Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 43
وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَٱرْكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٲكِعِينَ
نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو1 اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ
1 | نماز اور زکوٰۃ ہر زمانے میں دین اسلام کے اہم ترین ارکان رہے ہیں۔ تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت تاکید کی تھی۔ مگر یہودی ان سے غافل ہو چکے تھے۔ نماز با جماعت کا نظام ان کے ہاں تقریباً بالکل درہم برہم ہو چکا تھا۔ قوم کی اکثریت انفرادی نماز کی بھی تارک ہو چکی تھی، اور زکوٰۃ دینے کے بجائے یہ لوگ سُود کھانے لگے تھے |
Surah 2 : Ayat 83
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلاً مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سو ا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھر ے ہوئے ہو
Surah 2 : Ayat 110
وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَۚ وَمَا تُقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے
Surah 22 : Ayat 78
وَجَـٰهِدُواْ فِى ٱللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِۦۚ هُوَ ٱجْتَبَـٰكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَجٍۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَٲهِيمَۚ هُوَ سَمَّـٰكُمُ ٱلْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِى هَـٰذَا لِيَكُونَ ٱلرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِۚ فَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَٱعْتَصِمُواْ بِٱللَّهِ هُوَ مَوْلَـٰكُمْۖ فَنِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ
اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے1 اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے2 اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی3 قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر4 اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام 5"مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ6 پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ7 وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار
7 | یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ہدایت اور قانون زندگی بھی اسی سے لو، اطاعت بھی اسی کی کرو ، خوف بھی اسی کا رکھو، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو، مدد کے لیے بھی اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ |
6 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 144۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اس مضمون پر ہم نے اپنے رسالہ ’’ شہادت حق‘‘ میں روشنی ڈالی ہے |
5 | ’’تمہارا‘‘ کا خطاب مخصوص طور پر صرف ان ہی اہل یمان کی طرف نہیں ہے جوق اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے ، یا اس کے بعد اہل ایمان کی صف میں داخل ہوئے، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغاز تاریخ انسانی سے توحید، آخرت ، رسالت اور کتب الہٰی کے ماننے والے رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس ملت حق کے ماننے والے پہلے بھی ’’ نوحی‘‘، ’’ ابراہیمی‘‘ ،‘‘موسوی‘‘،’’مسیحی‘‘ وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ انکا نام ’’ مسلم‘‘ (اللہ کے تابع فرمان ) تھا ، اور آج بھی وہ ’’محمدی‘‘ نہیں بلکہ ’’ مسلم‘‘ ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معما بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروؤں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا |
4 | اگرچہ سلام کو ملت نوح ، موسیٰ ، ملت عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملت ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملت ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسوخ و اثر رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان ، مشرکین عرب ، اور شرق اوسط کے صابئ، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملتوں کی پیدائش سے پہلے گزرے ہیں۔ یہودیت ، عیسائیت اور صائبیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکین عرب ، تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بت پرستی کا رواج عمر و بن لُحَیّ سے شروع ہوا جو بنی خزاعہ کا سردار تھا اور مَآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ ملت بھی حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کے بجائے ملت ابراہیمؑ کو اختیار کرو، تو وہ در اصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم بر حق اور بر سر ہدایت تھے ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے ، تو لامحالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہے نہ کہ یہ بعد کی ملتیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اسی ملت کی طرف ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرہ ، حواشی 134۔ 135۔ آل عمران، حواشی 58۔ 79۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ 120 |
3 | یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دی گیا ہے جو پچھلی امتوں کے فقیہوں اور فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ ایک سادہ اور سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ : یَأ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُ وْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِالْمُنْکَرِوَیْحِلَّ لَہُمْ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْ ھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْ لٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ، ’’ یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کو حکم دیتا ہے ، اور ان برائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرت انسانی انکار کرتی ہے ، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ‘‘ (اعراف۔آیت 157) |
2 | یعنی تمام نوع انسانی میں سے تم لوگ اس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گۓ ہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔مثلاً سورہ بقرہ میں فرمایا : جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً (آیت 143)۔ اور سورہ آل عمران میں فرمایا :کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اخْرِجَتْ لِنَّاسِ (آیت 110)۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور ان لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خطاب بالتبع پہنچتا ہے |
1 | جہاد سے مراد محض’’قتال‘‘(جنگ) نہیں ہے ، بلکہ یہ لفظ جد و جہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدو جہد مطلوب ہے۔ اور اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی میں ، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں ، اور جدو جہد کا مقصود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے کے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اولین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجادہے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قد متم خیر مقدم من الجھاد الصغر الی الجھاد الاکبر۔ ’’ تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگۓہو‘‘۔ عرض کیا گیا وہ بڑا جہاد کیا ہے َ فرمایا مجاھدۃ العبد ھواہ۔ ’’ آدمی کی خود اپنی خواہش نفس کے خلاف جد و جہد ‘‘۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے |
Surah 24 : Ayat 56
وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رسولؐ کی اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا
Surah 58 : Ayat 13
ءَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُواْ بَيْنَ يَدَىْ نَجْوَٮٰكُمْ صَدَقَـٰتٍۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُواْ وَتَابَ ٱللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥۚ وَٱللَّهُ خَبِيرُۢ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم ڈر گئے اس بات سے کہ تخلیہ میں گفتگو کرنے سے پہلے تمہیں صدقات دینے ہونگے؟ اچھا، اگر تم ایسا نہ کرو اور اللہ نے تم کو اس سے معاف کر دیا تو نماز قائم کرتے رہو، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے1
1 | یہ دوسرا حکم اوپر کے حکم کے ٹھوڑی مدت بعد ہی نازل ہو گیا اور اس نے صدقہ کے وجوب کو منسوخ کر دیا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ صدقہ کا یہ حکم کتنی دیر رہا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ایک دن سے بھی کم مدت تک باقی رہا پھر منسوخ کر دیا گیا۔ مقاتل بن حیّان کہتے ہیں دس دن تک رہا۔ یہ زیادہ سے زیادہ اس حکم کے بقا کی مدت ہے جو کسی روایت میں بیان ہوئی ہ |
Surah 73 : Ayat 20
۞ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَىِ ٱلَّيْلِ وَنِصْفَهُۥ وَثُلُثَهُۥ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ مَعَكَۚ وَٱللَّهُ يُقَدِّرُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنَ ٱلْقُرْءَانِۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰۙ وَءَاخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِى ٱلْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِۙ وَءَاخَرُونَ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنْهُۚ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَقْرِضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًاۚ وَمَا تُقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًاۚ وَٱسْتَغْفِرُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُۢ
اے نبیؐ1، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو2، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے3 اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو4 اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہونگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں5، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں6 پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جا سکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو7 اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو 8جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے 9اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے
9 | مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ایکم ما لہ احب الیہ من مال وارثہ؟ ’’تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے‘‘؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ فرمایا اعلموا ما تقولون۔ ’’سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: انما مال احدکم ما قدم و مال وارثہ ما اخر۔ ’’ تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے‘‘۔ (بخاری۔ نسائی۔ مسند ابو یعلیٰ) |
8 | ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، یا بندگان خدا کی مدد ہو، یا رفاہ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ا ول، البقرہ، حاشیہ 267 ۔ المائدہ، حاشیہ 33۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ 16 |
7 | مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوۃ ادا کرنا ہے |
6 | یہاں اللہ تعالی نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ ان دونوں کاموں کو نماز تہجد سے معافی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ما من جالب یجلب طعاماً الی بلد من بلد ان ان المسلمین فیبیعہ لسعر یومیہ الا کانت منزلتہ عند اللہ ثم قرا سول اللہ صلی علیہ وسلم و اخرون یضربون فی الارض ۔ ۔ ۔ ’’جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس روز کے بھاؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہو گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہی آیت پڑھی‘‘ (ابن مردویہ) حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احب الی من ان یا تینی و انا بین شعبتی جبل التمس من فضل اللہ و قرا ھذہ الایۃ ’’جہاد فی سبیل اللہ کے بغد اگر کسی حالت م یں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے ، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی ‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان) |
5 | جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے |
4 | چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرات ہی سے ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا تہجد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگرچہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجد فرض نہیں ، بلکہ نفل ہے، حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا ، کیا اس کے سوا بھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے؟ جواب میں ارشاد ہوا ’’نہیں ، الا کہ تم ا پنی خوشی سے کچھ پڑھو‘‘۔ (بخاری و مسلم) اس آشت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قرات بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قرات کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت، جسم کا پاک ہونا، وضو کرنا، اور ستر چھپانا واجب ن ہیں ہے اور اس میں قیام و قعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں |
3 | ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی کو خطاب کیا گیا تھا۔ اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اس وقت حضورؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر ا کثر صحابہ کرام بھی اس نماز کا اہتمام کرتے تھے |
2 | اگرچہ ابتدائی حکم آدمی رات یا اس سے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں۔ اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ا یک تہائی رہ جاتی تھی |
1 | یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں، حضرت عائشہؓ سے مسند احمد، مسلم ا ور ابو داؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہؓ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے8 مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے کی مدت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے (ابن جریر و ابن ابی حاتم) ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضورؐ کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ ان دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے |
Surah 33 : Ayat 33
وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰۖ وَأَقِمْنَ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتِينَ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَطِعْنَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۚۥٓ إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجْسَ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو1 اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو2 نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے3
3 | جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مُراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ہیں۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی یَا نِساءالنبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں۔ علاوہ بریں ’’اہل البیت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’گھر والوں‘‘ کا لفظ بولتے ہیں، اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے، دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے ’’اہل خانہ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل، بلکہ مقدم ہے۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سُن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رِحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟اِس گھر کے لوگو، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں۔‘‘سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انّا کی تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰؑ کی بہن جا کر کہتی ہیں ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰٓاَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْ نَہٗ لَکُمْ۔ ’’ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمّہ لیں‘‘؟ پس محاورہ، اور قرآن کے استعمالات، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق، ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ بنی صلی اللہ و سلم کے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ سے اس میں شامل قرار پاتی ہے۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ’’اہل البیت‘‘ کا لفظ صرف ازواج کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس میں دوسرا کوئی داخل نہیں ہو سکتا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ صرف یہی نہیں کہ ’’گھر والوں‘‘ کے لفظ میں آدمی کے سب اہل و عیال شامل ہوتے ہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصریح فرمائی ہے کہ وہ بھی شامل ہیں۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: تساءلنی عن رجل کان من احبّ الناس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وکانت تحتہ ابنتۃ واحبّ الناس الیہ۔ ’’تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضورؐ کی وہ بیٹی تھی جو آپؐ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔‘‘ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے یہ واقعہ سُنایا کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ اور فاطمہؓاور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دُعا فرمائی اللھمّ ھٰؤلاء اھلُ بیتی فاَذْھِبْ عنھُمالرّ جس و طھّر ھم تطھیراً۔خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے گندگی کو دور کردے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمائے)۔ حضورؐ نے فرمایا،’’ تم الگ رہو، تم تو ہو ہی۔‘‘اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم، ترمذی۔ احمد،ابن جَریر، حاکم، بیہقی وغیرہ محدّثین نے انو سعید خُدریؓ ، حضرت اَنَس ؓ، حضرت اُمِّ سلمہؓ، حضرت واثِلہ بن اَسْقَع اور بعض دوسرے صحابہ ؓسے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا۔ لہٰذا اُن لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھہراتے ہیں۔ اِسی طرح ان لوگوں کی رائے بھی غلط ہے جو مذکورۂ بالا احادیث کی بنیاد پر ازواج مطہرات کو اہل البیت سے خارج ٹھیراتے ہیں۔ اول تو جو چیز صراحتہً قرآن سے ثابت ہو اس کو کسی حدیث کے بل پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے‘ خود ان احادیث کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو ان سے نکالا جا رہا ہے۔ ان میں سے بعض روایت میں جو یہ بات آئی یہ کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ا مّ سلمہ ؓ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضورؐ نے ان چاروں اصحابؓ کو لیا تھا‘ اُس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضورؐ نے ان کو اپنے ’’گھر والوں‘‘ سے خارج قرار دیا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی‘ کیونکہ قرآن نے انہی کو مخاطب کیا تھا‘ لیکن حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں، اس لیے آپؐ نے تصریح کی ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی نہ کہ ازواجِ مطہّرات کے حق میں۔ ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہّرات کو ’’اہل البیت‘‘ سے خارج کر کے صرف حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کر دیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھی کیا ہے کہ اس کے الفاظ ’’اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے‘‘ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’گندگی‘‘ سے مراد خطا اور گناہ ہے اور ارشادِ اِلٰہی کی رو سے یہ اہل البیت اس سے پاک کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کر دی گئی اور تم بالکل پاک کر دیے گئے۔ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دُور کرنا اور تمہیں پاک کر دینا چاہتا ہے۔ سیاق و سباق بھی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں مناقبِ اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں، بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظِ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہّ اختیار کرو گے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہو گی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر یُرِیْدُ اللّٰہ ُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ .........وَیُطَھَّرَکُمْ تَطْھِیْراً کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کر دیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو اور غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیوں کہ ان کی متعلق بھی اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَ کُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ۔’’مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پرتمام کر دے‘‘ (المائدہ۔آیت ۶) |
2 | اس آیت میں دو اہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا سمجھنا آیت کے منشا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایکََتَبُّرج‘ دوسرے جاہلیت اولیٰ۔ تَبَرُّج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے‘ ابھرنے اور کھُل کر سامنے آنے کے ہیں۔ ہر ظاہر اور مرتفع چیز کے لیے عرب لفظ ’’بَرَ ج‘‘ استعمال کرتے ہیں ’’بُرج‘‘ کو ’’بُرج اس کے ظہور و ارتفاع کی بنا پر ہی کہا جاتا ہے۔ بادبانی کشتی کے لیے ’’بارجہ‘‘ کا لفظ اسی لیے بولا جاتا ہے کہ اس کے بادبان دور سے نمایاں ہوتے ہیں۔ عورت کے لیے جب لفظ تَبَرُّج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہونگے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حُسن لوگوں کو دکھائے، دوسرے یہ کہ وہ اپنے لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چَٹک مَٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے۔ یہی تشریح اس لفظ کی اکابر اہلِ لُغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے۔ مجاہد، قَتَادہ اور ابن انی نُجَیح کہتے ہیں : التبُّرج المشی بتبختُرو تکسر و تفنج ’’تبرُّج کے معنی ہیں نازو ادا کے ساتھ لچکے کھاتے اور اِٹھلاتے ہوئے چلنا‘‘ مُقاتل کہتے ہیں : ابد أ قلائد ھا و قرطھا و عنقھا ’’عورت کا اپنے ہار اور اپنے بُندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا‘‘۔ المبّرد کا قول ہے : ان تبدی من محاسنھاما یجب علیھا سترہٗ ’’ یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کر دے جن کو اسے چھپانا چاہیے۔‘‘ ابو عبیدہ کی تفسیر ہے : ان تُخرج من محا سنھا ما تستدھی بہٖ شہوۃ الرّجَال۔’’یہ کہ عورت اپنے جسم لباس کے حسب کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو‘‘۔ جاہلیّت کا لفظ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ تین جگہ اور استعمال ہوا ہے۔ ایک، آل عمران کی آیت ۱۵۴ میں، جہاں اللہ کی راہ میں لڑنے سے جی چُرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ ’’اللہ کے بارے میں حق کے خلاف جاہلیّت کے سے گمان رکھتے ہیں۔‘‘دوسرے سُورۂ مائدہ، آیت ۵۰ میں، جہاں خدا کے قانون کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ’’کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔‘‘ تیسرے سُورۂ فتح، آیت ۲۶ میں، جہاں کفّار مکہّ کے اِس فعل کو ’’حمیت جاہلیہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں نے محض تعصّب کی بنا پر مسلمانوں کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو الدرداء نے کسی سے جھگڑا کرتے ہوئے اس کو ماں کی گالی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سُنا تو فرمایا’’تم میں ابھی تک جاہلیت موجود ہے‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’تین کام جاہلیّت کے ہیں۔ دوسروں کے نسب پر طعن کرنا، ستاروں کی گردش سے فال لینا، اور مُردوں پر نوحہ کرنا‘‘۔ ان تمام استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جا ہلیّت سے مُراد اسلام کی اصطلاح میں ہر وہ طرزِ عمل ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو۔ اور جاہلیّت اولیٰ کا مطلب وہ بُرائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اور دنیا بھر کے دوسرے لوگ مبتلا تھے۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی جس طرزِ عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے وہ ان کا اپنے حسن کی نمائش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو، کیوں کہ تمہارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر۔ لیکن اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس شان کے ساتھ نہ نکلو جس کے ساتھ سابق دَورِ جاہلیت میں عورتیں نکلا کرتی تھیں۔ بن ٹھن کر نکلنا، چہرے اور جسم کے حُسن کو زیب و زینت اور چُست لباسوں یا عُریاں لباسوں سے نمایاں کرنا، اور ناز وادا سے چلنا ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے۔ اب یہ بات ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو ثقافت ہمارے ہاں رائج کی جا رہی ہے وہ قرآن کی رو سے اسلام کی ثقافت ہے یا جاہلیت کی ثقافت۔ البتہ اگر کوئی اور قرآن ہمارے کار فرماؤں کے پاس آگیا ہے جس سے اسلام کی یہ نئی رُوح نِکال کر مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہے تو بات دوسری ہے۔ |
1 | اصل میں لفظ قَرْنَ استعمال ہوا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اس کو ’’قرار‘‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے ’’وقار‘‘ سے۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو معنی ہوں گے ’’قرار پکڑو‘‘۔ ’’ ٹِک رہو‘‘۔اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا ’’سکون سے رہو‘‘، ’’ چین سے بیٹھو‘‘۔ دونوں صورتوں میں آیت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے، اُس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہییں، اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔ یہ منشا خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ حافظ ابو بکر بَزّار حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لُوٹ لے گئے، وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مِل سکے؟ جواب میں فرمایا من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دِل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو، اس کے بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو، اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گُل کھِلا بیٹھے گی۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصّہ دار ہو گی۔ ایک اور روایت جو بزّار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ انّ المرأۃ عورۃ فاذ اخرجت استشرفھا الشیطان و اقرب ما تکون بروحۃ ربھاوھی فی قعربیتھا۔’’عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ نِکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہو‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور ، حاشیہ ۴۹) قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں، بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دَوڑتی پھریں، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں، مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں، ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ’’مسافرنوازی‘‘ کے لیے استعمال کی جائیں، اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں عورت کے بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے جنگِ جَمَل میں حصّہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ز وائدالزھد میں، اور ابن المُنذِر، ابن ابی شَیْبَہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مَسْروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اِس آیت (وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ)پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹّہ بھیگ جاتا تھا، کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو اُن سے جنگ جَمَل میں ہوئی تھی۔ |