Ayats Found (3)
Surah 39 : Ayat 3
أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلْخَالِصُۚ وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ إِنَّ ٱللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِى مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ كَـٰذِبٌ كَفَّارٌ
خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے1 رہے وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اِس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں2، اللہ یقیناً اُن کے درمیان اُن تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں3 اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو4
4 | یہاں اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کے لیے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ایک کاذب دوسرے کفار۔ کاذب ان کو اس لیے فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے جھوٹ موٹ یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے اور پھر یہی جھوٹ وہ دوسروں میں پھیلاتے ہیں۔ رہا کفار، تو اس کے دو معنی ہیں۔ ایک سخت منکر حق، یعنی توحید کی تعلیم سامنے آجانے کے بعد بھی یہ لوگ اس غلط عقیدے پر مصر ہیں۔ دوسرے، کافر نعمت، یعنی نعمتیں تو یہ لوگ اللہ سے پا رہے ہیں اور شکریے اُن ہستیوں کے ادا کر رہے ہیں جن کے متعلق انہوں نے اپنی جگہ یہ فرض کر لیا ہے کہ یہ نعمتیں ان کی مداخلت کے سبب سے مل رہی ہیں۔ |
3 | یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں۔ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتاؤں اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک چاند، سورج، مریخ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بے شمار اختلافات ہیں۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالٰی کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ فلاں فلاں اشخاص ہیں، لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بناؤ۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے جو محض وہم اور اندھی عقیدت اور اسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے۔ |
2 | کفار مکہ کہتے تھے، اور بالعموم دنیا بھر کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت اُن کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی بارگاہ بہت اونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں۔ |
1 | یہ امر واقعہ اور ایک حقیقت ہے جسے اوپر کے مطالبے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کر کے اُس کی بندگی تم کو کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی اللہ کا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں، بندگی کا مستحق کوئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اُس کی بھی پرستش اور اُس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے۔ اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے۔ اس آیت کی بہترین تشریح وہ حدیث ہے جو ابن مَر دُوْیہ نے یزید الرّقاشی سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا، ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لیے کہ ہمارا نام بلند ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں۔ اس نے پوچھا اگر اللہ کے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپ نے فرمایا اناللہ تعالٰی لا یقبل الّا من اخلص لہٗ، اللہ تعالی کوئی عمل بھی قبول کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لیے نہ ہو۔‘‘ اس کے بعد حضورؐ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ |
Surah 23 : Ayat 28
فَإِذَا ٱسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى ٱلْفُلْكِ فَقُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى نَجَّـٰنَا مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ
پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی1
1 | یہ کسی قوم کی انتہائی بد اطواری اور خباثت و شرارت کو ثبوت ہے کہ اس کی تباہی پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا جاۓ |
Surah 3 : Ayat 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَأَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ ٱللَّهِ عَلَى ٱلْكَـٰذِبِينَ
یہ علم آ جانے کے بعد اب کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو اے محمدؐ! اس سے کہو، 1"آؤ ہم اور تم خود بھی آ جائیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خد ا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو"
1 | فیصلہ کی یہ صُورت پیش کرنے سے دراصل یہ ثابت کرنا مقصُود تھا کہ وفدِ نجران جان بُوجھ کر ہٹ دھرمی کر رہا ہے۔اُوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا جواب بھی اُن لوگوں کے پاس نہ تھا ۔ مسیحیت کے مختلف عقائد میں سے کسی کے حق میں بھی وہ خود اپنی کتب مقدسہ کی ایسی سند نہ پاتے تھے جس کی بنا پر کام یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے کہ ان کا عقیدہ امر واقعہ کے عین مطابق ہے اور حقیقت اس کے خلاف ہر گز نہیں ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کی تعلیم اور آپ کے کارناموں کو دیکھ کر اکثر اہلِ وفد اپنے دلوں میں آپ کی نبوّت کے قائل بھی ہو گئے تھے یا کم از کم اپنے انکار میں متزلزل ہو چکے تھے۔ اس لیے جب اُن سے کہا گیا کہ اچھّا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت کا پورا یقین ہے تو آ ؤ ہمارے مقابلہ میں دُعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو، تو ان میں سے کوئی اس مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس طرح یہ بات تمام عرب کے سامنے کھُل گئی کہ نجرانی مسیحیت کے پیشوا اور پادری ، جن کے تقدس کا سکّہ دُور دُور تک رواں ہے، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انہیں کامل اعتماد نہیں ہے |