Ayats Found (1)
Surah 2 : Ayat 222
وَيَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْمَحِيضِۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَٱعْتَزِلُواْ ٱلنِّسَآءَ فِى ٱلْمَحِيضِۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ ٱللَّهُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٲبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ
پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے1 اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں2 پھر جب وہ پاک ہو جائیں، تو اُن کے پاس جاؤ اُس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے3 اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں
3 | یہاں حکم سے مراد حکم ِ شرعی نہیں ہے، بلکہ وہ فطری حکم مراد ہے، جو انسان اور حیوان ، سب کی جبلّت میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور جس سے ہر متنفس بالطبع واقف ہے |
2 | قرآن مجید اس قسم کے معاملات کو استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے ۔ اس لیے اس نے ”الگ رہو“ اور ”قریب نہ جا ؤ “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ ایک فرش پر بیٹھنے یا ایک جگہ کھانا کھانے سے بھی احتراز کیا جائے اور اسے بالکل اچھُوت بنا کر رکھ دیا جائے، جیسا کہ یہُود اور ہنُود اور بعض دُوسری قوموں کا دستور ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی جو توضیح فرما دی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں صرف فعلِ مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے، باقی تمام تعلقات بدستور برقرار رکھے جائیں |
1 | اصل میں اَذ یٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی گندگی کے بھی ہیں اور بیماری کے بھی۔ حیض صرف ایک گندگی ہی نہیں ہے ، بلکہ طبی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے ، جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے |