Ayats Found (2)
Surah 22 : Ayat 26
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَٲهِيمَ مَكَانَ ٱلْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِى شَيْــًٔا وَطَهِّرْ بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْقَآئِمِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ
یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ 1"میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو
1 | بعض مفسرین نے ’’ پاک رکھو‘‘ پر اس فرمان کو ختم کر دیا ہے جو حضرت ابراہیم کو دیا گیا تھا ، اور ’’ حج کے لیے اذن عام دے دو‘‘ کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف مانا ہے۔ لیکن انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ خطاب بھی حضرت ابراہیم ہی کی طرف ہے اور اسی حکم کا ایک حصہ ہے جو ان کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دیا گیا تھا۔ علاوہ بریں مقصود کلام بھی یہاں یہی بتانا ہے کہ اول روز ہی سے یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور تمام خدا پرستوں کو یہاں حج کے لیے آنے کا اذن عام تھا |
Surah 22 : Ayat 27
وَأَذِّن فِى ٱلنَّاسِ بِٱلْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر1 سوار آئیں2
2 | یہاں وہ حکم ختم ہوتا ہے جو ابتداء حضرت ابراہیم کو دیا گیا تھا، اور آگے کا ارشاد اس پر اضافہ ہے جو بطور تشریح مزید کیا گیا ہے۔ ہماری اس رائے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کا خاتمہ اس قدیم گھر کا طواف کریں ’’ پر ہوا ہے ، جو ظاہر ہے کہ تعمیر خانہ کعبہ کے وقت نہ فرمایا گیا ہو گا۔ (حضرت ابراہیم کی تعمیر خانہ کعبہ کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو، سورہ بقرہ ، آیات 125۔129۔ آل عمران ، آیات 96۔ 97۔ ابراہیم، آیات 35۔ 41 ) |
1 | اصل میں لفظ : ضامر ، استعمال ہوا ہے جو خاص طور پر دُبلے اُونٹوں کے لیے بولتے ہیں۔ اس سے ان مسافروں کی تصویر کھینچنا مقصود ہے جو دور دراز مقامات سے چلے آرہے ہوں اور راستے میں ان کے اونٹ چارہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے دبلے ہو گۓ ہوں |