Ayats Found (1)
Surah 39 : Ayat 22
أَفَمَن شَرَحَ ٱللَّهُ صَدْرَهُۥ لِلْإِسْلَـٰمِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِۦۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَـٰسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ ٱللَّهِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا1 اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے 2(اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟) تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے3 وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں
3 | شرح صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ضیقِ صدر (سینہ تنگ ہو جانے اور دل بھچ جانے) کی کیفیت جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالٰی اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص،خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی،ایک مرتبہ قبول حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے،مگر اللہ تعالٰی نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے،کیونکہ آیت کا اصل مقصود ان لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت میں ضد اور ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے کہ آپؐ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔اس پر انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابل چیز سمجھ رہے ہو،مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی اور بد نصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سُن کر وہ نرم پڑنے کے بجائے اور زیادہ سخت ہو جائے۔ |
2 | یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی صورت میں ایک نور علم اسے مل گیا ہے جس کے اُجالے میں وہ ہر ہر قدم پر صاف دیکھتا جاتا ہے کہ زندگی کی بے شمار پگ ڈنڈیوں کے درمیان حق کا سیدھا راستہ کونسا ہے |
1 | یعنی جسے اللہ نے یہ توفیق بخشی کہ ان حقائق سے سبق لے اور اسلام کے حق ہونے پر مطمئن ہو جائے۔ کسی بات پر آدمی کا شرح صدر ہو جا نا یا سینہ کھل جانا دراصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی دل میں اس بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہ باقی نہ رہے، اور اسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو، بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیز حق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہو جائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسولؐ کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا و رغبت مانتا ہے۔ کتاب و سنت میں جو عقائد و افکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انہیں اس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی نا جائز فائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں، الٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل خدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے ادھر نکل جاؤں۔اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہر حال چلنا ہے۔خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔ |