Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 177
۞ لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَـٰبِ وَٱلنَّبِيِّــۧنَ وَءَاتَى ٱلْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٲةَ وَٱلْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَـٰهَدُواْۖ وَٱلصَّـٰبِرِينَ فِى ٱلْبَأْسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلْبَأْسِۗ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف1، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں
1 | مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے کو تو محض بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے ، دراصل مقصُود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پُری کے طور پر چند مقرر مذہبی اعمال انجام دینا اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے ، جو اللہ کے ہاں وزن اور قدر رکھتی ہے |
Surah 30 : Ayat 38
فَـَٔـاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِۚ ذَٲلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق)1 یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں2
2 | یہ مطلب نہیں ہےکہ فلاح صرف مسکین اورمسافراوررشتہ دارکاحق اداکردینےسےحاصل ہوجاتی ہے،اس کےعلاوہ اورکوئی چیز حصُول فلاح کےلیے درکارنہیں ہے۔بلکہ مطلب یہ ہےکہ انسانوں میں سے جولوگ اِن حقوق کونہیں پہچانتےاورنہیں اداکرتےوہ فلاح پانے والےنہیں ہیں،بلکہ فلاح پانے والےوہ ہیں جوخالص اللہ کی خوشنودی کےلیےیہ حقوق پہچانتے اوراداکرتے ہیں۔ |
1 | یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار،مسکین اورمسافرکوخیرات دے۔ارشادیہ ہُوا ہےکہ یہ اُس کا حق ہےجوتجھےدیناچاہیے،اورحق ہی سمجھ کرتواسےدے۔اس کودیتےہوئےیہ خیال تیرےدل میں نہ آنےپائےکہ یہ کوئی احسان ہےجوتواس پرکررہا ہے،اورتو کوئی بڑی ہستی ہےدان کرنے والی،اوروہ کوئی حقیرمخلوق ہےتیرادیاکھانے والی۔بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرےذہن نشین رہے کہ مال کےمالک حقیقی نے اگرتجھےزیادہ ہےاوردوسرے بندوں کوکم عطا فرمایا ہےتویہ زائد مال اُن دوسروں کاحق ہےجوتیری آزمائش کےلیے تیرےہاتھ میں دے دیاگیا ہےتاکہ تیرامالک دیکھے کہ توان کاحق پہچانتا اورپہنچاتا ہےیانہیں۔اس ارشاد الٰہی اوراس کی اصلی روح پرجوشخص بھی غورکرے گاوہ یہ محسوس کیے بغیرنہیں رہ سکتاکہ قرآن مجید انسان کےلیےاخلاقی وروحانی ارتقاءکاجوراستہ تجویزکرتا ہےاس کےلیےایک آزاد معاشرہ اورآزاد معیشت(Free Economy)کی موجودگی ناگزیرہے۔یہ ارتقاءکسی ایسےاجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کےحقوقِ ملکیت ساقط کردیےجائیں،ریاست تمام ذرائع کی مالک ہوجائے اورافراد کےدرمیان تقسیم رزق کاپوراکاروبارحکومت کی مشینری سنبھال لے،حتٰی کہ نہ کوئی فرد اپنےاوپرکسی کاکوئی حق پہچان کردےسکے،اورنہ کوئی دوسرافردکسی سےکچھ لےکراس کےلیےاپنےدل میں کوئی جذبہ خیرسگالی پرورش کرسکے۔اس طرح کاخالص کمیونسٹ نظامِ تمّدن ومعیشت،جسےآج کل ہمارے ملک میں’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘کےپرفریب نام سےزبردستی قرآن کے سرمنڈھا جارہاہے،قرآن کی اپنی اسکیم کےبالکل خلاف ہے،کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کےنشوونمااورانفرادی سیرتوں کی تشکیل وترقی کادروازہ قطعًابند ہوجاتاہے۔قرآن کی اسکیم تواُسی جگہ چل سکتی ہےجہاں افراد کچھ وسائلِ دولت کےمالک ہوں،اُن پرآزادانہ تصّرف کےاختیارات رکھتےہوں،اورپھراپنی رضاورغبت سےخدااوراس کےبندوں کےحقوق اخلاص کےساتھ اداکریں۔اِسی قسم کےمعاشرےمیں یہ امکان پیداہوتا ہےکہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی،رحم وشفقت،ایثاروقربانی اورحق شناسی وادائے حقوق کےاعلٰی اوصاف پیداہوں،اوردوسری طرف جن لوگوں کےساتھ بھلائی کی جائےان کےدلوں میں بھلائی کرنےوالوں کےلیےخیرخواہی،احسان مندی،اورجزاءالاحسان بالاحسان کےپاکیزہ جذبات نشوونماپائیں،یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیداہوجائےجس میں بدی کارُکنااورنیکی کافروغ پاناکسی قوتِ جابرہ کی مداخلت پرموقوف نہ ہو،بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگئ نفس اوران کےاپنےنیک ارادےاس ذمہ داری کوسنبھال لیں۔ |
Surah 51 : Ayat 19
وَفِىٓ أَمْوَٲلِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ
اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے1
1 | بالفاظِ دیگر، ایک طرف اپنے رب کا حق وہ اس طرح پہچانتے اور ادا کرتے تھے، دوسری طرف بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ یہ تھا۔ جو کچھ بھی اللہ نے ان کو دیا تھا، خواہ تھوڑا یا بہت، اس میں وہ صرف اپنا اور اپنے بال بچوں ہی کا حق نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کو یہ احساس تھا کہ ہمارے اس مال میں ہر اس بندہ خدا کا حق ہے جو ہماری مدد کا محتاج ہو۔ وہ بندوں کی مدد خیرات کے طور پر نہیں کرتے تھے کہ اس پر ان سے شکریہ کے طالب ہوتے اور ان کو اپنا زیر بار احسان ٹھیراتے، بلکہ وہ اسے ان کا حق سمجھتے تھے اور اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ پھر ان کی یہ خدمت خلق صرف انہی لوگوں تک محدود نہ تھی جو خود سائل بن کر ان کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتے، بلکہ جس کے متعلق بھی ان کے علم میں یہ بات آ جاتی تھی کہ وہ اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اس کی مدد کے لیے وہ خود بے چین ہو جاتے تھے۔ کوئی یتیم بچہ جو بے سہارا رہ گیا ہو، کوئی بیوہ جس کا کوئی سر دھرا نہ ہو، کوئی معذور جو اپنی روزی کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مار سکتا ہو، کوئی شخص جس کا روز گار چھوٹ گیا ہو یا جس کی کمائی اس کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو رہی ہو، کوئی شخص جو کسی آفت کا شاکر ہو گیا ہو اور اپنے نقصان کی تلافی خود نہ کر سکتا ہو، غرض کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جس کی حالت ان کے علم میں آئی ہو اور وہ اس کی دستگیری کر سکتے ہوں، اور پھر بھی انہوں نے اس کا حق مان کر اس کی مدد کرنے سے دریغ کیا ہو۔ یہ تین صفات ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو متقی اور محسن قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہی صفات نے ان کو جنت کا مستحق بنایا ہے۔ ایک یہ کہ آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے ہر اس روش سے پرہیز کیا جسے اللہ اور اس کے رسول نے اُخروی زندگی کے لیے تباہ کن بتایا تھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کی بندگی کا حق اپنی جان لڑا کر ادا کیا اور اس پر فخر کرنے کے بجاۓ استغفار ہی کرتے رہے۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کے بندوں کی خدمت ان پر احسان سمجھ کر نہیں بلکہ اپنا فرض اور ان کا حق سمجھ کر کی۔ اس مقام پر یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے اموال میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جسے شرعاً ان پر فرض کر دیا گیا ہے، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب استطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے اور اپنے دل کی رغبت سے اس کو ادا کرتا ہے بغیر اس کے کہ شریعت نے اسے لازم کیا ہو۔ ابن عباس، مجاہد اور زید بن اسلم وغیرہ بزرگوں نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے۔ در حقیقت اس ارشاد الٰہی کی اصل روح یہ ہے کہ ایک متقی و محسن انسان کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا کہ خدا اور اس کے بندوں کا جو حق میرے مال میں تھا، زکوٰۃ ادا کر کے میں اس سے بالکل سبکدوش ہو چکا ہوں، اب میں نے اس بات کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے لیا ہے کہ ہر ننگے، بھوکے، مصیبت زدہ آدمی کی مدد کرتا پھروں۔ اس کے بر عکس جو اللہ کا بندہ واقعی متقی و محسن ہوتا ہے وہ ہر وقت ہر اس بھلائی کے لیے جو اس کے بس میں ہو، دل و جان سے تیار رہتا ہے اور جو موقع بھی اسے دنیا میں کوئی نیک کام کرنے کے لیے ملے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس کے سوچنے کا یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جو نیکی مجھ پر فرض کی گئی تھی وہ میں کر چکا ہوں، اب مزید نیکی کیوں کروں؟ نیکی کی قدر جو شخص پہچان چکا ہو وہ اسے بار سمجھ کر برداشت نہیں کرتا بلکہ اپنے ہی نفع کا سودا سمجھ کر زیادہ سے زیادہ کمانے کا حریص ہو جاتا ہے |
Surah 70 : Ayat 25
لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ
سائل اور محروم کا ایک حق مقرر ہے1
1 | سورہ ذاریات آیت 19 میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے‘‘۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ ’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ مقرر حق سے مراد فرض زکوۃ ہے، کیونکہ اسی میں نصاب اور شرح، دونوں چیزیں مقرر کر دی گئی ہیں۔ لیکن یہ تفسیر اس بنا پر قابل قبول نہیں ہے کہ سورہ معارج بالاتفاق مکی ہے، اور زکوۃ ایک مخصوص نصاب ا ور شرح کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔ اس لیے مقرر حق کا صحیح مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک حصہ طے کر رکھا ہے جسے وہ ان کا حق سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ یہی حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، شعبی اور ابراہیم نخعی نے بیان کیے ہیں۔ سائل سے مراد پیشہ ور بھیک مانگنے والا نہیں بلکہ وہ حاجت مند شخص ہے جو کسی سے مدد مانگے۔ اور محروم سے مراد ایسا شخص ہے جو بے روز گار ہو، یا روزی کمانے کی کوشش کرتا ہو مگر ا س کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں، یا کسی حاد ثے یا آفت کا شکار ہو کر محتاج ہو گیا ہو، یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے متعلق جب معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی محروم ہیں تو ایک خدا پرست انسان اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ اس سے مدد مانگیں، بلکہ ان کی محرومی کا علم ہوتے ہی وہ خود آگے بڑھ کر ان کی مدد کرتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم، تفسیر سورہ ذاریات ، حاشیہ 17) |