Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 199
ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ ٱلنَّاسُ وَٱسْتَغْفِرُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر جہاں سے سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو1، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
1 | “حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے زمانے سے عرب کا معرُوف طریقہء حج یہ تھا کہ ۹ ذی الحجہ کو مِنیٰ سے عَرَفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مُزْ دلفہ میں ٹھیرتے تھے۔ مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی برہمنیّت قائم ہو گئی ، تو انہوں نے کہا: ہم اہل ِ حرم ہیں، ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہلِ عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں۔ چنانچہ انہوں اپنے لیے یہ شانِ امتیاز قائم کی کہ مُزْدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر یہی امتیاز بنی خُز َاعہ اور بنی کِنَانہ اور اُن دُوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہو گیا ، جن کے ساتھ قریش کے شادی بیاہ کے رشتے تھے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے، اُن کی شان بھی عام عربوں سے اُونچی ہو گئی اور انہوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا۔ اسی فخر و غرور کا بُت اس آیت میں توڑا گیا ہے ۔ آیت کا خطابِ خاص قریش اور ان کے رشتے دار اور حلیف قبائل کی طرف ہے اور خطابِ عام اُن سب کی طرف ہے ، جو آئندہ کبھی اس قسم کے امتیازات اپنے لیے مخصُوص کرنا چاہیں۔ اُن کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اَو رسب لوگ جہاں تک جاتے ہیں ، انھیں کے ساتھ جا ؤ ، اُنھیں کے ساتھ ٹھیرو، انھیں کے ساتھ پلٹو، اور اب تک جاہلیّت کے فخر و غرور کی بنا پر سنت ِ ابراہیمی کی جو خلاف ورزی تم کرتے رہے ہو، اس پر اللہ سے معافی مانگو |
Surah 4 : Ayat 106
وَٱسْتَغْفِرِ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور اللہ سے در گزر کی درخواست کرو، وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے
Surah 11 : Ayat 3
وَأَنِ ٱسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓاْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَـٰعًا حَسَنًا إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِى فَضْلٍ فَضْلَهُۥۖ وَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا1 اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا2 لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
2 | یعنی جو شخص اخلاق و اعمال میں جتنا بھی آگے بڑھے گا اللہ اس کو اتنا ہی بڑا درجہ عطا کرے گا۔ اللہ کے ہاں کسی کی خوبی پر پانی نہیں پھیرا جاتا۔ اس کے ہاں جس طرح برائی کی قدر نہیں ہے اسی طرح بھلائی کی ناقدری بھی نہیں ہے۔ اس کی سلطنت کا دستور یہ نہیں ہے کہ اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں طوق زریں ہمہ در گردن خرمی بینم! وہاں تو جو شخص بھی اپنی سیرت و کردار سے اپنے آپ کو جس فضیلت کا مستحق ثابت کردے گا وہ فضیلت اس کو ضرور دی جائےگی |
1 | یعنی دنیا میں تمہارے ٹھیرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت تک وہ تم کو بُری طرح نہیں بلکہ اچھی طرح رکھے گا۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی۔ اس کی برکتوں سے سرفراز ہوگے۔ خوش حال و فارغ البال رہو گے۔ زندگی میں امن اور چین نصیب ہوگا ۔ ذلت وخواری کے ساتھ نہیں بلکہ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے۔ یہی مضمون دوسرے موقع پر اس طرح ارشاد ہو ا ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْ مِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰو ۃً طَیِّبَۃً (النحل ۔ آیت ۹۷) ” جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا ، خواہ مرد ہو یا عورت، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ اس سے لوگوں کی اُس غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کو کان میں پھونک رکھی ہے کہ خدا ترسی اور راستبازی اور احساسِ ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت بنتی ہو تو بنتی ہو، مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ اس راہِ راست کو اختیار کرنے سے تمہاری صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں۔ جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں ، جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں، جن کے معاملات درست ہوں ، جن پر ہر معاملہ میں بھروسہ کیا جا سکے، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو، جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شر کا اندیشہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ ”مَتَاعٌ حَسَنٌ“ کے الفاظ میں ایک اور پہلو ہے جو نگاہ سے اوجھل نہ رہ جانا چاہیے۔ دنیا کا سامانِ زیست قرآن مجید کی رو سے دو قسم کا ہے۔ ایک وہ سروسامان ہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی و خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کر دیتے ہیں۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ قرآن مجید اس کو ”مَتَاعٌ غُرُوْرٌ“ کے الفاظ سے یاد کرتا ہے ۔ دوسرا وہ سروسامان ہے جس سے انسان خوشحال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے ، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے ، خدا کے دیے ہوئے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں کیر و صلاح کی ترقی اور شروفساد کے استیصال کے لیے زیادہ کار گر کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ قرآن کی زبان میں ”مَتَاعٌ حَسَنٌ“ ہے، یعنی ایسا اچھا سامانِ زندگی جو محض عیش دنیا ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ نتیجہ میں عیش آخرت کا بھی ذریعہ بنتا ہے |
Surah 23 : Ayat 118
وَقُل رَّبِّ ٱغْفِرْ وَٱرْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ ٱلرَّٲحِمِينَ
اے محمدؐ، کہو، 1"میرے رب درگزر فرما، اور رحم کر، اور تو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے"
1 | یہاں اس دعا کی لطیف معنویت نگاہ میں رہے۔ ابھی چند سطر اوپر یہ ذکر آ چکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے دشمنوں کو معاف کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمائے گا کہ میرے جو بندے یہ دعا مانگتے تھے ، تم ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو (اور ضمناً صحابہ کرام کو بھی) یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم ٹھیک وہی دعا مانگو جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں۔ ہماری صاف تنبیہ کے باوجود اب اگر یہ تمہارا مذاق اڑائیں تو آخرت میں اپنے خلاف گویا خود ہی ایک مضبوط مقدمہ تیار کر دیں گے |
Surah 40 : Ayat 55
فَٱصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِٱلْعَشِىِّ وَٱلْإِبْكَـٰرِ
پس اے نبیؐ، صبر کرو1، اللہ کا وعدہ بر حق ہے2، اپنے قصور کی معافی چاہو3 اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو4
4 | یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گۓ۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص 50۔73۔74۔182۔ جلد دوم،ص 371۔519۔587۔588۔634 تا 637۔ جلد سوم، ص 138۔420۔421۔703 تا 708۔740 تا 742۔ 754 تا 755) |
3 | جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ’’قصور‘‘ سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جاۓ جس سے کفار قائل ہو جائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جاۓ جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جاۓ۔ یہ خواہش بجاۓ خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالٰی نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتقضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالٰی کو آپ کے مرتبے سے فروتر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔ |
2 | اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ’’ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں‘‘۔ |
1 | یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ |
Surah 41 : Ayat 6
قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۟ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَٲحِدٌ فَٱسْتَقِيمُوٓاْ إِلَيْهِ وَٱسْتَغْفِرُوهُۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ
اے نبیؐ، اِن سے کہو، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا1 مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے2، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو3 اور اس سے معافی چاہو4 تباہی ہے اُن مشرکوں کے لیے
4 | معافی اس بے وفائی کی جواب تک تم اپنے خدا سے کرتے رہے، اس شرک اور کفر اور نافرمانی کی جس کا ارتکاب تم سے اب تک ہوتا رہا، اور ان گناہوں کی جو خدا فراموشی کے باعث تم سے سرزد ہوۓ |
3 | یعنی کسی اور کو خدا نہ بناؤ، کسی اور کی بندگی و پرستش نہ کرو، کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکارو، کسی اور کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم نہ کرو، کسی اور کے رسم و رواج اور قانون و ضابطہ کو شریعت واجب الاطاعت نہ مانو |
2 | یعنی تم چاہے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو اور اپنے کان بہرے کر لو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمہارے بہت سے خدا نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا ہے جس کے تم بندے ہو۔ اور یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے جو میں نے اپنے غور و فکر سے بنایا ہو، جس کے صحیح اور غلط ہونے کا یکساں احتمال ہو، بلکہ یہ حقیقت مجھ پر وحی کے ذریعہ سے منکشف کی گئی ہے جس میں غلطی کے احتمال کا شائبہ تک نہیں ہے |
1 | یعنی میرے بس میں یہ نہیں ہے کہ تمہارے دلوں پر چڑھے ہوۓ غلاف اتار دوں ، تمہارے بہرے کان کھول دوں ، اور اس حجاب کو پھاڑ دوں جو تم نے خود ہی میرے اور اپنے درمیان ڈال لیا ہے۔ میں تو ایک انسان ہوں ۔ اسی کو سمجھا سکتا ہوں جو ملنے کے لیے تیار ہو |
Surah 47 : Ayat 19
فَٱعْلَمْ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَٮٰكُمْ
پس اے نبیؐ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی 1اللہ تمہاری سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے
1 | اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھاۓ ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لانے میں، اور اسے دین کی خاطر جان لڑانے میں، خواہ اپنی ہی کوشش کرتا رہا ہو، اس کو کبھی اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے کر دیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کر سکا ہوں، اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ سے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ تیری خدمت میں جو کچھ بھی کوتاہی مجھ سے ہوئی ہے اس سے در گزر فرما۔ یہی اصل روح ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی کہ ’’اے نبی، اپنے قصور کی معافی مانگو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا، اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کار نامے کا فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پاۓ، بلکہ اس کا مقام بھی یہ تھا کہ اپنے ساری عظیم القدر خدمات کے باوجود اپنے رب کے حضور اعتراف قصور ہی کرتا رہے۔ اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے۔ ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد کی روایت میں حضور کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ’’میں ہر روز سو بار اللہ استغفار کر تا ہوں |
Surah 73 : Ayat 20
۞ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَىِ ٱلَّيْلِ وَنِصْفَهُۥ وَثُلُثَهُۥ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ مَعَكَۚ وَٱللَّهُ يُقَدِّرُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنَ ٱلْقُرْءَانِۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰۙ وَءَاخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِى ٱلْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِۙ وَءَاخَرُونَ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنْهُۚ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَقْرِضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًاۚ وَمَا تُقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًاۚ وَٱسْتَغْفِرُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُۢ
اے نبیؐ1، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو2، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے3 اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو4 اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہونگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں5، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں6 پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جا سکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو7 اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو 8جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے 9اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے
9 | مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ایکم ما لہ احب الیہ من مال وارثہ؟ ’’تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے‘‘؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ فرمایا اعلموا ما تقولون۔ ’’سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: انما مال احدکم ما قدم و مال وارثہ ما اخر۔ ’’ تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے‘‘۔ (بخاری۔ نسائی۔ مسند ابو یعلیٰ) |
8 | ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، یا بندگان خدا کی مدد ہو، یا رفاہ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ا ول، البقرہ، حاشیہ 267 ۔ المائدہ، حاشیہ 33۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ 16 |
7 | مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوۃ ادا کرنا ہے |
6 | یہاں اللہ تعالی نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ ان دونوں کاموں کو نماز تہجد سے معافی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ما من جالب یجلب طعاماً الی بلد من بلد ان ان المسلمین فیبیعہ لسعر یومیہ الا کانت منزلتہ عند اللہ ثم قرا سول اللہ صلی علیہ وسلم و اخرون یضربون فی الارض ۔ ۔ ۔ ’’جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس روز کے بھاؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہو گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہی آیت پڑھی‘‘ (ابن مردویہ) حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احب الی من ان یا تینی و انا بین شعبتی جبل التمس من فضل اللہ و قرا ھذہ الایۃ ’’جہاد فی سبیل اللہ کے بغد اگر کسی حالت م یں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے ، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی ‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان) |
5 | جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے |
4 | چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرات ہی سے ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا تہجد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگرچہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجد فرض نہیں ، بلکہ نفل ہے، حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا ، کیا اس کے سوا بھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے؟ جواب میں ارشاد ہوا ’’نہیں ، الا کہ تم ا پنی خوشی سے کچھ پڑھو‘‘۔ (بخاری و مسلم) اس آشت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قرات بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قرات کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت، جسم کا پاک ہونا، وضو کرنا، اور ستر چھپانا واجب ن ہیں ہے اور اس میں قیام و قعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں |
3 | ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی کو خطاب کیا گیا تھا۔ اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اس وقت حضورؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر ا کثر صحابہ کرام بھی اس نماز کا اہتمام کرتے تھے |
2 | اگرچہ ابتدائی حکم آدمی رات یا اس سے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں۔ اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ا یک تہائی رہ جاتی تھی |
1 | یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں، حضرت عائشہؓ سے مسند احمد، مسلم ا ور ابو داؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہؓ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے8 مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے کی مدت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے (ابن جریر و ابن ابی حاتم) ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضورؐ کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ ان دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے |
Surah 110 : Ayat 3
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَٱسْتَغْفِرْهُۚ إِنَّهُۥ كَانَ تَوَّابَۢا
تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو1، اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو2، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے
2 | یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اُس نے تمہارے سپرد کی تھی اُس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اُس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو، اُس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اُس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بند گی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں، اُس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہیں آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے ربّ کا جو حق تھا وہ میں نے پورے کا پورا ادا کر دیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کر سکا، اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اُس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے۔ یہ ادب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا، تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اِس غَرّے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اُس پر تھا وہ اُس نے ادا کر دیا ہے۔ اللہ کا حق اِس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اُسے ادا کر سکے۔
اللہ تعالٰی کا یہ فرمان مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمتِ دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں، بلکہ اپنی جان راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتیں رہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو، اُسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخرو غرور میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنے رب کے سا منے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمدو تسبیح اور توبہ استغفار کریں |
1 | حمد سے مراد اللہ تعالٰی کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اُس کا شکر ادا کرنا بھی۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالٰی کو ہر لحاظ سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دینا ہے۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے ربّ کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اُس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اِس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اِس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اِس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے، بلکہ اِس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو، اِس پر اُس کا شکر ادا کرو، اور قلب و زبان سے اِس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دو کہ اُس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اُس پر منحصر تھا۔ اِس کے بر عکس تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی اللہ کی تائید و نصرف پر منحصر تھی، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا۔ اِس کے علاوہ تسبیح، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے۔ جب کوئی مُحِیّر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اُس سے صادر ہو سکتا |