Ayats Found (2)
Surah 107 : Ayat 4
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ
پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے1
1 | فَوَیْلٌ لّلْمُصَلِّیْنَ۔ ‘‘کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔یہاں ف اس معنی میں ہے کہ کھلے کھلے منکرین آخرت کا حال تو یہ تھا جو ابھی تم نے سنا، اب ذرا ان منافقوں کا حال بھی دیکھو جو نماز پڑھنے والے گروہ، یعنی مسلمانوں میں شامل ہیں۔ وہ چونکہ بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود آخرت کو جھوٹ سمجھتے ہیں، اس لیے ذرا دیکھو کہ وہ اپنے لیے کس تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔ مصلین کے معنی تو ’’نماز پڑھنے والوں‘‘ کے ہیں، لیکن جس سلسلہ کلام میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آگے ان لوگوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی در حقیقت نمازی ہونے کے نہیں بلکہ اہل صلوۃ ، یعنی مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہونے کے ہیں |
Surah 107 : Ayat 7
وَيَمْنَعُونَ ٱلْمَاعُونَ
اور معمولی ضرورت کی چیزیں1 (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں
1 | اصل میں لفظ ماعون استعمال ہوا ہے۔ حضرت علیؓ ، ابن عمرؓ، سعید بن خبیر، قتادہ، حسن بصری ، محمد بن حنفیہ، ضحاک، ابن زید، عکرمہ ، مجاہد ، عطاء اور زہری رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوۃ ہے۔ ابن عباسؓ ، ابن مسعودؓ، ابراہیم ؓنخعی، ابو مالکؒ اور بہت سے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مرد عام ضرورت کی اشیاء مثال ہنڈیا، ڈول، کلہاڑی ، ترازو، نمک، پانی، آگ، چقماق (جس کی جانشین اب دیا سلائی ہے) وغیرہ ہیں جو عموماً لوگ ایک دوسرے سے عاریۃً مانگتے رہتے ہیں۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ حضرت علی کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوۃ بھی ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی عام ضروریات کی چیزیں بھی۔ عکرمہ سے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ ماعون کا اعلی مرتبہ زکوۃ ہے ا ور ا دنی ترین مرتبہ یہ ہے کہ کسی کو چھلنی، ڈول یا سوئی عاریۃً دی جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب محمد ﷺ یہ کہا کرتے تھے (اور بعض روایات میں ہےکہ حضورؐ کے عہدِ مبارک میں یہ کہا کرتے تھے) ماعون سے مراد ہنڈیا، کلہاڑی، ڈول، ترازو، اور ایسی ہی دوسری چیزیں مستعار دینا ہے (ابن جریر، ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، نسائی، بنرار، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی فی الاوسط، ابن مردویہ، بیہقی فی السنن)۔ سعد بن عیاض ناموں کی تصریح کے بغیر قریب قریب یہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ سے نقل کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے متعدد صحابہ سے یہ بات سنی تھی (ابن جریر، ابن شییہ) دیلمی، ابن عساکر اور ابو نعیم نے حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی یہ تفسیربیان فرمائی کہ اس سے مراد کلہاڑی اور ڈول اور ایسی ہی دوسری چیزیں ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو غالباً یہ دوسرے لوگوں کے علم میں نہ آئی ہو گی، ورنہ ممکن نہ تھا کہ پھر کوئی شخص اس آیت کی کوئی اور تفسیر کرتا۔
اصل بات یہ ہے کہ ماعون چھوٹی اور قلیل چیز کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کے لیے کوئی منضعت یا فائدہ ہو۔ اس معنی کے لحاظ سے زکٰوۃ بھی ماعون ہے، کیونکہ وہ بہت سے مال میں سے تھوڑا سا مال ہے جو غرہبوں کی مدد کے لیے دینا ہوتا ہے، اور وہ دوسری عام ضرورت کی اشیاء بھی ماعون ہیں جن کا ذکر حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے ہم خیال حضرات نے کیا ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ماعون کا اِطلاق اُن تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوتا ہے جو عادۃً ہمسایے ایک دوسرے سے مانگتے رہتے ہیں۔ اُن کا مانگنا کوئی ذلت کی بات نہیں ہوتی، کیونکہ غریب اور امیر سب ہی کو کسی نہ کسی وقت ان کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ البتہ ایسی چیزوں کو دینے سے بخل برتنا اخلاقاً ایک ذلیل حرکت سمجھا جاتا ہے۔ عموماً ایسی چیزیں بجائے خود باقی رہتی ہیں اور ہمسایہ ان سے کام لے کر انہیں جوں کا توں واپس دے دیتا ہے۔
اسی ماعون کی تعریف میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کے ہاں مہمان آجائیں اور وہ ہمسائے سے چارپائی یا بستر مانگ لے۔ یا کوئی اپنےہمسائے کے تنور میں اپنی روٹی پکا لینے کی اجازت مانگے۔ یا کوئی کچھ دنوں کے لیے باہر جا رہا ہو اور حفاظت کے لیے اپنا کوئی قیمتی سامان دوسرے کے ہاں رکھوانا چاہیے۔ پس آیت کا مقصود یہ بتانا ہے کہ آخرت کا انکار آدمی کو اتنا تنگ دل بنا دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کوئی معمولی ایثار کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ |