Ayats Found (4)
Surah 23 : Ayat 1
قَدْ أَفْلَحَ ٱلْمُؤْمِنُونَ
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے1 جو2:
2 | یہاں سے آیت 9 تک ایمان لانے والوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ گویا دلیلیں ہیں اس دعوے کی کہ انہوں نے ایمان لا کر در حقیقت فلاح پائی ہے۔ بالفاظ دیگر گویا یوں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ آخر کیوں کر فلاح یاب نہ ہوں جن کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ ان اوصاف کے لوگ ناکام و نامراد کیسے ہو سکتے ہیں۔ کامیابی انہیں نصیب نہ ہو گی تو اور کنھیں ہو گی |
1 | ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت قبول کر لی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہو گۓ جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہو گیا، اس کی کو شش بار آور ہوئی۔ اس کی حالت اچھی ہو گئی۔ قَدْ اَفْلَحَ ’’یقیناً فلاح پائی ‘‘َ آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں ، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی ، جن کو دنیوی خوشحالی کے سرے لوازم میسر تھے۔اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے ، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے ، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کر دیا تھا۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ ’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے ‘‘ تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے ، تمہارے اندازے غلط ہیں ، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے ، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے در اصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے بڑے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔ یہی اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے |
Surah 23 : Ayat 4
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَوٲةِ فَـٰعِلُونَ
زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں1
1 | زکوٰۃ دینے ‘‘ اور ’’زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہونے ‘‘ میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے جسے نظر انداز کر کے دونوں کی ہم معنی سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہاں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے : یُؤْتُوْنَ الزَّ کٰوۃ کا معروف انداز چھوڑ کر لِزَّکوٰۃِ فَا عِلُوْنَ کا غیر معمولی طرز بیان اختیار کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک ’’ پاکیزگی‘‘۔ دوسرے ’’نشو و نما‘‘۔ کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں ان کو دور کرنا، اور اس کے اصل جوہر کو پروان چڑھانا، یہ دو تصورات مل کر زکوٰۃ کا پورا تصور بناتے ہیں۔ پھر یہ لفظ جب اسلامی اصطلاح بنتا ہے تو اس کا اطلاق دو معنوں پر ہو گا ہے۔ ایک وہ مال جو مقصد تزکیہ کے لیے نکالا جائے۔ دوسرے بجائے خود تزکیہ کا فعل۔ اگر : یُؤْتُوْ نَالزَّکوٰۃَ کہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ تزکیہ کی غرض سے اپنے مال کا ایک حصہ دیتے یا ادا کرتے ہیں۔ اس طرح بات صرف مال دینے تک محدود ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر لِلزَّ کوٰۃِ فَاعِلُوْنَ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تزکیہ کا فعل کرتے ہیں ، ور اس صورت میں بات صرف مالی زکوٰۃ ادا کرنے تک محدود نہ رہے گی بلکہ تزکیہ نفس ، تزکیہ اخلاق ، تزکیہ زندگی ، تزکیہ مال، غرض ہر پہلو کے تزکیے تک وسیع ہو جائے گی۔ اور مزید براں ، اس کا مطلب صرف اپنی ہی زندگی کے تزکیے تک محدود نہ رہے گا بلکہ اپنے گردو پیش کی زندگی کے تزکیے تک بھی پھیل جائے گا۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہو گا کہ ’’ وہ تزکیے کا کام کرنے والے لوگ ہیں ‘‘ ، یعنی اپنے آپ کو بھی پاک کرتے ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں ، اپنے اندر بھی جو ہر انسانیت کو نشو و نما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں بھی اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورہ اعلیٰ میں فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّیٰ ہ وَذَکَرَاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّیٰ O ’’ فلاح پائی اس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھی ‘‘۔ اور سورہ شمس میں فرمایا : قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ہ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا O ’’ با مراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا ‘‘۔ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے ، کیونکہ وہ صرف اپنے نجس کے تزکیے پرزور دیتی ہیں ، اور یہ بجائے خود فعل تزکیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی، دونوں ہی کے تزکیے پر حاوی ہے |
Surah 31 : Ayat 1
الٓمٓ
الم
Surah 31 : Ayat 4
ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَهُم بِٱلْأَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں1
1 | یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو’’ نیکو کار‘‘ کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ دراصل پہلے’’نیکو کار‘‘ کا عام لفظ اِستعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ اُن تمام بُرائیوں سے رُکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے، اور اُن سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے۔ پھر اُن’’نیکو کار‘‘ لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصُود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار اِن ہی تین چیزوں پر ہے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، جس سے ایثاروقربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب اُبھرتی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے، جس کی بدولت وہ اُس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھُوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہو جاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اوراپنی ساری کار گزاریوں پر اپنےآقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ اِن تینوں خصوصیات کی وجہ یہ’’نیکوکار‘‘اُس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اِتفاقاً نیکی سرزد ہو جاتی ہے اور بدی بھی اُسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات اُن کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر واخلا ق پیدا کر دیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو اُن کے نظامِ فکر واخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔ |