Ayats Found (1)
Surah 30 : Ayat 39
وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِىٓ أَمْوَٲلِ ٱلنَّاسِ فَلَا يَرْبُواْ عِندَ ٱللَّهِۖ وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن زَكَوٲةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُضْعِفُونَ
جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا1، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں2
2 | اس بڑھوتری کےلیے کوئی حدمقررنہیں ہے۔جتنی خالص نیت اورجتنےگہرے جذبہٴ ایثاراورجس قدرشدیدطلب رضائے الٰہی کےساتھ کوئی شخص راہِ خدامیں مال صرف کرےگااسی قدراللہ تعالٰی اس کا زیادہ سےزیادہ اجردےگا۔چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیاہےکہ اگرایک شخص راہِ خدامیں ایک کھجوربھی دےتواللہ تعالٰی اس کوبڑھاکراُحدپہاڑکےبرابرکردیتاہے۔ |
1 | قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہےجوسود کی مذمت میں نازل ہوئی۔اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ توسود یہ سمجھتے ہوئےدیتے ہوکہ جس کوہم یہ زائدمال دےرہےہیں اس کی دولت بڑھےگی،لیکن درحقیقت اللہ کےنزدیک سود سےدولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سےہوتی ہے۔آگےچل کرجب مدینہ طیبہ میں سود کی حرمت کاحکم نازل کیاگیا تواس پرمزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ یَمحَقُ اللہُ الّرِبٰووَ یُربِی الصَّدَقٰتِ،’’اللہ سود کامَٹھ ماردیتاہےاورصدقات کونشوونمادیتاہے‘‘۔(بعد کےاحکام کےلیےملاحظہ ہوآل عمران،آیت ۱۳۰۔البقرہ،آیت ۷۵ تا۲۸۱)۔اس آیت کی تفسیرمیں مفسرین کےدواقوال ہیں۔ایک گروہ کہتا ہےکہ یہاں ربٰوسےمرادوہ سود نہیں ہےجوشرعًاحرام کیاگیا ہے،بلکہ وہ عطیہ یاہدیہ وتحفہ ہےجواِس نیت سےدیاجائے کہ لینے والا بعد میں اس سےزیادہ واپس کرےگا،یامُعطی کےلیےکوئی مفید خدمت انجام دےگا،یااس کاخوشحال ہوجانامعطی کی اپنی ذات کےلیےنافع ہوگا۔یہ ابنِ عباسؓ،مجاہدؓ،ضحاکؓ،قتادہ،عِکرِمَہ،محمدبن کَعُب القَرظِی اورشعبِی کاقول ہے۔اورغالبًایہ تفسیراِن حضرات نےاس بناپرفرمائی ہےکہ آیت میں اِس فعل کانتیجہ صرف اتناہی بتایاگیاہےکہ اللہ کےہاں اس دولت کوکوئی افزائش نصیب نہ ہوگی،حالانکہ اگرمعاملہ اُس سود کاہوتاجسےشریعت نےحرام کیاہےتومثبت طورپرفرمایاجاتا کہ اللہ کے ہاں اس پرسخت عذاب دیاجائےگا۔دوسراگروہ کہتاہےکہ نہیں اس سےمراد وہی معروف ربٰوہےجسےشریعت نےحرام کیا ہے۔یہ رائےحضرت حسن بصری اورسُدّی کی ہےاورعلامہ آلوسی کاخیال ہےکہ آیت کاظاہری مفہوم یہی ہے،کیونکہ عربی زبان میں ربٰوکالفظ اسی معنی کےلیےاستعمال ہوتاہے۔اسی تاویل کومفسرنیسابوری نےبھی اختیارکیاہے۔ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیرصحیح ہے،اس لیےکہ معروف معنی کوچھوڑنے کےلیےوہ دلیل کافی نہیں ہےجواوپرتفسیرِاول کےحق میں بیان ہوئی ہے۔سورہ روم کانزول جس زمانے میں ہوا ہےاُس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کااعلان نہیں ہواتھا۔یہ اعلان اس کےکئی برس بعد ہُواہے۔قرآن مجید کاطریقہ یہ ہےکہ جس چیزکوبعدمیں کسی وقت حرام کرناہوتاہے،اس کےلیےوہ پہلےسےذہنوں کوتیارکرناشروع کردیتاہے۔شراب کےمعاملے میں بھی پہلےصرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے(النحل آیت ۶۷)پھرفرمایاکہ اس کاگناہ اس کےفائدےسےزیادہ ہے(البقرہ ۲۱۹)،پھرحکم دیاگیا کہ نشےکی حالت میں نمازکےقریب نہ جاؤ(النساء ۴۳)،پھراس کی قطعی حرمت کافیصلہ کردیاگیا۔اسی طرح یہاں سود کےمتعلق صرف اتنا کہنےپراکتفاکیاگیاہےکہ یہ وہ چیزنہیں ہےجس سےدولت کی افزائش ہوتی ہو،بلکہ حقیقی افزائش زکٰوۃ سے ہوتی ہے۔اس کےبعد سود درسودکومنع کیاگیا(آل عمران،آیت ۱۳۰)۔اورسب سےآخرمیں بجائےخود سود ہی کی قطعی حرمت کافیصلہ کردیاگیا(البقرہ،آیت ۵)۔ |