Ayats Found (1)
Surah 2 : Ayat 264
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُبْطِلُواْ صَدَقَـٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ كَٱلَّذِى يُنفِقُ مَالَهُۥ رِئَآءَ ٱلنَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِۖ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُۥ وَابِلٌ فَتَرَكَهُۥ صَلْدًاۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَىْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَـٰفِرِينَ
اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایما ن رکھتا ہے، نہ آخرت پر1 اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی2 ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے3
3 | یہاں” کافر“ لفط نا شکرے اور منکرِ نعمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جو شخص اللہ دی ہوئی نعمت کو اس کی راہ میں اس کی رضا کے لیے خرچ کرنے کے بجائے خلق کی خوشنودی کے لیے صرف کرتا ہے، یا اگر خدا کی راہ میں کچھ مال دیتا بھی ہے ، تو اس کے ساتھ اذِیّت بھی دیتا ہے، وہ دراصل ناشکرا اور اپنے خدا کا احسان فراموش ہے۔ اور جب کہ وہ خود ہی خدا کی رضا کا طالب نہیں ہے تو اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ اسے کواہ مخواہ اپنی رضا کا راستہ دکھائے |
2 | اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے۔ چٹان سے مراد اُس نیت اور اُس جذبے کی خرابی ہے، جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے۔ مٹی کی ہلکی تہہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے، جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ بارش کا فطری اقتضا تو یہی ہے کہ اس سے روئیدگی ہو اور کھیتی نشونما پائے ۔ لیکن جب روئیدگی قبول کرنے والی زمین محض برائے نام اُوپر ہی اُوپر ہو، اور اس اُوپری تہہ کے نیچے نِری پتھر کی ایک چٹان رکھی ہوئی ہو، تو بارش مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مُضِر ہوگی۔ اسی طرح خیرات بھی اگرچہ بھلائیوں کو نشونما دینے کی قوت رکھتی ہے ، مگر اس کےنافع ہونے کے لیے حقیقی نیک نیتی شرط ہے۔ نیت نیک نہ ہو تو ابرِ کرم کا فیضان بجز اس کے کہ محض ضیاعِ مال ہے اَور کچھ نہیں |
1 | اس کی ریاکاری خود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔ اُس کا محض لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا صریحاً یہ معنی رکھتا ہے کہ خلق ہی اس کی خدا ہے جس سے وہ اجر چاہتا ہے ، اللہ سے نہ اس کو اجر کی توقع ہے اور نہ اسے یقین ہے کہ ایک روز اعمال کا حساب ہوگا اور اجر عطا کیے جائیں گے |