Ayats Found (7)
Surah 9 : Ayat 18
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٲةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا ٱللَّهَۖ فَعَسَىٰٓ أُوْلَـٰٓئِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ ٱلْمُهْتَدِينَ
اللہ کی مسجدوں کے آباد کار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نما ز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے
Surah 2 : Ayat 3
ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱلْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں3
3 | یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے کہ آدمی تنگ دل نہ ہو، زر پرست نہ ہو، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں اُنہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے |
Surah 2 : Ayat 5
أُوْلَـٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں
Surah 31 : Ayat 4
ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَهُم بِٱلْأَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں1
1 | یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو’’ نیکو کار‘‘ کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ دراصل پہلے’’نیکو کار‘‘ کا عام لفظ اِستعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ اُن تمام بُرائیوں سے رُکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے، اور اُن سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے۔ پھر اُن’’نیکو کار‘‘ لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصُود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار اِن ہی تین چیزوں پر ہے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، جس سے ایثاروقربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب اُبھرتی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے، جس کی بدولت وہ اُس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھُوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہو جاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اوراپنی ساری کار گزاریوں پر اپنےآقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ اِن تینوں خصوصیات کی وجہ یہ’’نیکوکار‘‘اُس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اِتفاقاً نیکی سرزد ہو جاتی ہے اور بدی بھی اُسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات اُن کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر واخلا ق پیدا کر دیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو اُن کے نظامِ فکر واخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔ |
Surah 31 : Ayat 5
أُوْلَـٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں1
1 | جس زمانہ میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اُس وقت کفّارِ مکّہ یہ سمجھتے تھے اورعلانیہ کہتے بھی تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ و سلم اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ اِس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ’’یہی فلاح پانے والے ہیں‘‘ یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیالِ خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اُس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے اِنکار کیا ہے۔ یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دُنیا کی حد تک اور وہ بھی صرف مادّی خوشحالی کے معنی میں لے گا۔ فلاح کا قرآنی تصوّر معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیم القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھنا چاہیے : البقرہ، آیات ۲ تا ۵۔ آل عمران، آیات ۱۰۲، ۱۳۰، ۲۰۰۔ المائدہ، آیات ۳۵، ۹۰ الانعام، ۲۱۔ الاعراف، آیات ۷، ۸، ۱۵۷۔ التوبہ، ۸۸۔ یونس، ۱۷۔ النحل، ۱۱۶۔ الحج، ۷۷۔ المومنون، ۱۔۱۱۷۔ النور، ۵۱۔ الروم، ۳۸ |
Surah 27 : Ayat 1
طسٓۚ تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱلْقُرْءَانِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ
ط س یہ آیات ہیں قرآن اور کتاب مبین کی1
1 | کتاب مبین کا ایک مطلب یہ ہے کہ کتاب اپنی تعلیمات اور اپنے احکام اورہدایات کو بالکل واضح طریقے سے بیان کرتی ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ وہ حق اور باطل کا فرق نمایاں طریقے سے کھول دیتی ہے۔ اور ایک تیسرامطلب یہ بھی ہے کہ اس کا کتاب الٰہی ہونا ظاہری ہے جو کو ئی اسے آنکھیں کھول کر پڑےگا اس پر یہ بات کھل جائیگی کہ یہ محمد ﷺ کا اپناگھڑا ہوا کلام ہے |
Surah 27 : Ayat 3
ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَهُم بِٱلْأَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں1، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں2
2 | اگرچہ آخرت کا عقیدہ ایمانیات میں شامل ہے، اوراس بنا پر’’ایمان لانےوالوں‘‘سے مراد ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہیں جو توحید اوررسالت کے ساتھ آخرت پر بھی ایمان لائیں، لیکن ایمانیات کے ضمن میں اس کے آپ سے آپ شامل ہونے کےباوجود یہاں اس عقیدےکی اہمیت ظاہرکرنےکےلیےخاص طور پرزور دے کر اسے الگ بیان کیا ہے۔اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ آخرت کے قائل نہ ہوں ان کےلیے اس قرآن کے بتائے ہوئے راستے پرچلنا بلکہ اس پر قدم رکھنا بھی محال ہے۔ کیونکہ اس طرزفکرکے لوگ طبعاََ اپنامعیارِخیروشرصرف اُنہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو راس دنیا میںظاہرہوتےیاہوسکتے ہیں۔ اوران کےلیےکسی ایسی نصیحت وبدایت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتاجو اُخروی کو سوددزیاں اور نفع نقصان کامعیارقراردےکرخیروشرکاتعین کرتی ہو۔ ایسےاول توانبیاءعلیہم السلام کی تعلیم پرکان ہی نہیں دھرتے، اگرکسی وجہ سے وہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو بھی جائیں توآخرت کایقین نہ ہوناکےباعث ان کےلیےایمان واسلام کےراستےپرایک قدم چلنا بھی ہوتاہے۔ اس راہ میں پہلی ہی آزمائش جب پیش آئےگی، جہاں دُنیوی فائدے اور اُخروی نقصان کےتقاضے انہیں دومختلف سمتوں میں کھینچیں گے تو وہ بے تکلف دنیا کے فائدے کی طرف کھچ جائیں گےاور آخرت کےنقصان کی ذرہ برابر پروانہ کریں گے، خواہ زبان سے وہ ایمان کےکتنے ہی دعوے کرتےرہیں |
1 | یعنی قرآن مجید کی یہ آیات رہنمائی بھی صرف اُنہین لوگوں کی کرتی ہیں اورانجام نیک کی خوشخبری بھی صرف انہی لوگوں کو دیتے ہیں جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں:ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں۔ اور ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ وہ قرآن محمد ﷺ کی دعوت کو قبول کرلیں، خداے واحد کو اپناایک ہی الٰہ اور رب مان لیں، قرآن کوخدا کی کتاب تسلیم کرلیں، محمد ﷺ کو نبی برحق مان کر اپنا پیشوا بنالیں، اور عقیدہ بھی اختیار کرلیں کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہےجس مین ہم کو اپنے اعمال کا حساب دینااور جزائے اعمال سے دوچار ہونا ہے دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو محض مان کر نہ رہ جائیں بلکہ عملاََ اتباع واطاعت کےلیے آمادہ ہوں۔ اور اس آمادگی کی اوّلین علامت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں۔ یہ دونوں شرطیں جو لوگ پوری کردیں گے انہی کو قرآن کی آیات دنیا میں زندگی کاسیدھا راستہ بتائیں گی اس راستہ کے ہر مرحلے میں ان کو صحیح اورغلط کافرق سمجھائیں گی، اس کےہر موڑ پر انہیں غلط راہوں کی طرف جانے سے بچائیں گی، اور ان کو یہ اطمینان بخشیں گی کہ راست روی کےنتائج دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوں، آخرکارابدی اور دائمی فلاح اسی کی بدولت انہیں حاصل ہوگی اوروہ اللہ تعالٰی کی خوشنودی سے سرفراز ہوں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک معلم کی تعلیم سے وہی شخص فائدہ اُٹھاسکتا ہے جو اس پر اعتماد کرکےواقعی اس کی فناگردی قبول کرلے اور پھر اس کی ہدایت کے مطابق کام بھی کرے۔ ایک ڈاکٹر سے استفادہ وہی مریض کرسکتا ہے جواسےاپنامعالج بنائے اور دوااورپرہیزوغیرہ کے معاملہ میں اس کی ہدایات پر عمل کرے۔ سی صور ت میں معلم اور ڈاکٹر یہ اطمینان دلاسکتے ہیں کہ آدمی کو نتائج مطلوبہ حاصل ہوں گے بعض لوگوں نے اس آیت میں یوتوں الزکوٰۃ کالفظ جہاں بھی آیا ہے، اس سے مراد وہ زکوٰۃ ادا کرنا ہے جونماز کے ساتھ اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ علاوہ بریں زکٰوۃ کےلیے ایتاء کا لفظ استعمال ہوا ہے جو زکٰوۃِمال اداکرنے کےمعنی متعین کردیتاہےکیونکہ عربی زبان میں پاکیزگی اختیار کرنےکےلیے تزکی کا لفظ بولا جاتا ہے نہ کہ ایتاءزکٰوۃ۔ دراصل یہاں جوبات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ کہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کےلیے ایمان کے ساتھ عملاََ اطاعت و اتباع کارویّہ اختیارکرنا بھی ضروری ہے، اور اقامتِ صلٰوۃ وایتاء زکٰوۃ وہ پہلی علامت ہے جویہ ظاہر کرتی ہے کہ آدمی نے واقعی اطاعت قبول کرلی ہے۔ یہ علامت جہاں غائب ہوئی وہاں فوراََ یہ معلوم ل ہوجاتا ہے کہ آدمی سرکش ہے، حاکم کوحاکم چاہیے اس نے مان لیا مگر حکم کی پیروی کےلیے وہ تیار نہیں ہے |