Ayats Found (1)
Surah 25 : Ayat 70
إِلَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَـٰلِحًا فَأُوْلَـٰٓئِكَ يُبَدِّلُ ٱللَّهُ سَيِّـَٔـاتِهِمْ حَسَنَـٰتٍۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اِلّا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو 1ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا2 اور وہ بڑا غفور رحیم ہے
2 | اس کے دو مطلب ہیں ۔ایک یہ کہ جب وہ توبہ کر لیں گے تو کفر کی زندگی میں جو برے افعال وہ پہلے کیا کرتے تھے ان کی جگہ اب طاعت اور ایمان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نیک افعال کرنے لگیں گے اور تمام برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی۔ دوسرے یہ کہ توبہ کے نتیجہ میں صرف اتنا ہی نہ ہو گا کہ ان کے ماہ اعمال سے وہ تمام قصور کاٹ دیے جائیں گے جو انہوں نے کفر وہ گناہ کی زندگی میں کیے تھے ، بلکہ ان کی جگہ ہر ایک کے نامہ اعمال میں یہ نیکی لکھ دی جائے گی کہ یہ وہ بندہ ہے جس نے بغاوت اور نافرمانی کو چھوڑ کر طاعت و فرمانبرداری اختیار کر لی۔ پھر جتنی بار بھی وہ اپنی سابقہ زندگی کے برے اعمال کو یاد کر کے نادم ہو گا اور اس نے اپنے خدا سے استغفار کیا ہو گا ۔ اس کے حساب میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دی جائیں گی، کیونکہ خطا پر شرمسار ہونا اور معافی مانگنا بجائے خود ایک نیکی ہے ۔ اس طرح اس کے نامہ اعمال میں تمام پچھلی برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی ور اس کا انجام صرف سزا سے بچ جانے تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ وہ الٹا انعامات سے سرفراز ہو گا |
1 | یہ بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنے اصلاح پر آمادہ ہوں ۔ یہی عام معافی (General Amnesty) کا اعلان تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں افراد کو سہارا دے کر مستقل بگاڑ سے بچا لیا ۔ اسی نے ان کو امید کی روشنی دکھائی اور اصلاح حال پر آمادہ کیا۔ ورنہ اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ جو گناہ تم کر چکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح نہیں بچ سکتے ، تو یہ انہیں مایوس کر کے ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھسا دیتا اور کبھی ان کی اصلاح نہ ہو سکتی ۔ مجرم انسان کو صرف معافی کی امید ہی جرم کے چکر سے نکال سکتی ہے ۔ مایوس ہو کر وہ ابلیس بن جاتا ہے ۔ توبہ کی اس نعمت نے عرب کے بگڑے ہوئے لوگوں کو کس طرح سنبھالا ، اس کا اندازہ ان بہت سے واقعات سے ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پیش آئے ۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ ہو جسے ابن جریر اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک روز میں مسجد نبوی سے عشا کی نماز پڑھ کر پلٹا تو دیکھا کہ ایک عورت میرے دروازے پر کھڑی ہے ۔ میں اس کو سلام کر کے اپنے حجرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کر کے نوافل پڑھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور پوچھا کیا چاہتی ہے ؟ وہ کہنے لگی میں آپ سے ایک سوال کرنے آئی ہوں ۔ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوا۔ ناجائز حمل ہوا۔ بچہ پیدا ہوا تو میں نے اسے مار ڈالا۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ میرا گناہ معاف ہونے کی بھی کوئی صورت ہے ؟ میں نے کہا ہر گز نہیں ۔ وہ بڑی حسرت کے ساتھ آہیں بھرتی ہوئی واپس چلی گئی ، اور کہنے لگی ’’افسوس، یہ حسن آگ کے لیے پیدا ہوا تھا‘‘۔ صبح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھ کر جب میں فارغ ہوا تو میں نے حضورؐ کو رات کا قصہ سنایا۔ آپ نے فرمایا، بڑا غلط جواب دیا ابو ہریرہ تم نے ، کیا یہ آیت قرآن میں تم نے نہیں پڑھی : وَالَّذِیْنَ لَا یَدْ عُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ ..........اِلّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمَلاً صَالِحاً ؟ حضور کا یہ جواب سن کر میں نکلا اور اس عورت کو تلاش کرنا شروع کیا۔ رات کو عشا ہی کے وقت وہ ملی ۔ میں نے اسے بشارت دی اور بتایا کہ سرکار رسالت مآبؐ نے تیرے سوال کا یہ جواب دیا ہے ۔ وہ سنتے ہیں سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی شکر ہے اس خدائے پاک کا جس نے میرے لیے معافی کا دروازہ کھولا ۔ پھر اس نے گناہ سے توبہ کی اور اپنی لونڈی کو اس کے بیٹے سمیت آزاد کر دیا۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ احادیث میں ایک بڈھے کا آیا ہے جس نے آ کر حضورؐ سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ، ساری زندگی گناہوں میں گزری ہے ۔ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا ارتکاب نہ کر چکا ہوں ۔ اپنے گناہ تمام روئے زمین کے باشندوں پر بھی تقسیم کر دوں تو سب کے لے ڈوبیں ۔کیا اب بھی میری معافی کی کوئی صورت ہے ؟ فرمایا کیا تو نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ اس نے عرض کیا میں گواہی دیتا ہو ں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ۔ فرمایا جا، اللہ معاف کرنے والا اور تیری برائیوں کو بھلائی سے بدل دینے والا ہے ۔ اس نے عرض کیا میرے سارے جرم اورقصور؟ فرمایا ہاں ، تیرے سارے جرم اور قصور (ابن کثیر، بحوالہ ابن ابی حاتم) |