Ayats Found (5)
Surah 8 : Ayat 45
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَٱثْبُتُواْ وَٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی
Surah 33 : Ayat 41
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو
Surah 62 : Ayat 10
فَإِذَا قُضِيَتِ ٱلصَّلَوٲةُ فَٱنتَشِرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ وَٱبْتَغُواْ مِن فَضْلِ ٱللَّهِ وَٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو1 اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو2، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب3 ہو جائے
3 | قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایک ہدایت یا ایک نصیحت یا ایک حکم دینے کے بعد لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْ نَ (شائد کہ تم فلاح پا جاؤ) اور لَعَلَّکُمْ تَرْ حَمُوْنَ (شاید کہ تم پر رحم کیا جاۓ ) کے الفاظ ارشاد فرماۓ گۓ ہیں۔ اس طرح کے مواقع پر شاید کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو معاذاللہ کوئی شک لا حق ہے ، بلکہ یہ دراصل شاہانہ انداز بیان ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مہربان آقا اپنے ملازم سے کہے کہ تم فلاں خدمت انجام دو، شاید کہ تمہیں ترقی مل جاۓ۔ اس میں ایک لطیف وعدہ پوشیدہ ہوتا ہے جس کی امید میں ملازم دل لگا کر بڑے شوق کے ساتھ وہ خدمت انجام دیتا ہے۔ کسی بادشاہ کی زبان سے کسی ملازم کے لیے یہ فقرہ نکل جاۓ تو اس کے گھر خوشی کے شادیانے بج جاتے ہیں۔ یہاں چونکہ جمعہ کے احکام ختم ہو گۓ ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب اربعہ میں قرآن، حدیث، آثار صحابہ، اور اسلام کے اصول عامہ سے جو احکام جمعہ مرتب کیے گۓ ہیں ان کا خلاصہ دے دیا جاۓ۔ حنفیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔ نہ اس سے پہلے جمعہ ہو سکتا ہے ، نہ اس کے بعد۔ بیع کی حرمت پہلی اذان ہی سے شروع ہو جاتی ہے ، نہ کہ اس دوسری اذان سے جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے ، کیونکہ قرآن میں اِذَ نُوْ دِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ کے الفاظ مطلقاً ارشاد ہوۓ ہیں۔ اس لیے زوال کے بعد جب جمعہ کا وقت شروع ہو جاۓ اس وقت جو اذان بھی نماز جمعہ کے لیے دی جاۓ ، لوگوں کو اسے سن کر خرید و فروخت چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن اگر کسی شخص نے اس وقت خرید و فروخت کر لی ہو تو وہ بیع فاسد یا جسخ نہ ہو جاۓ گی، بلکہ یہ صرف ایک گناہ ہو گا۔ جمعہ ہر بستی میں نہیں بلکہ صرف مصر جامع میں ہو سکتا ہے ، اور مصر جامع کی معتبر تعریف یہ کہ وہ شہر جس میں بازار ہوں، قیام امن کا انتظام موجود ہو، اور آبادی اتنی ہو کہ اگر اس کی بڑی سے بڑی مسجد میں بھی نماز جمعہ کے مکلف سب لوگ جمع ہو جائیں تو اس میں سما نہ سکیں۔ جو لوگ شہر سے باہ رہتے ہوں ان پر جمعہ اس صورت میں شہر آ کر پڑھنا فرض ہے جبکہ ان تک اذان کی آواز پہنچتی ہو، یا وہ زیادہ سے زیادہ شہر سے 6 میل کے فاصلے پر ہوں۔ نماز کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں ہو۔ وہ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے اور ایسے میدان میں بھی ہو سکتی ہے جو شہر کے باہر ہو مگر اس کا یاک حصہ شمار ہوتا ہو، نماز جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتی ہے جہاں ہر شخص کے لیے شریک ہونے کا اذنِ عام ہو۔ کسی بند جگہ، جہاں ہر ایک کو آنے کی اجازت نہ ہو، خواہ کتنے ہی آدمی جمع ہو جائیں، جمعہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں کم از کم (بقول ابو حنیفہؒ) امام کے سوا تین آدمی، یا (بقول ابو یوسفؒ و محمدؒ ) امام سمیت دو آدمی ایسے موجود ہوں جن پر جمعہ فرض ہے۔ جن عذرات کی بنا پر ایک شخص سے جمعہ ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں : آدمی حالت سفر میں ہی، یا ایسا بیمار ہو کہ چل کر نہ آ سکتا ہو، یا دونوں ٹانگوں سے معذور ہو، یا اندھا ہو (مگر امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک اندھے پر سے صرف اس وقت جمعہ کی فرضیت ساقط ہوتی ہے جبکہ وہ کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے چلا کر لے جاۓ ) یا کسی ظالم سے اس کو جان اور آبرو کا، یا ناقابل برداشت مالی نقصان کا خطرہ ہو، یا سخت بارش اور کیچڑ پانی ہو، یا آدمی قید کی حالت میں ہو۔ قیدیوں اور معذوروں کے لیے یہ بات مکروہ ہے کہ وہ جمعہ کے روز ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ جن لوگوں کا جمعہ چھوٹ گیا ہو ان کے لیے بھی ظہر کی نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے۔ خطبہ صحت جمعہ کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی جمعہ کی نماز خطبہ کے بغیر نہیں پڑھی ہے ، اور وہ لازماً نماز سے پہلے ہونا چاہیے ، اور دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبہ کے لیے جب امام منبر کی طرف جاۓ ، اس وقت سے اختتام خطبہ تک ہر قسم کی بات چیت ممنوع ہے ، اور نماز بھی اس وقت نہیں پڑھنی چاہیے ، خواہ امام کی آواز اس مقام تک پہنچتی ہو یا نہ پہنچتی ہو جہاں کوئی شخص بیٹھا ہو (ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص، الفقہ علی المذاہب الا ربعہ، عمدۃ القاری)۔ شافعیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا ہے۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب دوسری اذان ہو (یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے )۔ تاہم اگر کوئی شخص اس وقت بیع کرے تو وہ فسخ نہیں ہوتی۔ جمعہ ہر اس بستی میں ہو سکتا ہے جس کے مستقل باشندوں میں 40 ایسے آدمی موجود ہوں جن پر نماز جمعہ فرض ہے۔ بستی سے باہر کے ون لوگوں پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا لازم ہے جن تک اذان کی آواز پہنچ سکتی ہو۔ جمعہ لازماً بستی کے حدود میں ہونا چاہیے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں پڑھا جاۓ۔ جو لوگ صحرا میں خیموں کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ واجب نہیں ہے۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں امام سمیت کم از کم 40 ایسے آدمی شریک ہوں جن پر جمعہ فرض ہے۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں: سفر کی حالت میں ہو، یا کسی مقام پر چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو، بشرطیکہ سفر جائز نوعیت کا ہو۔ ایسا بوڑھا یا مریض ہو کہ سواری پر بھی جمعہ کے لیے نہ جا سکتا ہو۔ اندھا ہو اور کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے نماز کے لیے لے جاۓ۔ جان یا مال یا آبرو کا خوف لاحق ہو۔ قید کی حالت میں ہو، بشرطیکہ اس کی قید اس کے اپنے کسی قصور کی وجہ سے نہ ہو۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبے کے دوران میں خاموش رہنا مسنون ہے ، مگر بات کرنا حرام نہیں ہے۔ جو شخص امام سے اتنا قریب بیٹھا ہو کہ خطہ سن سکتا ہو اس کے لیے بولنا مکروہ ہے ، لیکن وہ سلام کا جواب دے سکتا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر سن کر بآواز بلند درود پڑھ سکتا ہے (مغنی المحتاج۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ )۔ مالکیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت زوال سے شروع ہو کر مغرب سے اتنے پہلے تک ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے خطبہ اور نماز ختم ہو جاۓ۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر بیع واقع ہو تو وہ فاسد ہے اور فسخ ہوگی۔ جمعہ صرف ان بستیوں میں ہو سکتا ہے جن کے باشندے وہاں مستقل طور پر گھر بنا کر رہتے ہوں، اور جاڑے گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں، اور ان کی ضروریات اسی بستی میں فراہم ہوتی ہوں، اور اپنی تعداد کی بنا پر وہ اپنی حفاظت کر سکتے ہوں۔ عارضی قیام گاہوں میں خواہ کتنے ہی لوگ ہوں اور خواہ وہ کتنی ہی مدت ٹھیریں، جمعہ قائم نہیںکیا جا سکتا۔ جس بستی میں معہ قائم کیا جاتا ہو اس سے تین میل کے فاصلے تک رہنے والے لوگوں پر جمعہ میں حاضر ہونا فرض ہے۔ نماز جمعہ صرف ایسی مسجد میں ہو سکتی ہے جو بستی کے اندر یا اس سے متصل ہو اور جس کی عمارت بستی کے عام باشندوں کے گھروں سے کم تر درجے کی نہ ہو۔ بعض مالکیوں نے یہ شرط بھی لگا ئی ہے کہ مسجد مسقف ہونی چاہیے اور اس میں پنجوقتہ نماز کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ لیکن مالکیہ کا راجح مسلک یہ ہے کہ کسی مسجد میں صحت جمعہ کے لیے اس کا مسقف ہونا شرط نہیں ہے ، اور ایسی مسجد میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے جو صرف نماز جمعہ کے لیے بنائی گئی ہو اور پنجوقتہ نماز کا اس میں اہتمام نہ ہو۔ جمعہ کی نماز صحیح ہونے کے یے جماعت میں امام کے سوا کم از کم 12 ایسے آدمیوں کا موجود ہونا ضروری ہے جن پر جمعہ فرض ہو۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں : سفر کی حالت میں ہو یا بحالت سفر کسی جگہ چار دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو۔ ایسا مریض ہو کہ مسجد آنا اس کے لیے دشوار ہو۔ اس کی ماں یا باپ یا بیوی یا بچہ بیمار ہو، یا وہ کسی ایسے اجنبی مریض کی تیمار داری کر رہا ہو جس کا اور کوئی تیمار دار نہ ہو، یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار سخت بیماری میں مبتلا ہو یا مرنے کے قریب ہو۔ اس کے ایسے مال کو جس کا نقصان قابل برداشت نہ ہو خطرہ لاحق ہو، یا اسے اپنی جان یا آبرو کا خطرہ ہو، یا وہ مار یا قید کے خوف سے چھپا ہوا ہو بشرطیکہ وہ اس معاملہ میں مظلوم ہو۔ سخت بارش اور کیچڑ پانی یا سخت گرمی یا سردی مسجد تک پہنچنے میں مانع ہو۔ دو خطبے نماز سے پہلے لازم ہیں، حتیٰ کہ اگر نماز کے بعد خطبہ ہو تو نماز کا اعادہ ضروری ہے۔ اور یہ خطبے لازماً مسجد کے اندر ہونے چاہییں خطبے کے لیے جب امام منبر کی طرف آواز نہ سن رہا ہو۔ لیکن اگر خطیب اپنے خطبے میں ایسی لغو باتیں کرے جو نظام خطبہ سے خارج ہوں، یا کسی ایسے شخص کو گالیاں دے جو گالی کا مستحق نہ ہو، یا کسی ایسے شخص کی تعریفیں شروع کر دے جس کی تعریف جائز نہ ہو، یا خطبہ سے غیر متعلق کوئی چیز پڑھنے لگے ، تو لوگوں کو اس پر احتجاج کرنے کا حق ہے۔ نیز خطبہ میں بادشاہ وقت کے لیے دعا مکروہ ہے الا یہ کہ خطیب کو اپنی جان کا خطرہ ہو۔ خطیب لازماً وہی شخص ہونا چاہیے جو نماز پڑھاۓ۔ اگر خطیب کے سوا کسی اور نے نماز پڑھائی ہو تو وہ باطل ہو گی (حاشیہ الدسوتی علی الشرح الکبیر۔ احکام القرآن ابن عربی۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ )۔ حنابلہ کے نزدیک جمعہ کی نماز کا وقت صبح کو سورج کے بقدر یک نیزہ بلند ہونے کے بعد سے عصر کا وقت شروع ہونے تک ہے۔ لیکن زوال سے پہلے جمعہ صرف جائز ہے ، اور زوال کے بعد واجب اور افضل۔ بیع کی حرمت اور سعی کے وجوب کا وقت دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو بیع ہو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتی۔ جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتا ہے کہاں 40 ایسے آدمی جن پر جمعہ فرض ہو، مستقل طور پر گھروں میں (نہ کہ خیموں میں) آباد ہوں، یعنی جاڑے اور گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں۔ اس غرض کے لیے بستی کے گھروں اور محلوں کے باہم متصل یا متفرق ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان سب کے مجموعہ کا نام ایک ہو تو وہ ایک ہی بستی ہے خواہ اس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر واقع ہوں۔ ایسی بستی سے جو لوگ تین میل کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا فرض ہے۔ جماعت میں امام سمیت 40 آدمیوں کی شرکت ضروری ہے۔ نماز کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ مسجد ہی میں ہو۔ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں: مسافر ہو اور جمعہ کی نستی میں چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو۔ ایسا مریض ہو کہ سواری پر آنا بھی اس کے لیے مشکل ہو۔ اندھا ہو، الا یہ کہ خود راستہ ٹٹول کر آ سکتا ہو۔ کسی دوسرے شخص کے سہارے آنا اندھے کے لیے واجب نہیں ہے۔ سخت سردی یا سخت گرمی یا سخت بارش اور کیچڑ نماز کی جگہ پہنچنے میں مانع ہو۔ کسی ظالم کی ظلم سے بچنے کے لیے چھپا ہوا ہو۔ جان یا آبرو کا خطرہ یا ایسے مالی نقصان کا خوف ہو جو قابل برداشت نہ ہو۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبے کے دوران میں اس شخص کے لیے بولنا حرام ہے جو خطیب سے اتنا قریب ہو کہ اس کی آواز سن سکتا ہو۔ البتہ دور کا آدمی جس تک خطیب کی آواز نہ پہنچتی ہو، بات کر سکتا ہے۔ خطیب خواہ عادل ہو یا غیر عادل، لوگوں کو خطبہ کے دوران میں چپ رہنا چاہیے۔ اگر جمعہ کے روز عید ہو جاۓ تو جو لوگ عید پڑھ چکے ہوں ان پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہے۔ اس مسئلے میں حنابلہ کا مسلک ائمہ ثلاثہ کے مسلک سے مختلف ہے (غایتہ المنتہیٰ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ)۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص پر جمعہ فرض نہیں ہے وہ اگر نماز جمعہ میں شریک ہو جاۓ تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس کے لیے پھر ظہر پڑھنا فرض نہیں رہتا |
2 | یعنی اپنے کاروبار میں لک کر بھی اللہ کو بھولو نہیں، بلکہ ہر حال میں اس کو یاد رکھو اور اس کا ذکر کرتے رہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ احزاب، حاشیہ 63) |
1 | اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور تلاش رزق کی دوڑ دھوپ میں لگ جانا ضروری ہے۔ بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے۔ چونکہ جمعہ کی اذان سن کر سب کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہو جانے بعد تمہیں اجازت ہے کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنے جو کاروبار بھی کرنا چاہو کرو، یہ ایسا ہی ہے جیسے حالت اِحرام میں شکار کی ممانعت کرنے کے بعد فرمایا : فَاِذَا حَلَلْتُمْ فَا صْطَا دُوْ (الماعدہ۔2) ’’ جب احرام کھول چکو تو شکار کرو‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولنے کے بعد ضرور شکار کرو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے بعد شکار پر کوئی پابندی باقی نہیں رہتی۔ چاہو تو شکار کر سکتے ہو۔ یا مثلاً سورہ نساء میں ایک سے زائد نکاح کی اجازت فَانْکِحُوْ امَا طَابَ لَکُمْ کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ یہاں اگر چہ فَانْکِحُوْا بصیغۂ امر ہے۔ مگر کسی نے بھی اس کو حکم کے معنی میں نہیں لیا ہے۔ اس سے یہ اصولی مسئلہ نکلتا ہے کہ صیغۂ امر ہمیشہ وجوب ہی کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ کبھی یہ اجازت اور کبھی استحباب کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ یہ بات قرائن سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں یہ حکم کے معنی میں ہے اور کہاں اجازت کے معنی میں اور کہاں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کو ایسا کرنا پسند ہے لیکن یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ فعل فرض و واجب ہے۔ خود اسی فقرے کے بعد متصلاً دوسرے ہی فقرے میں ارشاد ہوا ہے وَاذْکُرُو ا اللہَ کَثِیْراً۔ ’’ اللہ کو کثرت سے یاد کرو‘‘۔ یہاں بھی صیغۂ امر موجود ہے ، مگر ظاہر ہے کہ یہ استحباب کے معنی میں ہے نہ کہ وجوب کے معنی میں۔ اس مقام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ قرآن میں یہودیوں کے بست اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح جمعہ کو عام تعطیل کا دن قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن اس امر سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعار ملت ہے جس طرح ہفتہ اور اتوار یہودیوں اور عیسائیوں کے شعار ملت ہیں۔ اور اگر ہفتہ میں کوئی ایک دن عام تعطیل کے لیے مقرر کرنا ایک تمدنی ضرورت ہو تو جس طرح یہودی اس کے لیے فطری طور پر ہفتے کو اور عیسائی اتوار کو منتخب کرتے ہیں اسی طرح مسلمان (اگر اس کی فطرت میں کچھ اسلامی حِس موجود ہو) لازماً اس غرض کے لیے جمعہ ہی کو منتخب کرے گا، بلکہ عیسائیوں نے تو دوسرے ایسے ملکوں پر بھی اپنے اتوار کو مسلط کرنے میں تامّل نہ کیا جہاں عیسائی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی یہودیوں نے جب فلسطین میں اپنی اسرائیلی ریاست قائم کی تو اولین کان جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اتوار کے بجاۓ ہفتہ کو چھٹی کا دن مقرر کیا۔ قبل تقسیم کے ہندوستان میں برطانوی ہند اور مسلمان ریاستوں کے درمیان نمایاں فرق یہ نظر آتا تھا کہ ملک کے ایک حصے میں اتوار کی چھٹی ہوتی تھی اور دوسرے حصے میں جمعہ کی۔ البتہ جہاں مسلمانوں کے اندر اسلامی جس موجود نہیں ہوتی وہاں وہ اپنے ہاتھ میں اقتدار آنے کے بعد بھی اتوار ہی کو سینے سے لگاۓ رہتے ہیں جیسا کہ ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اس سے زیادہ جب بے حسی طاری ہوتی ہے تو جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی رائج کی جاتی ہے ، جیسا کہ مصطفیٰ کمال نے ٹرکی میں کیا |
Surah 73 : Ayat 8
وَٱذْكُرِ ٱسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً
اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو1 اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو
1 | دن کے اوقات کی مصروفیتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد ہے کہ ’’ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو‘‘۔ خود بخود یہ مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں ہر طرح کے کام کرتے ہوئے بھی اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو اور کسی نہ کسی شکل میں اس کاذکر کرتے رہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 63) |
Surah 76 : Ayat 25
وَٱذْكُرِ ٱسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلاً
اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو