Ayats Found (6)
Surah 40 : Ayat 56
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُجَـٰدِلُونَ فِىٓ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَـٰنٍ أَتَـٰهُمْۙ إِن فِى صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَـٰلِغِيهِۚ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی سند و حجت کے بغیر جو اُن کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیات میں جھگڑے کر رہے ہیں اُن کے دلوں میں کبر بھرا ہوا ہے1، مگر وہ اُس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جس کا وہ گھمنڈ رکھتے ہیں2 بس اللہ کی پناہ مانگ لو3، وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے
3 | یعنی جس طرح فرعون کی دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحدِ قہار کی پناہ مانگ کر موسیٰ بے فکر ہو گئے تھے، اسی طرح سرداران قریش کی دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں تم بھی اس کی پناہ لے لو اور پھر بے فکر ہو کر اس کا کلمہ بلند کرنے میں لگ جاؤ |
2 | دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جس کو اللہ نے بڑا بنایا ہے وہی بڑا بن کر رہے گا، اور یہ چھوٹے لوگ اپنی بڑائی قائم رکھنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ سب آخر کار ناکام ہو جائیں گی |
1 | یعنی ان لوگوں کی بے دلیل مخالفت اور ان کی غیر معقول کج بحثیوں کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کی آیات میں جو سچائیاں اور خیر و صلاح کی باتیں ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے یہ نیک نیتی کے ساتھ ان کو سمجھنے کی خاطر بحثیں کرتے ہیں، بلکہ ان کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا غرور نفس یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے ہوتے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و رہنمائی تسلیم کر لی جاۓ اور بالآخر ایک روز انہیں خود بھی اس شخص کی قیادت ماننی پڑے جس کے مقابلے میں یہ اپنے آپ کو سرداری کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کسی طرح نہ چلنے پاۓ، اور اس مقصد کے لیے انہیں کوئی ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کرنے میں بھی کوئی تامّل نہیں ہے |
Surah 41 : Ayat 36
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ نَزْغٌ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو1، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے2
2 | مخالفتوں کے طوفان میں اللہ کی پناہ مانگ لینے کے بعد جو چیز مومن کے دل میں صبر و سکون اور اطمینان کی ٹھنڈک پیدا کرتی ہے وہ یہ یقین ہے کہ اللہ بے خبر نہیں ہے۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اس سے بھی وہ واقف ہے۔ ہماری اور ہمارے مخالفین کی ساری باتیں وہ سن رہا ہے اور دونوں کا طرز عمل جیسا کچھ بھی ہے اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ اسی اعتماد پر بندہ مومن اپنا اور دشمنان حق کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے پوری طرح مطمئن ہو جا تا ہے۔ یہ پانچواں موقع ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو دعوت دین اور اصلاح خلق کی یہ حکمت سکھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے کے چار مقامات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعرف حواشی ۱۴۹ تا ۵۳ النحل ۱۲۳۔۱۲۲ جلد سوالمومنون حواشی ۹۰۔۸۹ العنکبوت ۸۲۔۸۱ |
1 | شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں ، اور خصوصاً ان کے سربرآوردہ لوگوں ، اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جا سکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں ، فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسرے طرف کی جوابی کاروائی کے درمیان موازنہ کر سکیں ۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی وراستبازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بیجا حرکت،یا ان کے مرتبے سے گِری ہوئی حرکت سرزد ہو جاۓ، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانا مل جاتا ہے۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ شیطان کے فریب سے چوکنے رہو۔ وہ بڑا درد مند و خیر خواہ بن کر تمہیں اشتعال دلاۓ گا کہ فلاں زیادتی تو ہر گز برداشت نہ کی جانی چاہیے، اور فلاں بات کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے، اور اس حملے کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جاۓ گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جاۓ گی۔ ایسے ہر موقع پر جب تمہیں اپنے اندر اس طرح کا کوئی نا مناسب اشتعال محسوس ہو تو خبردار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے جوغصہ دلا کر تم سے کوئی غلطی کرانا چاہتا ہے۔ اور خبردار ہو جانے کے بعد اس زعم میں نہ مبتلا ہو جاؤ کہ میں اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہوں ، شیطان مجھ سے کوئی غلطی نہیں کرا سکتا۔ یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زعم شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطرناک فریب ہو گا۔ اس کے بجاۓ تم کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ وہی توفیق دے اور حفاظت کرے تو آدمی غلطیوں سے بچ سکتا ہے۔ اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابو بکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخر کار جناب صدیقؓ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضورؐ پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرہ مبارک پر نمایا ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گۓ۔ حضرت ابو بکرؓ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہو گۓ؟ فرمایا ’’ جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آ گیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا |
Surah 113 : Ayat 1
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلْفَلَقِ
کہو1، میں پناہ مانگتا ہوں 2صبح کے رب کی3
3 | اصل میں لفظ رَبُّ الْفَلَق استعمال ہوا ہے۔ فلق کے اصل معنی پھاڑ نے کے ہیں۔ مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدہ صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں فَلَقُ الصبح ۔‘‘کا لفظ طلوعِ صبح کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے، اور قرآن میں بھی اللہ تعالٰی کے لیے فَالِقُ الْا ِ صْباح ۔‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی ”وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے“(الانعام۔96)۔ فَلَق ۔‘‘کے دوسرے معنی خَلْق ۔‘‘بھی لیے گئے ہیں، کیونکہ دنیا میں جتنی چیزیں بھی پیدا ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر نکلتی ہیں۔ تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں ۔ تمام حیوانات یا تو رحم مادر سے بر آمد ہوتے ہیں، یا تو انڈا توڑ کر نکلتے ہیں، یا کسی اور مانع ظہو چیز کر چیر کو باہر آتے ہیں تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کر کے نکلتے ہیں۔ دن رات کا پردہ چاک کر کے نمودار ہوتا ہے۔ بارش کے قطرے بادلوں کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں۔ غرض موجودات میں سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آتی ہے ، حتٰی کہ زمین اور سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر انہیں جدا جدا کیا گیا ، کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا ۔‘‘ (الانبیاء۔30)۔ پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے۔ اب اگر پہلے معنی لیے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ میں طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب ہو گا میں تما م خلق کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔ اس جگہ اللہ تعالٰی کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت”رب“اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالٰی کے ”رب “، یعنی مالک و پروردگار اور آقا دمربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ پھر رَبُّ الْفَلَقْ ۔‘‘سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہوتو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہونگے کہ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں اس کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لیے عافیت پیدا کردے ، اور اگر اس سے مراد رَبِّ خَلْق ۔‘‘ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ میں ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تا کہ وہ اپنی مخلوق کے شرسے مجھے بچائے |
2 | پناہ مانگنے کے فعل میں لازماً تین اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ ایک بجائے خود پناہ مانگنا۔ دوسرے پناہ مانگنے والا۔ تیسرا وہ جس کی پناہ مانگی جائے۔ پناہ مانگنے سے مراد کسی چیز سے خوف محسوس کرکے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت میں جانا، یا اس کی آڑ لینا، یا اُس سے لپٹ جانا یا اُس کے سایہ میں چلاجانا ہے۔ پناہ مانگنے والا بہر حال وہی شخص ہوتا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ دوڑ رہا ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں کر سکے گا بلکہ وہ اس کا حاجت مند ہے کہ اُس سے بچنے کے لیے دوسرے کی پناہ لے۔ پھر جس کی پناہ مانگی جاتی ہے وہ لازماً کوئی ایسا ہی شخص یا وجود ہوتا ہے جس کے متعلق پناہ لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اُس خوفناک چیز سے وہی اس کو بچا سکتا ہے۔ اب پناہ کی ایک قسم تو وہ ہے جو قوانین طبعی کے مطابق عالمِ اسباب کے اندر کسی محسوس مادّی چیز یا شخص یا طاقت سے حاصل کی جاتی ہے۔ مثلاً دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کسی قلعہ میں پناہ لینا، یا گولیوں کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے خندق یا کسی دمدمے یا کسی دیوار کی آڑ لینا، یا کسی طاقت ور ظالم سے بچنے کے لیے کسی انسان یا قوم یا حکومت کے پاس پناہ لینا، دھوپ سے بچنے کے لیے کسی درخت یا عمارت کے سایہ میں پناہ لینا۔ بخلاف اس کے دوسری قسم وہ ہے جس میں ہر طرح کے خطرات اور ہر طرح کی مادّی، اخلاقی یارو حانی مضرتوں اور نقصان رساں چیزوں سے کسی فوق الفطری ہستی کی پناہ اِس عقیدے کی بنا پر مانی جاتی ہے کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمران ہے اور بالا تر از حِس و ادراک طریقے سے وہ اس شخص کی ضرور حفاظت کر سکتی ہے جو اس کی پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ پناہ کی یہ دوسری قسم کی نہ صرف سورہ فلق اور سورہ ناس میں مراد ہے۔ بلکہ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالٰی کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہی خاص قسم کی پناہ ہے۔ اور عقیدہ توحید کا لازم یہ ہے کہ اس نوعیت کا تعوذ یا استعاذہ(پناہ مانگنا) اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے۔ مشرکین اس نوعیت کا تحفظ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں، مثلاً جنوں یا دیویوں اور دیوتاؤں سے مانگتے تھے اور آج بھی مانگتے ہیں۔ مادہ پرست لوگ اس کے لیے بھی مادی ذرائع ووسائل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، کیونکہ فوق الفطری طاقت کے قائل نہیں ہیں۔ مگر مومن ایسی تمام آفات و بلیآت کے مقابلہ میں، جن کو دفع کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھتا، صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اسی کی پناہ مانگتا۔ مثال کے طور پر مشرکین کے متعلق قرآن میں بیان کیا گیا ہے: وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْ ذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ ۔ ‘‘، ”اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے“(الجن۔6)۔ اور اس کی تشریح کرتے ہوئے ہم سورہ جن حاشیہ 7 میں حضرت عبدا للہ بن عباس کی یہ روایت نقل کر چکے ہیں کہ مشرکین عرب کو جب رات کسی سنسان وادی میں گزارنی پڑتی تو وہ پکار کر کہتے ” ہم اس وادی کے رب کی (یعنی اس جن کی جو اس وادی کا حکمران ہے یا اس وادی کا مالک ہے) پناہ مانگتے ہیں“۔ بخلاف اس کے فرعون کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پیش کردہ عظیم نشانیوں کو دیکھ کر فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ ۔ ‘‘،”وہ اپنی بل بوتے پر اکڑ گیا“(الذاریات،39)۔ لیکن خدا پرستوں کا رویہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا بھی وہ خوف محسوس کیا کرتے ہیں، خواہ مادی ہو یا اخلاقی یا روحانی اس کے شر سے بچنے کے لیے وہ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جب اچانک تنہائی میں خدا کا فرشتہ ایک مرد کی شکل میں ان کے سامنے آیا(جبکہ وہ نہ جانتی تھیں کہ یہ فرشتہ ہے)تو انہوں نے کہا اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیّاً ۔ ‘‘، ”اگر تو خدا سے ڈرنے والا آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں“( مریم ۔18)۔حضرت نوح نے جب اللہ تعالٰی سے ایک بےجا دعا کی اور جواب اللہ کی طرف سے ان پر ڈانٹ پڑی تو انہوں نے فوراً عرض کیا رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلُکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ ۔ ‘‘،”میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کی درخواست کروں جس کا مجھے علم نہیں “(ہود۔47)۔ حضرت موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں فرمایا ا اَعُوْذُ بِا للہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ۔ ‘‘،”میں خدا کی پناہ مانگا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں“(البقرہ ۔67)۔ یہی شان اُن تمام تَعَوُّذات کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتب حدیث میں منقول ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حضورؐ کی حسب ذیل دعاؤں کو ملاحظہ کیجیے: عن عائشہ ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم کان یقول فی دعآ ئہ الّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ اَعْمَلْ ۔ ‘‘ (مسلم) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ ”خدا یا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اُن کاموں کے شر سے جو میں نے کیے اور ان کاموں کے شر سے جو میں نے نہیں کیے“(یعنی اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے برے نتیجے سے پناہ مانگتا ہوں، اور اگر کوئی کام جو کرنا چاہیے تھا میں نے نہیں کیا تواُس کے نقصان سے بھی پناہ مانگتا ہوں، یا اِس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ جو کام نہ کرنا چاہیے وہ میں کبھی کر گزروں)۔ عن ابن عمر ؓ کان من دعآءِ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اَلّٰھُمَّ اِنّیْٓ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَا لِ نِعْمَتِکَ، وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ، وَفَجْأَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ۔ ‘‘ (مسلم) ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ”خدا یا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ تیری جو نعمت مجھے حاصل ہے وہ چھن جائے ، اور تجھ سے جو عافیت مجھے نصیب ہے وہ نصیب نہ رہے، اور تیرا غضب یکایک ٹوٹ پڑے ، اور پناہ مانگتا ہوں تیری ہر طرح کی ناراضگی سے“۔ عن زید بن ارقم کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الّٰھُمَّ اِ نِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃ ٍلَّا یَسْتَجَابُ ۔ ‘‘ ( مسلم) زید بن ارقم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے”خدا یا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اُس علم سے جو نافع نہ ہوں اس دل سے جو تیرا خوف نہ کرے، اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے“۔ عن ابی ھریرۃ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُوْعِ فَاِنَّہٗ بِئْسَ الضَّجِیْعُ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخِیَا نُۃِ فَاِنَّہٗ بِئْسَتِ الْبِطَا نَۃُ ۔ ‘‘ (ابو داؤد) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے” خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کیونکہ وہ بد ترین چیز ہے جس کے ساتھ کوئی رات گزارے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ وہ بڑی بد باطنی ہے۔ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَ صِ وَ الْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَسِّیِٔ الْاَسْقَامِ ۔ ‘‘ (ابو داؤد) حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے”خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ اور جنون اور جُذام اور تمام بریر بیماریوں سے“۔ عن عائشہ ان النّبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یدعو بھٰؤ لاء الکلمات اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النَّار ِ وَمِنْ شَرِّ الْغِنٰی وَالْفَقِرْ ۔ ‘‘ (ترمذی و ابو داؤد) حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتےتھے: ”خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے فتنے سے اور مالداری اور مفلسی کے شر سے“۔ عن قُطبۃ بن مالک کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّنْکَرَاتِ الْاَخْلَا قِ و َالْا عْمَالِ وَ الْا َھْوَاءِ ۔ ‘‘ (ترمذی) قطبہ بن مالک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔”خدایا، میں برے اخلاق اور برے اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔ شَکَل بن حُمید نے حضورؐ سے عرض کیا مجھے کوئی دعا بتا ئیے۔ فرمایا کہو: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِیْ ، وَمِنْ شَرِّ بَصَرِیْ ، وَمِنْ شِرِّ لِسَانِیْ، وِمِنْ شَرِّ قَلْبِیْ، وَمِنْ شَرِّ مَنِیِّیْ۔ ‘‘ (ترمذی و ابو داؤد) خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنی سماعت کے شر سے، اور اپنی بصارت کے شر سے ، اور اپنی زبان کے شر سے ، اور اپنے دل کے شر سے ، اور اپنی شہوت کے شر سے۔ عن انس بن مالک کان رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجِزْ وَ الْکَسَلِ وَ الْجُبْنِ وَ الْھَدَمِ وَالْبُخْلِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَاوَالْمَمَا تِ (وفی روایۃ لمسلم) وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ (بخاری و مسلم) ‘‘ انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے”خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سُستی اور بزدلی اور بُڑھاپے اور بخل سے، اور تیر ی پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب اور زندگی و موت کے فتنے سے ( اور مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے) اور قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ پر غالب ہوں“۔ ھن خَوْلَۃ بنت حُکَیْم السُّلَمِیَّۃ سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول مَنْ نَّزَلَ مَنْزِ لاً ثُمَّ قَالَ اَعُوْ ذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ یَضُرُّہٗ شَیْٔ حَتّٰی یَرْ تَحِلَ مِنْ ذٰلِکَ الْمَنْزِلِ ‘‘ (مسلم) خَوْلَہ بنت حُکَیم سُلَمِیّہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی نئی منزل پر اترے اور یہ الفاظ کہے کہ ”میں اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ مانگتا ہوں مخلوقات کے شر سے، تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس منزل سے کوچ کر جائے۔ یہ حضور ؐ کے چند تَعوُّذات بطور نمونہ ہم نے احادیث سے نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہر خطرے اور شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہے نہ کہ کسی اور کی پناہ ، اور نہ اس کا یہ کام ہے کہ خدا سے بے نیاز ہو کر وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرے |
1 | ۔ چونکہ قُل (کہو) کا لفظ اُس کا پیغام کا ایک حصہ ہے جو تبلیغِ رسالت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے، اس لیے اگر چہ اِس ارشاد کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، مگر آپ کے بعد ہر مومن بھی اِس کا مخاطب ہے |
Surah 113 : Ayat 5
وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ
اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے1
1 | حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت یا فضیلت یا خوبی عطا کی ہو اس پر کوئی دوسرا شخص چلے اور یہ چاہے کہ وہ اُسے سے سلب ہو کر حاسد کو مل جائے یا کم از کم یہ کہ اُس سے ضرور چِھن جائے۔ البتہ حسد کی تعریف میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی شخص یہ چاہے کہ جس فضل دوسرے کو ملا ہے وہ مجھے بھی مل جائے، یہاں حاسد کے شر سے اللہ تعالٰی کی پناہ اُس حالت میں مانگی گئی ہے جب کہ وہ حسد کرے، یعنی اپنے دل کی آگ بجھانے کے لیے قول یا عمل سے کوئی اقدام کرے۔ کیونکہ جب تک وہ کوئی اقدام نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا جلنا بجائے خود چاہے بُراسہی، مگر محسود کے لیے ایسا شر نہیں بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے۔ پھر جب ایسا شر کسی حاسد سے ظاہر ہو تو اُس سے بچنے کے لیے اولین تدبیر یہ ہے کہ اللہ کی پناہ مانگی جائے۔ اس کے ساتھ حاسد کے شر سے امان پانے کے لیے چند چیزیں اور بھی مددگار ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اللہ پر بھروسہ کرے اور یقین رکھے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسرے یہ کہ حاسد کی باتو ں پر صبر کرے، بے صبر ہو کر ایسی باتیں یا کاروائیاں نہ کرنے لگے جن سے وہ خود بھی اخلاقی طور پر حاسد ہی کی سطح پر آجائے۔ تیسرے یہ کہ حاسد خواہ خدا سے بے خوف اور خلق سے بے شرم ہو کر کیسی ہی بیہودہ حرکتیں کرتا رہے، محسود بہر حال تقویٰ پر قائم رہے ۔ چوتھے یہ کہ اپنے دل کو اُس کی فکر سے بالکل فارغ کر لے اور اُس کو اِس طرح نظر انداز کر دے کہ گویا وہ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ اُس کی فکر میں پڑنا حاسد سے مغلوب ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ پانچویں یہ کہ حاسد کے ساتھ بدی سے پیش آنا تو درکنار، جب کبھی ایسا موقع آئے کہ محسود اس کے ساتھ بھلائی اور احسان کا برتاؤ کر سکتا ہو تو ضرور ایسا ہی کرے، قطع نظر اِس سے کہ حاسد کے دل کی جلن محسود کے اِس نیک رویّہ سے مٹتی ہے یا نہیں۔ چھٹے یہ کہ محسود توحید کے عقیدے کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس بات پر ثابت قدم رہے، کیونکہ جس دل میں توحید بسی ہو ئی ہو اس میں خدا کے خوف کے ساتھ کسی اور کا خوف جگہ ہی نہیں پاسکتا |
Surah 114 : Ayat 1
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلنَّاسِ
کہو، میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب
Surah 114 : Ayat 6
مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ
خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے1
1 | بعض اہل علم کے نزدیک اِن الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے والا دوقسم کے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، ایک جن، دوسرے انسان۔ اس بات کو اگر تسلیم کیا جائے تو لفظ ناس کا اطلاق جن اور انسان دونوں پر ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے، کیونکہ قرآن میں جب رِجَا لٌ ( مردوں ) کا لفظ جِنوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورہ جن آیت 6 میں ہم دیکھتے ہیں، اور جب نَفَر کا استعمال جِنوں کے گروہ پر ہو سکتا ہے، جیسا کہ سورہ احقاف آیت29 میں ہوا ہے، تو مجازًا ناس کے لفظ میں بھی انسان اور جِن دونوں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ رائے اس لیے غلط ہے کہ ناس اور انس اور انسان کے الفاظ لغت ہی کے اعتبار سے لفظ جِن کی ضد ہیں۔ جِنّ کے اصل معنی پوشیدہ مخلوق کے ہیں اور جِن کوجِن اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی آنکھ سے مخفی ہے۔ اس کے بر عکس ناس او ر اِنس کے الفاظ انسان کے لییے بولے ہی اس بنا پر جاتے ہیں کہ وہ ظاہر اور مَرْئی اور محسوس ہے۔ سورہ قَصص ، آیت29 میں ہے ،”اگر تم محسوس کرو کہ یتیم بچے اب ہوشمند ہوگئے ہیں“ یہاں اٰنَسْتُم کے معنی اَحْسَنْتُمْ یَا رَاَیْتُمْ ہیں۔ پس ناس کا اطلاق لغتِ عرب کی رو سے جِنوں پر نہیں ہو سکتا، اور آیت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ ” اُس وسوسہ انداز کے شر سے جو انسانوں کے دلو ں میں وسوسے ڈالتا ہے، خواہ وہ جِنوں میں سے ہو یا خود انسانوں میں سے“ یعنی دوسرے الفاظ میں وسوسہ اندازی کا کام شیاطینِ جِن بھی کرتے ہیں اور شیاطین اِنس بھی، اور دونوں کے شر سے پناہ مانگنے کی اس سورہ میں تلقین کی گئی ہے۔ اس معنی کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اور حدیث سے بھی۔ قرآن میں فرمایا |