Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 184
أَيَّامًا مَّعْدُودَٲتٍۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَۚ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُۥۚ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے1 تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو2
2 | یہاں تک وہ ابتدا ئی حکم ہے ، جو رمضان کے روزوں کے متعلق سن ۲ ہجری میں جنگ ِ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبتِ مضمون کی وجہ سے اسی سلسلہء بیان میں شامل کر دی گئیں |
1 | یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانا کھلائے، یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے |
Surah 2 : Ayat 185
شَهْرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلْقُرْءَانُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَـٰتٍ مِّنَ ٱلْهُدَىٰ وَٱلْفُرْقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ ٱلْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَٮٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے1 اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو2
2 | یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیےمخصُوص نہیں کر دیا ہے، بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذرِ شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، اُن کے لیے دُوسرے دنوں میں اُس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تا کہ قرآن کی جو نعمت اُس نے تم کو دی ہے ، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محرُوم نہ رہ جا ؤ ۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ اُنھیں مزید براں اُس عظیم الشان نعمتِ ہدایت پر اللہ تعالٰی کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے ، جو قرآن کی شکل میں اُس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صُورت اگر ہوسکتی ہے ، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دُنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزُولِ قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے ، اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود اِس نعمتِ قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے |
1 | “سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار ِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ ؓ سفر میں جایا کرتے تھے ، اُن میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دُوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت ؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گِر گیا اور اس کے گِرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگِ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکّہ کے موقی پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابنِ عمر ؓ کا بیان ہے کہ فتحِ مکّہ کے موقع پر حضُور ؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فا فطر و ا ۔ دُوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قد د نو تم من عد و کم فا فطر و ا ا قو ی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے ، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔ عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، حضُور ؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ ء کرام ؓ کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافرانہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے، وہ افطار کے لیے کافی ہے۔ یہ امر مُتَّفَق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اُس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اُس کو اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہ ؓ سے ثابت ہیں۔ یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجُود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علّامہ ابن تیمیّہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے |