Ayats Found (1)
Surah 66 : Ayat 8
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ تُوبُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّـَٔـاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ يَوْمَ لَا يُخْزِى ٱللَّهُ ٱلنَّبِىَّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَـٰنِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَٱغْفِرْ لَنَآۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ1، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں2 گی یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور اُن لوگوں جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے3 گا اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے4
4 | اس آیت کو سورہ حدید کی آیات 12۔13 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کے آگے آگے نور کے دوڑنے کی یہ کیفیت اس وقت پیش آئے گی جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف جا رہے ہوں گے۔ وہاں ہر طرف گھپ اندھیرا ہو گا جس میں وہ سب لوگ ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے جن کے حق میں دوزح کا فیصلہ ہو گا، اور روشنی صرف اہل ایمان کے ساتھ ہو گی جس کے سہارے وہ ا پنا راستہ طے کر رہے ہوں گے۔ اس نازک موقع پر تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگوں کی آہ فغاں سن سن کر اہل ایمان پر خشیت کی کیفیت طاری ہو رہی ہو گی، اپنے قصوروں اور اپنی کوتاہیوں کا احساس کر کے انہیں اندیشہ لاحق ہو گا کہ کہیں ہمارا نور بھی نہ چھن جائے اور ہم ان بدبختوں کی طرح ٹھوکریں کھاتے نہ رہ جائیں۔ اس لیے وہ دعا کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے قصور معاف فرما دے اور ہمارے نور کو جنت میں پہنچنے تک ہمارے لیے باقی رکھ۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ : ’’ربنا انتم لنا نورنا ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ: ’’وہ اللہ تعالٰی سے دعا کریں گے کہ ان کا نور اس وقت تک باقی رکھا جائے اور اسے بجھنے نہ دیا جائے جب تک وہ پل صراط سے بخریت نہ گزر جائیں‘‘۔ حضرت حسن بصری اور مجاہد اور ضحاک کی تفسیر بھی قریب قریب یہی ہے۔ ابن کثیر نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے ’’اہل ایمان جب دیکھیں گے کہ منافقین نور سے محروم رہ گئے ہیں تو وہ اپنے حق میں اللہ سے تکمیل نور کی دعا کریں گے‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الحدید ، حاشیہ 17 |
3 | یعنی ان کے اعمال حسنہ کا اجر ضائع نہ کر ےگا کفار و منافقین کو یہ کہنے کا موقع ہر گز نہ دے گا کہ ان لوگوں نے خدا پرستی بھی کی تو اس کا کیا صلہ پایا۔ رسوائی باغیوں اور نافرمانوں کے حصے میں آئے گی نہ کہ وفاداروں اور فرماں برداروں کے حصے میں |
2 | آیت کے الفاظ قابل غور ہیں۔ یہ نہیں فرمایا گیا کہ توبہ کر لو تو تمہیں ضرور معاف کر دیا جائے گا اور لازماً تم جنت میں داخل کر دیے جاؤ گے، بلکہ یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرو گے تو بعید نہیں کہ اللہ تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ گناہ گار کی توبہ قبول کر لینا اور اسے سزا دینے کے بجائے جنت عطا فرما دینا اللہ پر واجب نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر اس کی عنایت و مہربانی ہو گی کہ وہ معاف بھی کرے اور انعام بھی دے۔ بندے کو اس سے معافی کی ا مید تو ضرور رکھنی چاہیے مگر اس بھروسے پر گناہ نہیں کرنا چاہیے کہ توبہ سے معافی مل جائے گی |
1 | اصل میں توبۃً نصوحاً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ نصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں۔ خالص شہد کو عسل ناصح کہتے ہیں جس کو موم اور دوسری آلائشوں سے پاک کر دیا گیا ہو۔ پھٹے ہوئے کپڑے کو سی دینے اور ادھڑے ہوئے کپڑے کی مرمت کر دینے کے لیے نصاحۃ الثوب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پس توبہ کو نصوح کہنے کا مطلب لغت کے اعتبار سے یا تو یہ ہو گا کہ آدمی ایسی خالص توبہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو۔ یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بد انجامی سے بچا لے۔ یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے، توبہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کر دے۔ یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سوار لے کہ دوسروں کے لیے وہ نصیحت کا موجب ہواور اسکی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسی کی طرح اپنی اصلاح کر لیں۔ یہ تو ہیں توبہ نصوح کے وہ مفہومات جو اس کے لغوی معنوں سے مترشح ہوتے ہیں ۔ رہا اسی کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زر بن حبیش کے واسطے سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے توبہ نصوح کا مطالب پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہﷺ سے یہی سوال کیا تھا آپؐ نے فرمایا ’’اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہو جائے تو ا پنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو‘‘۔ یہی مطلب حضرت عمرؓ ، حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود اور حضرت عبداللہؓ بن عباس سے بھی منقول ہے، اور ایک روایت میں حضرت عمرؓ نے توجہ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی کا اعادہ تو درکنار، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے۔ (ابن جریر)۔ حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ ایک بدو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ توبۃ الکذابین ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ فرمایا اس کے ساتھ کچھ چیزیں ہونی چاہیں (1) جو کچھ ہو چکا ہے اس پر نادم ہو۔ (2) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کر۔ (3) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کر۔ (4) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگ۔ (5) آئندہ کے لیے عزم کر لے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا۔ اور (6) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھرا دے جس طرح تو نے اب تک اسے معصیت کاخوگر بنائے رکھا ہے اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے۔ (کشاف) توبہ کے سلسلہ میں چند امور اور بھی ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اول یہ کہ توبہ درحقیقت کسی معصیت پر اس لیے نادم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی ہے۔ ورنہ کسی گناہ سے اس لیے پرہیز کا عہد کر لینا کہ وہ مثلاً صحت کے لیے نقصان دہ ہے، یاکسی بدنامی کا، یا مالی نقصان کا موجب ہے، توبہ کی تعریف میں نہیں آتا۔ دوسرے یہ کہ جس وقت آدمی کو احساس ہو جائے کہ اس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے، اسی وقت اسے توبہ کرنی چاہیے اور جس شکل میں بھی ممکن ہو بلا تاخیر اس کی تلافی کر دینی چاہیے، اسے ٹالنا مناسب نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ توبہ کر کے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور توبہ کو کھیل بنا لینا اور اسی گناہ کا بار بار اعادہ کرنا جس سے توبہ کی گئی ہو، توبہ کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہے، اور بار بار کی توبہ شکنی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرمساری موجود نہیں ہے۔چوتھے یہ کہ جو شخص سچے دل سے توبہ کر کے یہ عزم کر چکا ہو کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا، اس سے اگر بشری کمزوری کی بنا پر اسی گناہ کا اعادہ ہو جائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ ہو گا البتہ اسے بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنی چاہیے اور زیادہ سختی کے ساتھ عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ وہ توبہ شکنی کا مرتکب نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ ہر مرتبہ جب معصیت یاد آئے، توبہ کی تجدید کرنا لازم نہیں ہے، لیکن اگر اس کا نفس اپنی سابق گناہ گارانہ زندگی کی یاد سے لطف لے رہا ہو تو بار بار توبہ کرنی چاہیے یہاں تک کہ گناہوں کی یاد اس کے لیے لذت کے بجائے شرمساری کی موجب بن جائے۔ اس لیے جس شخص نے فی الواقع خدا کے خوف کی بنا پر معصیت سے توجہ کی ہووہ اس خیال سے لذت نہیں لے سکتا کہ وہ خدا کی نافرمانی کرتا رہا ہے۔ اس سے لذت لینا اس بات کی علامت ہے کہ خدا کے خوف نے اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی ہے |