Ayats Found (8)
Surah 22 : Ayat 34
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَٲحِدٌ فَلَهُۥٓ أَسْلِمُواْۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُخْبِتِينَ
ہر امّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس امّت کے لوگ) اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں1 (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیع فرمان بنو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے عاجزانہ رَوش اختیار کرنے والوں کو2
2 | اصل میں لفظ ’’مُخْبِتِین‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں اِستکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا۔ اس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کے فیصلوں پر راضی ہو جانا |
1 | اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائع الہٰیہ کے نظام عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیر اللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے مختص کر دیا جائے۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے۔ شرائع الہٰیہ نے اسے اللہ کے یے خاص کر دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں ممنوع کر کے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ انسان نے معبود ان باطل کی تیرتھ یاترا کی ہے۔ شرائع الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مقدس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت اور طواف کا حکم دے دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے جانوروں کی قربانیاں بھی کرتا رہا ہے اور شرائع الٰہیہ نے ان کو بھی غیر کے لیے قطعاً حرام اور اللہ کے یے واجب کر دیا۔ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں ، مگر سب کی روح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے |
Surah 22 : Ayat 35
ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَٱلصَّـٰبِرِينَ عَلَىٰ مَآ أَصَابَهُمْ وَٱلْمُقِيمِى ٱلصَّلَوٲةِ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ
جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں1
1 | اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کر چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا ، رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لینا ، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ ، اور عیش و عشرت کے خرچ اور ریا کارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن ’’ انفاق‘‘ قرار دیتا ہو ، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے، کہ آدمی اپنے اہل و عیاں کو بھی تنگ رکھے ، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے ، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے، تو اس صورت میں اگر چہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے ، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام اانفاق ‘‘ نہیں ہے۔ وہ اس کو ’’ بخل‘‘ اور شُحِّ نفس‘‘ کہتا ہے |
Surah 24 : Ayat 37
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَـٰرَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ ٱللَّهِ وَإِقَامِ ٱلصَّلَوٲةِ وَإِيتَآءِ ٱلزَّكَوٲةِۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ ٱلْقُلُوبُ وَٱلْأَبْصَـٰرُ
اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی
Surah 24 : Ayat 38
لِيَجْزِيَهُمُ ٱللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُواْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِۦۗ وَٱللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
(اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں) تاکہ اللہ ان کے بہترین اعمال کی جزا اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے1
1 | یہاں ان صفات کی تشریح کر دی گئی جو اللہ کے نور مطلق کا ادراک کرنے اور اس کے فیض سے بہرہ مند ہونے کے لیے درکار ہیں۔ اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے کہ یونہی جسے چاہا مالا مال کر دیا اور جسے چاہا دھتکار دیا۔ وہ جسے دیتا ہے کچھ دیکھ کر ہی دیتا ہے ، اور نعمت حق دینے کے معاملے میں جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے دل میں اس کی محبت ، اور اس سے دلچسپی، اور اس کا خوف ، اور اس کے انعام کی طلب ، اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش موجود ہے۔ وہ دنیا پرستی ہیں گم نہیں ہے۔ بلکہ ساری مصروفیتوں کے باوجود اس کے دل میں اپنے خدا کی یاد بسی رہتی ہے۔ وہ پستیوں میں پڑا نہیں رہنا چاہتا بلکہ اس بلندی کو عملاً اختیار کرتا ہے جس کی طرف اس کا مالک اس کی رہنمائی کرے۔ وہ اسی حیات چند روزہ کے فائدوں کا طلبگار نہیں ہے بلکہ اس کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی ہوئی ہے۔ یہی کچھ دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آدمی کو اللہ کے نور سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشی جاۓ۔ پھر جب اللہ دینے پر آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ آدمی کا اپنا دامن ہی تنگ ہو تو دوسری بات ہے ، ورنہ اس کی دین کے لیے کوئی حد و نہایت نہیں ہے |
Surah 35 : Ayat 29
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَـٰبَ ٱللَّهِ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَـٰرَةً لَّن تَبُورَ
جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے اُنہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا
Surah 35 : Ayat 30
لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِۚۦٓ إِنَّهُۥ غَفُورٌ شَكُورٌ
(اس تجارت میں انہوں نے اپنا سب کچھ اِس لیے کھپایا ہے) تاکہ اللہ اُن کے اجر پورے کے پورے اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے ان کو عطا فرمائے1 بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان ہے2
2 | یعنی مخلص اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالٰی کا معاملہ اس تنگ دل آقا کا سا نہیں ہے جو بات بات پر گرفت کرتا ہو اور ایک ذرا سی خطا پر اپنے ملازم کی ساری خدمتوں اور وفا داریوں پر پانی پھیر دیتا ہو۔ وہ فیاض اور کریم آقا ہے۔ جو بندہ اس کا وفادار ہو اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور جو کچھ بھی خدمت اس سے بن آئی ہو اس کی قدر فرماتا ہے۔ |
1 | اہل ایمان کے اس عمل کو تجارت سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ آدمی تجارت میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ نہ صرف اصل واپس ملے گا، اور نہ صرف وقت اور محنت کی اجت ملے گی، بلکہ کچھ مزید منافعہ بھی حاصل ہوگا۔ اسی طرح ایک مومن بھی خدا کی فرمانبرداری میں، اس کی بندگی و عبادت میں، اور اس کے دین کی خاطر جدوجہد میں، اپنا مال، اپنے اوقات، اپنی محنتیں اور قابلیتیں اس امید پرکھپا دیتا ہے کہ نہ صرف ان سب کا پورا پورا اجر ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے مزید بہت کچھ عنایت فرمائے گا۔ مگر دونوں تجارتوں میں فرق اور بہت بڑا فرق اس بنا پر ہے کہ دنیوی تجارت میں محض نفع ہی کی امید نہیں ہوتی، گھاٹے اور دیوالے تک کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ بخلاف اس کے جو تجارت ایک مخلص بندہ اپنے خدا کے ساتھ کرتا ہے اس میں کسی خسارے کا اندیشہ نہیں۔ |
Surah 27 : Ayat 2
هُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
ہدایت اور بشارت1 اُن ایمان لانے والوں کے لیے
1 | یعنی یہ آیات ہدایت اوربشارت ہیں۔ ہدایت کرنے والی اوربشارت دینے والی کہنےکے بجائے انہیں بجائےخود’’ہدایت‘‘اور’’بشارت‘‘کہاگیا جس سے رہنمائی اور بشارت کے وصف میں ان کے کمال کا اظہار مقصود ہے۔ جیسے کسی کوآپ سخی کہنے کے بجائے مجسّم سخاوت اورحسین کہنے کے بجائے ازسر تاپاحسن کہیں۔ |
Surah 27 : Ayat 3
ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَهُم بِٱلْأَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں1، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں2
2 | اگرچہ آخرت کا عقیدہ ایمانیات میں شامل ہے، اوراس بنا پر’’ایمان لانےوالوں‘‘سے مراد ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہیں جو توحید اوررسالت کے ساتھ آخرت پر بھی ایمان لائیں، لیکن ایمانیات کے ضمن میں اس کے آپ سے آپ شامل ہونے کےباوجود یہاں اس عقیدےکی اہمیت ظاہرکرنےکےلیےخاص طور پرزور دے کر اسے الگ بیان کیا ہے۔اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ آخرت کے قائل نہ ہوں ان کےلیے اس قرآن کے بتائے ہوئے راستے پرچلنا بلکہ اس پر قدم رکھنا بھی محال ہے۔ کیونکہ اس طرزفکرکے لوگ طبعاََ اپنامعیارِخیروشرصرف اُنہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو راس دنیا میںظاہرہوتےیاہوسکتے ہیں۔ اوران کےلیےکسی ایسی نصیحت وبدایت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتاجو اُخروی کو سوددزیاں اور نفع نقصان کامعیارقراردےکرخیروشرکاتعین کرتی ہو۔ ایسےاول توانبیاءعلیہم السلام کی تعلیم پرکان ہی نہیں دھرتے، اگرکسی وجہ سے وہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو بھی جائیں توآخرت کایقین نہ ہوناکےباعث ان کےلیےایمان واسلام کےراستےپرایک قدم چلنا بھی ہوتاہے۔ اس راہ میں پہلی ہی آزمائش جب پیش آئےگی، جہاں دُنیوی فائدے اور اُخروی نقصان کےتقاضے انہیں دومختلف سمتوں میں کھینچیں گے تو وہ بے تکلف دنیا کے فائدے کی طرف کھچ جائیں گےاور آخرت کےنقصان کی ذرہ برابر پروانہ کریں گے، خواہ زبان سے وہ ایمان کےکتنے ہی دعوے کرتےرہیں |
1 | یعنی قرآن مجید کی یہ آیات رہنمائی بھی صرف اُنہین لوگوں کی کرتی ہیں اورانجام نیک کی خوشخبری بھی صرف انہی لوگوں کو دیتے ہیں جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں:ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں۔ اور ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ وہ قرآن محمد ﷺ کی دعوت کو قبول کرلیں، خداے واحد کو اپناایک ہی الٰہ اور رب مان لیں، قرآن کوخدا کی کتاب تسلیم کرلیں، محمد ﷺ کو نبی برحق مان کر اپنا پیشوا بنالیں، اور عقیدہ بھی اختیار کرلیں کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہےجس مین ہم کو اپنے اعمال کا حساب دینااور جزائے اعمال سے دوچار ہونا ہے دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو محض مان کر نہ رہ جائیں بلکہ عملاََ اتباع واطاعت کےلیے آمادہ ہوں۔ اور اس آمادگی کی اوّلین علامت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں۔ یہ دونوں شرطیں جو لوگ پوری کردیں گے انہی کو قرآن کی آیات دنیا میں زندگی کاسیدھا راستہ بتائیں گی اس راستہ کے ہر مرحلے میں ان کو صحیح اورغلط کافرق سمجھائیں گی، اس کےہر موڑ پر انہیں غلط راہوں کی طرف جانے سے بچائیں گی، اور ان کو یہ اطمینان بخشیں گی کہ راست روی کےنتائج دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوں، آخرکارابدی اور دائمی فلاح اسی کی بدولت انہیں حاصل ہوگی اوروہ اللہ تعالٰی کی خوشنودی سے سرفراز ہوں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک معلم کی تعلیم سے وہی شخص فائدہ اُٹھاسکتا ہے جو اس پر اعتماد کرکےواقعی اس کی فناگردی قبول کرلے اور پھر اس کی ہدایت کے مطابق کام بھی کرے۔ ایک ڈاکٹر سے استفادہ وہی مریض کرسکتا ہے جواسےاپنامعالج بنائے اور دوااورپرہیزوغیرہ کے معاملہ میں اس کی ہدایات پر عمل کرے۔ سی صور ت میں معلم اور ڈاکٹر یہ اطمینان دلاسکتے ہیں کہ آدمی کو نتائج مطلوبہ حاصل ہوں گے بعض لوگوں نے اس آیت میں یوتوں الزکوٰۃ کالفظ جہاں بھی آیا ہے، اس سے مراد وہ زکوٰۃ ادا کرنا ہے جونماز کے ساتھ اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ علاوہ بریں زکٰوۃ کےلیے ایتاء کا لفظ استعمال ہوا ہے جو زکٰوۃِمال اداکرنے کےمعنی متعین کردیتاہےکیونکہ عربی زبان میں پاکیزگی اختیار کرنےکےلیے تزکی کا لفظ بولا جاتا ہے نہ کہ ایتاءزکٰوۃ۔ دراصل یہاں جوبات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ کہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کےلیے ایمان کے ساتھ عملاََ اطاعت و اتباع کارویّہ اختیارکرنا بھی ضروری ہے، اور اقامتِ صلٰوۃ وایتاء زکٰوۃ وہ پہلی علامت ہے جویہ ظاہر کرتی ہے کہ آدمی نے واقعی اطاعت قبول کرلی ہے۔ یہ علامت جہاں غائب ہوئی وہاں فوراََ یہ معلوم ل ہوجاتا ہے کہ آدمی سرکش ہے، حاکم کوحاکم چاہیے اس نے مان لیا مگر حکم کی پیروی کےلیے وہ تیار نہیں ہے |