Ayats Found (5)
Surah 23 : Ayat 8
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَـٰنَـٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٲعُونَ
اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں1
1 | امانات‘‘ کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے جو خداوند عالم نے ،یا معاشرے نے ، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان، یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گۓ ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا، اور کبھی اپنے قول و قرار سے نہ پھرے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے : لا ایمان لمن لا امانۃ لہٗ ولا دین لمن لا عھد لہٗ ’’ جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا ، اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان)۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ چار خصلتیں ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب عہد کرے تو توڑ دے۔ اور جب کسی سے جھگڑے تو (اخلاق و دیانت کی ) ساری حدیں پھاند جائے |
Surah 23 : Ayat 10
أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْوَٲرِثُونَ
یہی لوگ وہ وارث ہیں
Surah 23 : Ayat 11
ٱلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو میراث میں فردوس1 پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے2
2 | ان آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں : اول یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں گے اور اس رویے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے ، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم ، نسل یا ملک کے ہوں۔ دوم یہ کہ فلاح محض اقرار ایمان، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے ، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لے ، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا۔ سوم یہ کہ فلاح محض دنیوی اور مادی خوش حالی اور محدود وقتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالت خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر رہتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوش حالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں ، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیض ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ چہارم یہ کہ مومنین کے ان اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متن کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلہ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغاز میں تجربی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ اس نبی کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں ، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ اس اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے بر حق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں ، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کش مکش آج نئی نہیں ہے بلکہ انہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کش مکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون |
1 | فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشرک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پَردِیْشَا ، قدیم کلدانی زبان میں پردیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا ،عبرانی میں پردیس، ارضی میں پردیز ، سُریانی میں فردیسو، یونانی میں پارا دئسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے یے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل،خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے ، جیسا کہ سورہ کہف میں ارشد ہوا : کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً ، ’’ ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں ‘‘۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کے وارث فردوس ہونے پر سورہ طٰہٰ (حاشیہ 83 ) ، اور سورہ انبیاء (حاشیہ 99 میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے |
Surah 70 : Ayat 32
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَـٰنَـٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٲعُونَ
جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں1
1 | امانتوں سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں جو اللہ تعالٰی نے بندوں کے سپرد کی ہیں اور وہ امانتیں بھی جو انسان کسی دوسرے انسان پر اعتماد کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ اسی طرح عہد سے مراد وہ عہد بھی ہیں جو بندہ اپنے خدا سے کرتا ہے، اوروہ عہد بھی جو بندے ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کی امانتوں اور دونوں قسم کے عہد و پیمان کا پاس و لحاظ ایک مومن کی سیرت کے لازمی خصائص میں سے ہے۔ حدیث میں حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے سامنے جو تقریر بھی فرماتے اس میں یہ بات ضرور ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ الا، لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھد لہ۔ ’’خبر دار رہو، جس میں امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں، اور جو عہد کا پابند نہیں اس کا کوئی دین ہیں‘‘۔ (بہقی فی شعب الایمان) |
Surah 70 : Ayat 35
أُوْلَـٰٓئِكَ فِى جَنَّـٰتٍ مُّكْرَمُونَ
یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے