Ayats Found (16)
Surah 25 : Ayat 58
وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱلْحَىِّ ٱلَّذِى لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِۦۚ وَكَفَىٰ بِهِۦ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرًا
اور اے محمدؐ، اُس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اُسی کا باخبر ہونا کافی ہے
Surah 33 : Ayat 42
وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلاً
اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو1
1 | اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ تلقین کرنا ہے کہ جب دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسول پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہو رہی ہو اور دینِ حق کو زک پہنچانے کے لیے ذاتِ رسول کو ہدف بنا کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہو، ایسی حالت میں اہل ایمان کا کام نہ تو یہ ہے کہ ان بیہودگیوں کو اطمینان کے ساتھ سُنتے رہیں، اور نہ یہ کہ خود بھی دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں، اور نہ یہ کہ جواب میں ان سے گالم گلوچ کرنے لگیں، بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ عام دِنوں سے بڑھ کر اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کو اور زیادہ یاد کریں۔ ’’اللہ کو کثرت سے یاد کرنے‘‘ کا مفہوم حاشیہ نمبر ۶۳میں بیان کیا جا چکا ہے۔ صبح و شام تسبیح کرنے سے مُراد دائماً تسبیح کرتے رہنا ہے۔ اور تسبیح کے معنی اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کے ہیں نہ کہ محض دانوں والی تسبیح پھرانے کے۔ |
Surah 40 : Ayat 55
فَٱصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِٱلْعَشِىِّ وَٱلْإِبْكَـٰرِ
پس اے نبیؐ، صبر کرو1، اللہ کا وعدہ بر حق ہے2، اپنے قصور کی معافی چاہو3 اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو4
4 | یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گۓ۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص 50۔73۔74۔182۔ جلد دوم،ص 371۔519۔587۔588۔634 تا 637۔ جلد سوم، ص 138۔420۔421۔703 تا 708۔740 تا 742۔ 754 تا 755) |
3 | جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ’’قصور‘‘ سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جاۓ جس سے کفار قائل ہو جائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جاۓ جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جاۓ۔ یہ خواہش بجاۓ خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالٰی نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتقضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالٰی کو آپ کے مرتبے سے فروتر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔ |
2 | اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ’’ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں‘‘۔ |
1 | یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ |
Surah 52 : Ayat 48
وَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَاۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ
اے نبیؐ، اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو1، تم ہماری نگاہ میں ہو2 تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو3
3 | اس ارشاد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور بعید نہیں کہ وہ سب ہی مراد ہوں ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کر کے اٹھو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے ، اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمد و تسبیح کر لیا کریں ، اس سے ان تمام باتوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں ۔ ابوداؤد، ترمذی نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہؓ کے واسطے سے حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیلو قال ہوئی ہو، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کر دیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم و بحمدک، اشھد ان لا اِلٰہ الا انت، استغفرک و اتوب الیک۔‘‘ خداوندا، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔‘‘ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستی سے اٹھو تو اپنےرب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لاالہ الااللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہٗ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر۔ سبحان اللہ والحمد لِلہ ولا اِلہ الااللہ، واللہ اکبر، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ (مسند احمد، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت) تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جاۓ سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمد و ثنا سے فرمایا کرتے تھے ۔ مفسر ابن ضریر نے اس کا یاک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کر کے اٹھو تو نماز پڑھو، اور اس سے مراد نماز ظہر ہے |
2 | یعنی ہم تمہاری نگہبانی کر رہے ہیں ۔ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے |
1 | دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پر ڈٹے رہو |
Surah 48 : Ayat 9
لِّتُؤْمِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلاً
تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اُس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو1
1 | بعض مفسرین جے تُعَزِّ رُوْہُ اور تُوَقِّرُوْہُ کی ضمیروں کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور تُسَبِّحُوہُ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تم رسول کا ساتھ دو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو، اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔ لیکن ایک ہی سلسلہ کلام میں ضمیروں کے دو الگ الگ مرجع قرار دینا، جبکہ اس کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے، درست نہیں معلوم ہوتا ۔ اسی لیے مفسرین کے ایک دوسرے گروہ نے تمام ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک عبارت کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کا ساتھ دو، اسکی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہے‘‘۔ صبح و شام تسبیح کرنےسے مراد صرف صبح و شام ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت تسبیح کرتے رہنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بات کا شہرہ مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف مشرق اور مغرب کے لوگ اس بات کو جانتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں اس کا چرچا ہو رہا ہے |
Surah 50 : Ayat 39
فَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ ٱلشَّمْسِ وَقَبْلَ ٱلْغُرُوبِ
پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو1، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے
1 | یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات ہم نے چھ دن میں بنا ڈالی ہے اس کو بنا کر تھی نہیں گۓ ہیں کہ اس کی تعمیر تو کرنا ہمارے بس میں نہ رہا ہو۔ اب اگر یہ نادان لوگ تم سے زندگی بعد موت کی خبر سن کو تمہارا مذاق اڑاتے ہیں اور تمہیں دیوانہ قرار دیتے ہیں تو اس پر صبر کرو۔ ٹھنڈے دل سے ان کی ہر بیہودہ بات کو سنو اور جس حقیقت کے بیان کرنے پر تم مامور کیے گۓ ہو اسے بیان کرتے چلے جاؤ۔ اس آیت میں ضمناً ایک لطیف طنز یہود و نصاریٰ پر بھی ہے جن کی بائبل میں یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا کو ’’فارغ ہوا‘‘ سے بدل دیا ہے۔ مگر کنگ جیمز کی مستند انگریزی بائیبل میں (And He rested on the seventh day) کے الفاظ صاف موجود ہیں۔ اور یہی الفاظ اس ترجمے میں بھی پاۓ جاتے ہیں جو 1954 ء میں یہودیوں نے فلیڈلفیا سے شائع کیا ہے۔ عربی ترجمہ میں بھی فاستراح فی الیوم السَّا بع کے الفاظ ہیں |
Surah 50 : Ayat 40
وَمِنَ ٱلَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَـٰرَ ٱلسُّجُودِ
اور رات کے وقت پھر اُس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی1
1 | یہ ہے وہ ذریعہ جس سے آدمی کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ دعوت حق کی راہ میں اسے خواہ کیسے ہی دل شکن اور روح فرسا حالات سے سابقہ پیش آۓ، اور اس کی کوششوں کا خواہ کوئی ثمرہ بھی حاصل ہوتا نظر نہ آۓ، پھر بھی وہ پورے عزم کے ساتھ زندگی بھر کلمۂ حق بلند کرنے ور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کی سعی جاری رکھے۔ رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے اور جس مقام پر بھی قرآن میں حمد و تسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ ’’ طلوع آفتاب سے پہلے۔‘‘ فجر کی نماز ہے ‘‘غروب آفتاب سے پہلے ‘’ دو نمازیں ہیں، ایک ظہر، دوسری عصر ‘‘۔ رات کے وقت۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور تیسری تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، بنی اسرائیل، حواشی 91 تا 97۔ جلد سوم، طہٰ، حاشیہ 111۔ الروم، حواشی 23۔24)۔ رہی وہ تسبیح جو ’’سجدے فارغ ہونے کے بعد ‘‘ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، تو اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ بھی ہو سکتا ہے اور فرض کے بعد نفل ادا کرنا بھی۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت حسن بن علی، حضرات ابوہریرہ، ان عباس، شُیبی، مجاہد، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، ابراہیم نخَعی اور اَوزاعی اس سے مراد نماز مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لیے ہیں۔ حضرت عبداللہ ن عَمرو بن العاص اور ایک روایت کے بموجب حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی یہ خیال ہے کہ اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ ہے۔ اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد بھی نوافل ادا کے جائیں۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ غریب مہاجرین نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مالدار لوگ تو بڑے درجے لوٹ لے گۓ۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ کیا ہوا‘‘؟۔ انہوں نے عرض کیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں، مگر وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ کیا میں تمہیں ایسی چیز بتاؤں جسے اگر تم کرو تو تم دوسرے لوگوں سے بازی لے جاؤ گے بجز ان کے جو وہی عمل کریں جو تم کرو گے؟ وہ عمل یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد 33۔33 مرتبہ سبحان اللہ، الحمد لِلہ، اللہ اکبر کہا کرو‘‘۔ کچھ مدت کے بعد ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور وہ بھی یہی عمل کرنے لگے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ذٰلک فضل اللہ یؤنیہ من یشآء۔ ایک روایت میں ان کلمات کی تعداد 33۔ 33 کے بجاۓ دس دس بھی منقول ہوئی ہے۔ حضرت زید بن ثابت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہم ہر نماز کے بعد 33۔ 33 مرتبہ سبحان اللہ اور الحمد لِلہ کہا کریں اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ بعد میں ایک انصاری نے عرض کیا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی کہتا ہے اگر تم 25۔25 مرتبہ یہ تین کلمے کہو اور پھر 25 مرتبہ لا اِلٰہ الا اللہ کہو تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا اسی طرح کیا کرو۔(احمد۔نسائی۔ دارمی)۔ حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو کر جب پلٹتے تھے تو میں نے آپ کو یہ الفاظ کہتے سنا ہے :سُبْحَا نَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزِّۃِ عَمَّایَصِفُوْنَ o وَسَلَامٌ عَلَالْمُرْسَلِیْنَ o وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o(احکام القرآن للجصاص)۔ اس کے علاوہ بھی ذکر بعد الصلوٰۃ کی متعدد صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہوئی ہیں۔ جو حضرات قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیں وہ مشکوٰۃ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں سے کوئی ذکر جو ان کے دل کو سب سے زیادہ لگے، چھانٹ کر یاد کر لیں اور اس کا التزام کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے بتاۓ ہوۓ ذکر سے بہتر اور کونسا ذکر ہو سکتا ہے۔ مگر یہ خیال رکھیں کہ ذکر سے اصل مقصود چند مخصوص الفاظ کو زبان سے گزار دینا نہیں ہے بلکہ ان معافی کو ذہن میں تازہ اور مستحکم کرنا ہے جو ان الفاظ میں بیان کیے گۓ ہیں۔ اس لیے جو ذکر بھی کیا جاۓ اس کے معنی اچھی طرح سمجھ لینے چاہییں اور پھر معنی کے استحضار کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے |
Surah 52 : Ayat 48
وَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَاۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ
اے نبیؐ، اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو1، تم ہماری نگاہ میں ہو2 تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو3
3 | اس ارشاد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور بعید نہیں کہ وہ سب ہی مراد ہوں ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کر کے اٹھو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے ، اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمد و تسبیح کر لیا کریں ، اس سے ان تمام باتوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں ۔ ابوداؤد، ترمذی نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہؓ کے واسطے سے حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیلو قال ہوئی ہو، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کر دیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم و بحمدک، اشھد ان لا اِلٰہ الا انت، استغفرک و اتوب الیک۔‘‘ خداوندا، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔‘‘ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستی سے اٹھو تو اپنےرب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لاالہ الااللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہٗ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر۔ سبحان اللہ والحمد لِلہ ولا اِلہ الااللہ، واللہ اکبر، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ (مسند احمد، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت) تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جاۓ سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمد و ثنا سے فرمایا کرتے تھے ۔ مفسر ابن ضریر نے اس کا یاک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کر کے اٹھو تو نماز پڑھو، اور اس سے مراد نماز ظہر ہے |
2 | یعنی ہم تمہاری نگہبانی کر رہے ہیں ۔ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے |
1 | دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پر ڈٹے رہو |
Surah 52 : Ayat 49
وَمِنَ ٱلَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَـٰرَ ٱلنُّجُومِ
رات کو بھی اس کی تسبیح کیا کرو1 اور ستارے جب پلٹتے ہیں اُس وقت بھی2
2 | ستاروں کے پلٹنے سے مراد رات کے آخری حصہ میں ان کا غروب ہونا اور سپیدہ صبح کے نمودار ہونے پر ان کی روشنی کا ماند پڑ جانا ہے ۔ یہ نماز فجر کا وقت ہے ۔ |
1 | اس سے مراد مغرب و عشا اور تہجد کی نمازیں بھی ہیں ، اور تلاوت قرآن بھی، اور اللہ کا ذکر بھی |
Surah 56 : Ayat 74
فَسَبِّحْ بِٱسْمِ رَبِّكَ ٱلْعَظِيمِ
پس اے نبیؐ، اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو1
1 | یعنی اس کا مبارک نام لے کر یہ اظہار و اعلان کرو کہ وہ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو کفار و مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جو کفر و شرک کے ہر عقیدے اور منکرین آخرت کے ہر استدلال میں مضمر ہیں |