا ن سے پوچھو، صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کو ن ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑ گڑا، گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟
Surah 6 : Ayat 64
قُلِ ٱللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ
کہو، اللہ تمہیں اُس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر تم دوسروں کو اُس کا شریک ٹھیراتے ہو1
1 | یعنی یہ حقیقت کہ تنہا اللہ ہی قادرِ مطلق ہے، اور وہی تمام اختیارات کا مالک اور تمہاری بھَلائی اور بُرائی کا مختارِ کُل ہے ، اور اسی کے ہاتھ میں تمہاری قسمتوں کی باگ دوڑ ہے ، اِس کی شہادت تو تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے ۔ جب کوئی سخت وقت آتا ہے اور اسباب کے سر رشتے ٹوٹتے نظر آتے ہیں تو اس وقت تم بے اختیار اُسی کی طرف رجوع کرتے ہو۔ لیکن اس کھُلی علامت کے ہوتے ہوئے بھی تم نے خدائی میں بلا دلیل و حجّت اور بلا ثبُوت دُوسروں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے۔ پلتے ہو اس کے رزق پر اور اَن داتا بناتے ہو دُوسروں کو ۔ مدد پاتے ہو اس کے فضل و کرم سے اور حامی و ناسر ٹھیراتے ہو دُوسروں کو۔ غلام ہو اس کے اور بندگی بجا لاتے ہو دُوسروں کی۔ مشکل کشائی کرتا ہے وہ ، بُرے وقت پر گِڑگِڑ اتے ہو اس کے سامنے، اور جب وہ وقت گزر جاتا ہے تو تمہارے مشکل کشا بن جاتے ہیں دُوسرے اور نذریں اور نیازیں چڑھنے لگتی ہیں دُوسروں کے نام کی |
Surah 10 : Ayat 31
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَـٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
اِن سے پُوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟
Surah 10 : Ayat 32
فَذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمُ ٱلْحَقُّۖ فَمَاذَا بَعْدَ ٱلْحَقِّ إِلَّا ٱلضَّلَـٰلُۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے1 پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جا رہے ہو؟2
2 | خیال رہے کہ خطاب عام لوگوں سے ہے اور ان سے سوال یہ نہیں کیا جا رہا کہ ”تم کدھر پھرے جاتے ہو“بلکہ یہ ہے کہ ”تم کدھر پھرائے جارہے ہو“۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسا گمراہ کن شخص یا گروہ موجود ہے جو لوگوں کو صحیح رُخ سے ہٹا کر غلط رُخ پر پھیر رہا ہے۔ اسی بنا پر لوگوں سے اپیل یہ کیا جا رہا ہے کہ تم اندھے بن کر غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جا رہے ہو، اپنی گِرہ کی عقل سے کام لے کر سوچتے کیوں نہیں کہ جب حقیقت یہ ہے، تو آخر یہ تم کو کدھر چلایا جا رہا ہے۔ یہ طرزِسوال جگہ جگہ ایسے مواقع پر قرآن میں اختیار کیا گیا ہے، اور ہر جگہ گمراہ کرنے والوں کا نام لینے کے بجائے ان کو صیغۂ مجہول کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے، تاکہ ان کے معتقدین ٹھنڈے دل سے اپنے معاملے پر غور کر سکیں، اور کسی کو یہ کہہ کر انہیں اشتعال دلانے اور ان کا دماغی توازن بگاڑ دینے کا موقع نہ ملے کہ دیکھو یہ تمہارے بزرگوں اور پیشواؤں پر چوٹیں کی جارہی ہیں۔ اس میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس سے غافل نہ رہنا چاہیے۔ |
1 | یعنی اگر یہ سارے کام اللہ کے ہیں، جیسا کہ تم خود مانتے ہو، تب تو تمہارا حقیقی پروردگار، مالک، آقا، اور تمہاری بندگی و عبادت کا حق دار اللہ ہی ہوا۔ دوسرے جن کا اِن کاموں میں کوئی حصہ نہیں آخر ربوبیت میں کہاں سے شریک ہو گئے؟ |
Surah 16 : Ayat 15
وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٲسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَـٰرًا وَسُبُلاً لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اُس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے 1اس نے د ریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے2 تاکہ تم ہدایت پاؤ
2 | یعنی وہ راستے جو ندی نالوں اور دریاؤں کے ساتھ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت خصوصیت کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں محسوس ہوتی ہے، اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی وہ کچھ کم اہم نہیں ہیں |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سطحِ زمین پر پہاڑوں کے ابھار کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کی گردش اور اس کی رفتار میں انضباط پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر پہاڑوں کے اس فائدے کو نمایاں کر کے بتایا گیا ہے جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے تمام فائدے ضمنی ہیں اور اصل فائدہ یہی حرکت ِزمین کو اضطراب سے بچا کر منضبط (Regulate) کرنا ہے۔ |
Surah 16 : Ayat 17
أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں؟1 کیا تم ہوش میں نہیں آتے؟
1 | یعنی اگر تم یہ مانتے ہو (جیسا کہ فی الواقع کفارِمکہ بھی مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین بھی مانتے ہیں) کہ خالق اللہ ہی ہے اور اس کائنات کے اندر تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کسی کا کچھ بھی پیدا کیا ہوا نہیں ہے توپھر کیسے ہو سکتاہے کہ خالق کے خلق کیے ہوئے نظام میں غیر خالق ہستیوں کی حیثیت خود خالق کے برابر یا کسی طرح بھی اُس کے مانند ہو؟ کیونکر ممکن ہے کہ اپنی خلق کی ہوئی کائنات میں جو اختیارات خالق کے ہیں وہی ان غیر خالقوں کے بھی ہوں، اور اپنی مخلوق پر جو حقوق خالق کو حاصل ہیں وہی حقوق غیر خالقوں کو بھی حاصل ہوں؟ کیسے باور کیا جا سکتاہے کہ خالق اورغیر خالق کی صفات ایک جیسی ہوں گی، یا وہ ایک جنس کے افراد ہوں گے، حتیٰ کہ ان کے درمیان باپ اوراولاد کا رشتہ ہو گا؟ |
Surah 17 : Ayat 40
أَفَأَصْفَـٰكُمْ رَبُّكُم بِٱلْبَنِينَ وَٱتَّخَذَ مِنَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ إِنَـٰثًاۚ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلاً عَظِيمًا
کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں بنا لیا؟1 بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نحل آیات ۵۷ تا ۵۹ مع حواشی |
Surah 17 : Ayat 42
قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُۥٓ ءَالِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّٱبْتَغَوْاْ إِلَىٰ ذِى ٱلْعَرْشِ سَبِيلاً
اے محمدؐ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے1
1 | یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدائی اختیارات دے رکھے ہوں۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ، ہر معاملے میں،ایک دوسرے کے ارداے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ نا گزیر تھا کہ اُن کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ رہی دوسری صورت، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کر سکتا۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدائی بھی منتقل کر دی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا، اور فوراً ہی خداوند عالم بن جانے کی فکر شروع کردیتا۔ جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اُس وقت تک پیدا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان ساری قوتیں مل کر اُس کے لیے کام نہ کریں، اُس کے متعلق صرف ایک انتہا درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ قصور کر سکتا ہے کہ اُس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کر رہے ہونگے۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے۔ |
Surah 21 : Ayat 21
أَمِ ٱتَّخَذُوٓاْ ءَالِهَةً مِّنَ ٱلْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ
کیا اِن لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ (بے جان کو جان بخش کر) اُٹھا کھڑا کرتے ہوں1؟
1 | اصل میں لفظ ’’ یَنشرون‘‘ استعمال ہوا ہے جو ’’ انشار ‘‘ سے مشتق ہے ۔ انشار کے معنی ہیں بے جان پڑی ہوئی چیز کو اٹھا کھڑا کرنا ۔ اگر چہ اس لفظ کو قرآن مجید میں بالعموم زندگی بعد موت کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن اصطلاحی مفہوم سے قطع نظر، اصل لغوی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ بے جان مادے میں زندگی پھونک دینے کے لیے مستعمل ہوتا ہے ۔ اور موقع و محل کو دیکھتے ہوۓ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ یہاں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو انہوں نے خدا قرار دے رکھا ہے اور اپنا معبود بنایا ہے ، کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو مادہ غیر ذی حیات میں زندگی پیدا کرتا ہو؟ اگر ایک اللہ کے سوا کسی میں یہ طاقت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مشرکین عرب خود مانتے تھے کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر وہ ان کو خدا اور معبود کس لیے مان رہے ہیں |
Surah 21 : Ayat 22
لَوْ كَانَ فِيهِمَآ ءَالِهَةٌ إِلَّا ٱللَّهُ لَفَسَدَتَاۚ فَسُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ رَبِّ ٱلْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ
اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دُوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین اور آسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا1 پس پاک ہے اللہ ربّ العرش2 اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں
2 | رب العرش ، یعنی کائنات کے تخت سلطنت کا مالک |
1 | یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی ۔ سادہ سی بات ، جس کو ایک بدوی ، ایک دیہاتی، ایک موٹی سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے ، یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحب خانہ ہوں ۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام ، زمین کی تہوں سے لے کر بعید ترین سیاروں تک ، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے ۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بر شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اورتوازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ ان بے شمار اشیاء اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب یہ کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے ۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد دوم، بنی اسرائیل ، حاشیہ 47 جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 85 ) |