Ayats Found (2)
Surah 44 : Ayat 3
إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةٍ مُّبَـٰرَكَةٍۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ
کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے1
1 | کتاب مبین کی قسم کھانے کا مطلب سورہ زخرف حاشیہ نمبر 1 میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ یہاں بھی قسم جس بات پر کھائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ ’’ ہم ‘‘ ہیں، اور اس کا ثبوت کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، خود یہ کتاب ہی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بعد مزید بات یہ فرمائی گئی کہ وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی جس میں اس نازل کیا گیا۔ یعنی نادان لوگ ، جنہیں اپنی بھلائی برائی کا شعور نہیں ہے، اس کتاب کی آمد کو اپنے لیے بلاۓ ناگہانی سمجھ رہے ہیں اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ لیکن در حقیقت ان کے لیے اور تمام نوع انسانی کے لیے وہ ساعت بڑی سعید تھی جب ’’ ہم ‘‘ نے غفلت میں پڑے ہوۓ لوگوں کو چونکا نے کے لیے یہ کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن امّ الکتاب سے منتقل کر کے حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق جسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر 23 سال تک نازل کیا جاتا رہا ۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا کہ : اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیلَۃِ الْقَدْرِ ، اور یہاں فرمایا کہ : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَا رَکَۃٍ ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی : شَھْرُ رَمَضَا نَ الْذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰن (البقرہ ، 185) |
Surah 97 : Ayat 1
إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةِ ٱلْقَدْرِ
ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے1
1 | اصل الفاظ ہیں انزلنہ، ’’ہم نے اس کو نازل کیا ہے‘‘۔ لیکن بغیر اس کے کہ پہلے قرآن کا کوئی ذکر ہو، اشارہ قرآن ہی کی طرف ہے، اس لیے کہ ’’نازل کرنا‘‘ خود بخود اس پر دلالت کرتا ہے کہ مراد قرآن ہے۔ اور قرآن مجید میں اس امر کی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ اگر سیاق کلام یا انداز بیان سے ضمیر کا مرجع خود ظاہر ہو رہا ہو تو ضمیر ایسی حالت م یں بھی استعمال کر لی جاتی ہے جب کہ اس کے مرجع ذکر پہلے یا بعد میں کہیں نہ کیا گیا ہو (تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم، النجم، حاشیہ 9)۔ یہاں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے، اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ’’ شھر رمضان الذی انزل فیہ ا لقرآن۔ ‘‘’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ‘‘۔ (البقرہ 185)اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غارِ حراء میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی۔ اس رات کو یہاں شبِ قدر کہا گیا ہے اور سورہ دخان میں اسی کومبارک رات فرمایا گیا ہے۔ ’’ انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ۔ ‘‘ ’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے‘‘ (آیت 3)۔ اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس رات پورا قرآن حاملِ وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا، اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً 23 سال کے دوران میں جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ ﷺ پر نازل کرتے رہے۔ یہ مطلب ابن عباسؓ نے بیان کیا ہے (ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی)۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اس رات سے ہوئی۔ یہ امام شعبی کا قول ہے، اگرچہ ان سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے جو ابن عباس کا اوپر گزرا ہے۔ (ابن جریر) بہرحال دونوں صورتوں میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول ا للہ ﷺ پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں اللہ تعالی اسی وقت تصنیف نہیں فرماتا تھا جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کی دعوت اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملہ میں ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی، بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں اللہ تعالی کے ہاں زمین پر نوع انسانی کی پیدائش ، اس میں انبیاء کی بعثت، انبیاء پر نازل کی جانے والی کتابوں، اور تمام انبیاء کے بعد آخر میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمانے اور آپ پر قرآان نازل کرنے کا پورا منصوبہ موجود تھا۔ شب قدر میں صرف یہ کام ہوا کہ اس منصوبے کے آخری حصے پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ اس وقت اگر پورا قرآن حاملیں وحی کے حوالہ کر دیا گیا ہو تو کوئی قابل تعجب امر نہیں ہے۔ قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لیے ہیں، یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالی تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورہ دخان کی یہ آیت کرتی ہے ’’ فیھا یفرق کل امر حکیم۔ ‘‘’’اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے‘‘ (آیت 5) بخلاف اس کے امام زہری کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں، یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے۔ اس معنی کی تائید اسی سورۃ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ ’’شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سی رات تھی، تو اس میں اتنا اختلاف ہوا ہے کہ قریب قریب 40 مختلف اقوال اس کے بارے میں ملتے ہیں۔ لیکن علماء امت کی بڑی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک طاق رات شبِ قدر ہے، اور ان میں بھی زیادہ تک لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ ستاٍئیسویں رات ہے۔ اس معاملہ میں جو معتبر احادیث منقول ہوئی ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ القدر کے با رے میں فرمایا وہ ستاٍئیسویں یا انتیسویں رات ہے (ابو داؤد طیالسی)۔ دوسری روایت حضرت ا بو ہریرہؓ سے یہ ہے کہ وہ رمضان کی آخری رات ہے (مسند احمد) |