Ayats Found (1)
Surah 48 : Ayat 10
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّهَ يَدُ ٱللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَـٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے1 وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا 2اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے3، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا
3 | اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَعَلَیْہِ اللہَ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہَ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اِعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جو کے ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجاۓ عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں ہ دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر۔ لہٰذا یہاں اس کے ٓسلی اعراب کو باقی رکھنا وفاۓ عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے |
2 | یعنی جس ہاتھ پر لوگ اس وقت بیعت کر رہے تھے وہ شخص رسول کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کے نمائندے کا ہاتھ تھا اور یہ بیعت رسول کے واسطہ سے در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو رہی تھی |
1 | اشارہ ہے اس بیعت کی طرف جو مکہ معظمہ میں حضرت عثمانؓ کے شہید ہو جانے کی خبر سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام سے حدیبیہ کے مقام پرلی تھی ۔ بعض روایات کی رو سے یہ بیعت علیٰ الموت تھی، اور بعض روایات کے مطابق بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ ہم میدان جنگ سے پیٹھ نہ پھیریں گے۔ پہلی بات حضرت سلمہ بن اکوَع سے مروی ہے، اور دوسرے حضرات ابن عمرجابر بن عبد اللہ اور معقِل بن یسار سے۔ مآل دونوں کا ایک ہی ہے۔ صحابہ نے رسول پاکؐ کے ہاتھ پر بیعت اس بات کی کی تھی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا معاملہ اگر صحیح ثابت ہوا تو وہ سب یہیں اور اسی وقت قریش سے نمٹ لیں گے خواہ نتیجہ میں وہ سب کٹ ہی کیوں نہ مریں۔ اس موقع پر چونکہ یہ امر ابھی یقینی نہیں تھا کہ حضرت عثمان واقعی شہید ہو چکے ہیں یا زندہ ہیں ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف سے خود اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت میں شریک فرمایاس ۔ حضورؐ کا ان کی طرف سے خود بیعت کرنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ حضور کو ان پر پوری طرح یہ اعتماد تھا کہ اگر وہ موجود ہوتے تو یقیناً بیعت کرتے |