Ayats Found (6)
Surah 27 : Ayat 59
قُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَـٰمٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَىٰٓۗ ءَآللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ
(اے نبیؐ) کہو، حمد اللہ کے لیے اور سلام اس کے اُن بندوں پر جنہیں اس نے برگزیدہ کیا (اِن سے پوچھو) اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بنا رہے ہیں؟1
1 | بظاہر یہ سوال بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ بہتر ہے یا یہ معبودان باطل۔ حقیقت کے اعتبار سے تو معبودان باطل میں سرے سے کسی خیر کاسوال ہی نہیں ہے کہ اللہ سے ان کا مقابلہ کیا جائے۔ رہے مشرکین تو وہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے کہ اللہ کا اوراُن کے معبودوں کا کوئی مقابلہ ہے۔ لیکن یہ سوال ان کے سامنے اس لیے رکھا گیا کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہوں ظاہر ہے کہ کوئی شخص دنیا میں کوئی کام بھی اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ اپنے نزدیک اس میں بھلائی یا فائدے کا خیال نہ رکھتا ہو۔ اب اگر یہ مشرک لوگ اللہ کی عبادت کے بجائے ان معبودوں کی عبادت کرتے تھے، اوراللہ کوچھوڑ کران سے اپنی حاجتیں طلب کرتے اوران کے آگے نزرونیازپیش کرتے تھے تو یہ اس کے بغیر بالکل بےمعنی تھا کہ ان معبودوں میں کوئی خیر ہو۔ اسی بنا پران کے سامنے صاف صاف الفاظ میں یہ سوال رکھا گیا کہ بتاؤ اللہ بہتر ہے یااتمہارے یہ معبود؟ کیونکہ اس دوٹوک سوال کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہ تھی۔ ان میں سے کوئی کٹے سے کٹا مشرک بھی یہ کہنے کی جرآت نہ کرسکتا تھا کہ ہمارے مبود بہتر ہیں۔ اوریہ مان لینے کے بعد کہ اللہ بہترہے، ان کے پورے دین کی بنیاد ڈھے جاتی تھی، ساس لیے سراسر نا معقول قرار پاتی تھی کہ بہتر کو چھوڑ کر بدتر کواختیار کیاجائے۔ اس طرح قرآن نےتقریر کے پہلے ہی فقرے میں مخالفین کو بے بس کردیا۔ اس کے بعد اب پےدرپے اللہ تعالیٰ کی قدرت اورتخلیق کے ایک ایک کرشمے کی طرف انگلی اٹھا کرپوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ یہ کام کس کے ہیں؟ کیا اللہ کےساتھ کو دوسرا خدا بھی ان کاموں میںشریک ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر یہ دوسرے آخر کیا ہیں کہ انہیں تم نے معبود بنارکھاہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی ﷺ جب اس آیت کی تلاوت فرماتےتو فوراََ اس کے جواب میں فرماتے بل اللہ حیروابقی واجل واکرم، ’’نہیں بلکہ اللہ ہی بہتر ہے اوروہی باقی رہنے والا اوربزرگ وبرتر ہے‘‘ |
Surah 25 : Ayat 58
وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱلْحَىِّ ٱلَّذِى لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِۦۚ وَكَفَىٰ بِهِۦ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرًا
اور اے محمدؐ، اُس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اُسی کا باخبر ہونا کافی ہے
Surah 40 : Ayat 55
فَٱصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِٱلْعَشِىِّ وَٱلْإِبْكَـٰرِ
پس اے نبیؐ، صبر کرو1، اللہ کا وعدہ بر حق ہے2، اپنے قصور کی معافی چاہو3 اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو4
4 | یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گۓ۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص 50۔73۔74۔182۔ جلد دوم،ص 371۔519۔587۔588۔634 تا 637۔ جلد سوم، ص 138۔420۔421۔703 تا 708۔740 تا 742۔ 754 تا 755) |
3 | جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ’’قصور‘‘ سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جاۓ جس سے کفار قائل ہو جائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جاۓ جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جاۓ۔ یہ خواہش بجاۓ خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالٰی نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتقضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالٰی کو آپ کے مرتبے سے فروتر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔ |
2 | اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ’’ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں‘‘۔ |
1 | یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ |
Surah 52 : Ayat 48
وَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَاۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ
اے نبیؐ، اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو1، تم ہماری نگاہ میں ہو2 تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو3
3 | اس ارشاد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور بعید نہیں کہ وہ سب ہی مراد ہوں ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کر کے اٹھو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے ، اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمد و تسبیح کر لیا کریں ، اس سے ان تمام باتوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں ۔ ابوداؤد، ترمذی نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہؓ کے واسطے سے حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیلو قال ہوئی ہو، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کر دیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم و بحمدک، اشھد ان لا اِلٰہ الا انت، استغفرک و اتوب الیک۔‘‘ خداوندا، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔‘‘ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستی سے اٹھو تو اپنےرب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لاالہ الااللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہٗ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر۔ سبحان اللہ والحمد لِلہ ولا اِلہ الااللہ، واللہ اکبر، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ (مسند احمد، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت) تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جاۓ سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمد و ثنا سے فرمایا کرتے تھے ۔ مفسر ابن ضریر نے اس کا یاک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کر کے اٹھو تو نماز پڑھو، اور اس سے مراد نماز ظہر ہے |
2 | یعنی ہم تمہاری نگہبانی کر رہے ہیں ۔ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے |
1 | دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پر ڈٹے رہو |
Surah 50 : Ayat 39
فَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ ٱلشَّمْسِ وَقَبْلَ ٱلْغُرُوبِ
پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو1، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے
1 | یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات ہم نے چھ دن میں بنا ڈالی ہے اس کو بنا کر تھی نہیں گۓ ہیں کہ اس کی تعمیر تو کرنا ہمارے بس میں نہ رہا ہو۔ اب اگر یہ نادان لوگ تم سے زندگی بعد موت کی خبر سن کو تمہارا مذاق اڑاتے ہیں اور تمہیں دیوانہ قرار دیتے ہیں تو اس پر صبر کرو۔ ٹھنڈے دل سے ان کی ہر بیہودہ بات کو سنو اور جس حقیقت کے بیان کرنے پر تم مامور کیے گۓ ہو اسے بیان کرتے چلے جاؤ۔ اس آیت میں ضمناً ایک لطیف طنز یہود و نصاریٰ پر بھی ہے جن کی بائبل میں یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا کو ’’فارغ ہوا‘‘ سے بدل دیا ہے۔ مگر کنگ جیمز کی مستند انگریزی بائیبل میں (And He rested on the seventh day) کے الفاظ صاف موجود ہیں۔ اور یہی الفاظ اس ترجمے میں بھی پاۓ جاتے ہیں جو 1954 ء میں یہودیوں نے فلیڈلفیا سے شائع کیا ہے۔ عربی ترجمہ میں بھی فاستراح فی الیوم السَّا بع کے الفاظ ہیں |
Surah 110 : Ayat 3
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَٱسْتَغْفِرْهُۚ إِنَّهُۥ كَانَ تَوَّابَۢا
تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو1، اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو2، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے
2 | یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اُس نے تمہارے سپرد کی تھی اُس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اُس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو، اُس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اُس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بند گی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں، اُس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہیں آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے ربّ کا جو حق تھا وہ میں نے پورے کا پورا ادا کر دیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کر سکا، اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اُس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے۔ یہ ادب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا، تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اِس غَرّے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اُس پر تھا وہ اُس نے ادا کر دیا ہے۔ اللہ کا حق اِس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اُسے ادا کر سکے۔
اللہ تعالٰی کا یہ فرمان مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمتِ دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں، بلکہ اپنی جان راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتیں رہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو، اُسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخرو غرور میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنے رب کے سا منے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمدو تسبیح اور توبہ استغفار کریں |
1 | حمد سے مراد اللہ تعالٰی کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اُس کا شکر ادا کرنا بھی۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالٰی کو ہر لحاظ سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دینا ہے۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے ربّ کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اُس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اِس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اِس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اِس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے، بلکہ اِس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو، اِس پر اُس کا شکر ادا کرو، اور قلب و زبان سے اِس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دو کہ اُس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اُس پر منحصر تھا۔ اِس کے بر عکس تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی اللہ کی تائید و نصرف پر منحصر تھی، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا۔ اِس کے علاوہ تسبیح، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے۔ جب کوئی مُحِیّر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اُس سے صادر ہو سکتا |